Thursday 4 August 2016

دیش بدل رہا ہے (طنز و مزاح)

شادی سے  پہلے اور شادی کے  بعدکے حالات کی طرح انتخابی نعرے بھی  بدلتے رہتے ہیں۔جب ’’اچھے دن آنے والے ہیں‘‘ کی گھوشنا کرنے والوں کے اچھے دن آگئے تو نعرہ بدل کر’’دیش بدل رہا ہے‘‘ ہو گیا۔ ویسے بھی شادی سےقبل تو انسان خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے اور بعدمیں ہی حقیقت سے  آشنا ہوپاتا ہے۔ ان دونوں نعروں کا فرق یہی ہے کہ ایک خواب تھا دوسرا تعبیر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دیش بدل رہا ہے۔ نئی سرکار سے قبل ہندوستان کا قومی جانور چیتا  ہوا کرتاتھا۔ دستور ی اعتبار سے اب بھی وہی ہے مگرآئین کا تقدس پامال کرکے چیتے کی جگہ زبردستی  گائے  نے لے لی ہے۔  اس کے باوجود عالمی چیتا دن کے موقع پر امرید کرہانڈلا کے جنگل سے فرار جئے نامی چیتے کے فراق میں مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ فردنویس نے آنسو بہاتے ہوئےامید ظاہر کی کہ وہ ضرور لوٹ آئے گا ۔ سنا ہے محکمۂ جنگلات نے اس کا سوگ مناتے ہوئے جگہ جگہ  ہورڈنگ  پر یہ شعر لکھ رکھا تھا ؎
یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کبھی اپنے گھر میں رہا کرو
اس ہورڈنگ میں حسب مراتب و روایت  ایک جانب شیر دل وزیراعظم کی مسکراتی ہوئی تصویراور دوسری جانب مرجھائی ہوئی گائے کی مانند جئے کی وزیراعظم کے ساتھ سیلفی تھی ممکن ہے وہ فوٹو شاپ پر بھکتوں کے ہاتھ کی صفائی ہو۔ جب ہورڈنگ کے تعلق سے عوام میں یہ کنفیوژن  پھیل  گیا کہ  شعر سیلفی کے بارے میں ہےتصویر کے بارے میں تو اسے ہٹا دیا گیا۔  ایک جلسہ عام میں جب وزیراعلیٰ نے  اعتمادکا اظہار کیا ’’ مجھے پورا یقین ہے کہ جئے لوٹ آئیگا کیونکہ آوارہ گردی  اس کی سرشت میں ہے‘‘  تو پھر لوگوں کا ذہن وزیراعظم کی جانب چلا گیا۔ اس موقع پر جوش میں آکر جنگلات کے وزیر منگٹموار نے  سیاحت کے فروغ کی  خاطرممبئی میں چیتامیلہ کے اہتمام  کا اعلان کردیا ۔ ہوسکتا ہے یہ ممبئی میونسپلٹی پر اپنا جنگل راج قائم کرنے کی خاطرشہر کے نام نہاد شیر اور چیتے یعنی ادھو اور راج ٹھاکرے کو گھیرنے کی کوئی سازش ہولیکن وزیر موصوف کو یاد رکھنا چاہئے کہ شیر کی سواری خطرناک ہوتی ہے۔ وزیر جنگلات نے یہ چونکا دینے والا  انکشاف  بھی کیا کہ اگر چیتے نہ ہوں تو بارش ہی نہ ہو۔ خیر سےان پر یہ نادر ساکشاتکار (کشف)  برسات کے بعد ہوا ورنہ وہ قحط زدہ علاقوں میں بارش  کیلئے چیتوں کو لاکر چھوڑ دیتے اس اقدام سےخونخوار چیتوں کی پیاس تو بجھ ہی جاتی۔
اس رات وزیراعلیٰ گھر پہنچے تواپنی سرکاری  کوٹھی کے درازے پرخاکی نیکر اور کالی ٹوپی پہنےجئے کو  ہاتھ جوڑکر کھڑا پایا۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر پوچھا بول کیا چاہتا ہے؟ جئے نے گذارش کی سرکار میرا آدھار کارڈ بنوادیجئے اس لئے کہ کل سے کارڈ کے بغیر خوراک  نہیں ملے گی ۔  وزیراعلیٰ نے کہا تتھا ستو اور اپنی دائیں جیب میں ہاتھ ڈال کر  نکالا تو ان کے ہاتھوں میں جئے کا آدھار کارڈ تھا ۔ جئے اس چمتکار کو دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ اس نے ہمت کرکے کہا سرکار اس پر تو چیتا لکھا ہے آج کل چیتے کا نہیں گائے کا بول بالا ہے اس لئے مجھے گائے والاکارڈ عنایت فرما دیجئے۔  وزیراعلیٰ مسکرائے اور اپنے بائیں جیب میں ہاتھ ڈالااس بار ان کے ہاتھ  میں جو آدھار کارڈ تھا اس کے اندر جئے کو گائے بنا دیا گیا تھا ۔
دوسرے دن جنگل کا عملہ جئے کیلئے گھاس لے آیا تو وہ بولا دیکھتا نہیں ہے کہ میں کون ہوں؟ جنگل کے مزدور نے جواب دیا میرا کام آدھار کارڈ دیکھنا ہے اور اس پر جو لکھا ہے وہی درست ہے۔ جئے نے اسے چنگھاڑ کر بھگا دیا تو وہ گھبرا کر وزیر جنگلات کے پاس پہنچ گیا اور بولا جئے نے بھوک ہڑتال کررکھی ہے اب آپ اس کا برت ختم کروائیں۔ ہمارے محکمہ میں سب آپ سے خوفزدہ ہیں اس لئے چیتا بھی ڈرتا ہوگا۔ اپنی تعریف سن کر منگٹموارخوش ہوگئے اوربذاتِ  خود گھاس لے کر جئے کی خدمت میں پہنچ گئے۔ بھوک کی شدت سے نڈھال جئے نے جب  دوسرے آدمی کے ہاتھ میں بھی گھاس کا گٹھر دیکھا تو ان داتا کوہی چٹ کر گیا ۔ اپنے پسندیدہ چیتے کے ہاتھوں  چہیتے وزیر کےقتل کی خبر سن کروزیراعلیٰ  کی آنکھ کھل  گئی۔

No comments:

Post a Comment