Thursday 28 July 2016

میں اب پہلے سے بہتر دیکھتا ہوں


کتے فرض شناسی اور وفاداری کیلئے مشہور ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ فرد شناسی کے بغیر کوئی جانور یا انسان فرض شناس نہیں ہوسکتا۔ کتے اپنے اور پرائے کا فرق خوب جانتے ہیں۔وہ اپنے محلے والوں پر نہیں بھونکتے لیکن باہروالے نووارد  پر ٹوٹ پڑتےہیں۔ انسانوں میں بھی تفریق و امتیاز ملحوظ خاطر رکھتےہیں ۔ اپنے مالک کے تلوے  چاٹنے والے اس کے دشمنوں کوبڑھ چڑھ کر کاٹتےہیں اگر یقین نہیں آتا ہو تو ارنب گوسوامی کو دیکھ لیجئے۔  کتے کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اپنی جانب پھینکے جانے والے پتھر کی طرف نہیں بلکہ پھینکنے والے شخص کی طرف لپکتا ہے لیکن ارنب جیسا دشمن جب  ہماری جانب  کوئی فرضی تنازع  اچھالتا ہے تو ہم پتھرکے تعاقب میں دوڑ پڑتے ہیں ۔حالانکہ نہ صرف پتھر پھینکنے والے کو بلکہ اس کےمقاصد کو بھی جاننے کی سعی ہونی چاہئے تاکہ ان ناپاک ارادوں کی سرکوبی ممکن ہوسکے۔ 
عصر حاضر کی مکاری نےکیوں کو کیا سے زیادہ اہم بنادیا ہے اس لئے کون کیا کررہا ہے کے ساتھ کیوں کررہا ہے یہ بھی جاننا ضروری ہےورنہ نادانستہ ہم دشمن کے آلۂ  کار بن سکتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی عیار  کتے کا زہر زائل کرنے والاانجکشن لگانے بعدمحض اکسانے کی خاطر دعوت مبازرت دے۔  اس کے جواب میں ہمارے شور شرابے کے سبب ذرائع ا بلاغ  متوجہ ہوجائے،جو بنیادی سبب  یعنی ابتدائی پتھر دکھانے کے بجائے اس کے خلاف ہونے والےاحتجاج کوہ نشر کر رائے عامہ کو بگاڑنے میں جٹ جائے تاکہ ردعمل کرنے والوں کو پاگل قرار دیا جاسکے ۔ حالانکہ یہ موقع پتھر مارنے والے کی راہ ہموار کرنے کا نہیں بلکہ اسکے گھناونے  مقاصد کوحکمت کے ساتھ ناکام بنانے کا  ہے۔  ورنہ لوہا گرم ہوجانے پرہتھوڑا چلادیا جاتا ہے۔ دشنام طرازی آگے چل کر مارپیٹ یاگولیاں میں بدل جاتی ہے اور احمق تماش بین تالیاں بجاتے ہیں۔
 مایا وتی کے معاملے میں یہی ہوا؟ ایک بدزبان دیاشنکر سنگھ نے انہیں کھلے عام طوائف  سے بدترکہہ دیا ۔  جب  ایوان پارلیمان میں احتجاج ہوا تو گھبرا کر سنگھ کو پارٹی سے نکال باہر کیا گیااور وہ کاغذی شیر بھاگ کر جھارکھنڈ کے کسی مندر میں روپوش ہوگیا۔ اس کے بعد وکیل کے ذریعہ پیشگی ضمانت حاصل کرنے کی کوشش میں لگ گیا تاکہ جیل جانے کی نوبت نہ آئے  ۔ اس بیچ بی ایس پی والوں نے عوامی  احتجاج کرکے دیا شنکر سنگھ کے ساتھ ساتھ اس کے اہل خانہ کو بھی نشانے پر لے لیا بس پھر کیا تھا ایک ہریجن کی مجال جو ٹھاکر کی جانب نظر اٹھا کر دیکھے ۔ پرلیہ آگیا پرلیہ ۔ دیا شنکر کی ماں تریتا دیوی جو اپنے بیٹے کی تربیت میں ناکام رہیں تھیں پولس تھانے پہنچ گئیں اور بی ایس پی کے سکریٹری نسیم الدین کے خلاف ایف آئی آر درج کروادی ۔
اپنے شوہر نامدار کو قابو میں نہیں رکھ  پانے والی دیا شنکر کی اہلیہ سواتی سنگھ سے بھی نہیں رہا گیا ۔ وہ گورنر کی خدمت میں حاضر ہوگئیں اور انہیں مایاوتی کے جلسہ کی ویڈیو دے کر اپنی  ساس اور اپنی ۱۲ سالہ بیٹی کے ساتھ  توہین آمیز سلوک کی شکایت کردی۔ سواتی کے مطابق صدمہ کا شکاردیا شنکر کی بیٹی نہ  گھر سے باہر نکلتی ہے اورنہ اسکول جاتی ہے۔ سواتی سنگھ کی نام نہاد کی سرگرمیوں نے بی جے پی کی  ایک پریشانی دور کردی۔ اسے وزیراعلیٰ کے عہدے کا ایک اور امیدوار مل گیا ۔ سواتی سنگھ کا سب سے بڑا اعتراض وہ دھمکی ہے جس میں دیاشنکر کی زبان کاٹ کر لانے والے کے لئے۵۰ لاکھ کا انعام ہے۔اس طرح کا اعلان تو سادھوی  پراچی نے بھی   ڈاکٹرذاکر نائک کےسر کی بابت  کیا تھا  لیکن ذرائع ابلاغ  کو بھلاذاکر نائک سے کیسی ہمدردی؟ اپنے مالک کا وفادارمیڈیا اس کے دشمنوں کو خوب پہچانتا ہے اور دن رات ان ہی کے خلاف بھونکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ارنب کے سبب برکھا دت  جیسی صحافیہ  اپنے پیشے  پر شرمسار ہے۔ ویسے دیاشنکر اور ارنب گو سوامی جیسے لوگوں کی چیخ پکار اس شعر کی مصداق ہے کہ         ؎ 
کسی نے دھول کیا آنکھوں میں جھونکی میں اب پہلے سے بہتر دیکھتا ہوں

No comments:

Post a Comment