Thursday 21 July 2016

ترکستان کی بغاوت اور مسلمانانِ عالم

ترکی کے فرقانی واقعات کوسورہ آل عمران  کی  آیات ۱۱۰ تا ۱۲۰ کی روشنی میں دیکھیں تو ایک نیا معرفت کھل جاتا ہے۔ ابتداء خودشناسی سے اس طرح  ہوتی  ہے:’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے‘‘۔امت مسلمہ کا مقام اور مرتبہ بتا دینے کے بعد اس کا فرض منصبی بھی واضح فرما دیا گیا: ’’ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ ملت کے تئیں دیگر اقوام  اور خاص طور پر اہل کتاب سے توقع  اور ان کےرویہ کی تفصیل یوں بیان ہوئی کہ : ’’یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں‘‘۔ اس کے بعددشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیوں کا تذکرہ فرما کراہل ایمان  کی ڈھارس  کچھ اس طرح بندھائی گئی کہ : ’’یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے اِن کو مدد نہ ملے گی‘‘۔
قرآن مجید میں اہل کتاب کے ایک اور طبقہ کا ذکر بھی  ملتا ہے:’’مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اسکے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں یہ صالح لوگ ہیں۔ اور جو نیکی بھی یہ کریں گے اس کی نا قدری نہ کی جائے گی، اللہ پرہیزگار لوگوں کو خوب جانتا ہے‘‘۔ اسلام کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کاذکر فرمانے کے بعد اللہ کی کتاب  معاندانہ رویہ اختیار کرنے والوں کی نشاندہی کرتی ہے: ’’رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا تو اللہ کے مقابلہ میں ان کو نہ ان کا مال کچھ کام دے گا نہ اولاد، وہ تو آگ میں جانے والے لوگ ہیں اور آگ ہی میں ہمیشہ رہیں گے۔جو کچھ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی میں خرچ کر رہے ہیں اُس کی مثال اُس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو اور وہ اُن لوگوں کی کھیتی پر چلے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اسے برباد کر کے رکھ دے اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا در حقیقت یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں‘‘۔
اس دنیا میں جب امت مسلمہ کسی آزمائش میں گرفتار ہوتی ہے تو بہت سارے جعلی ہمدرد بھی بغض معاویہ میں مسلمانوں کے ہمدردو غمخوار بن کر مگر مچھ کے آنسو بہانے لگتے ہیں ۔ ایسے منافقین کے فریب سے بچنے کی تلقین اس طرح کی گئی کہ : ’’لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ ‘‘۔ترکی میں اہل ایمان کی کامیابی کے بعد ان نام نہاد ہمدردان ملت کا نفاق بالکل اسی طرح سامنے آگیا جیسا کہ قرآن حکیم میں بیان ہوا ہے : ’’وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)‘‘۔
ترکی میں بغاوت کے بعد دنیا بھر کے روشن خیال  ہمدردانِ ملت کی موشگافیوں کو دیکھ کر کتاب الٰہی کی یہ آیات یاد آتی ہیں :’’ تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس پر حاوی ہے‘‘۔ اب ہمیں چاہئے کہ دشمنان اسلام کی سازشوں اور کارستانیوں کو  میدان کارزار میں ان  سے لوہا لینے  والے مجاہدین اسلام اوراللہ کے حوالے کرکے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر توجہ مرکوز  کریں ۔ امت کی کامیابیوں کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہماری فلاح آخرت ہمارے اپنے اخلاص و عمل سے وابستہ  ہے۔

No comments:

Post a Comment