Thursday 14 July 2016

پھر خزانہ غیب کا لٹنے لگا رشک سے حاتم کا دم گھٹنے لگا


مغرب کے ملحد ماہرین سیاست کیلئے یہ معرفت مشکل ہے کہ ’’ کہو! اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے‘‘۔ان کے نزدیک اقتدار کا پانا اور کھونا یا تو جمہور کی رائے سے ہوتا ہے یا بندوق کے زور سے۔ کبھی کبھار موت اور وراثت بھی اس کی منتقلی کا سبب بنتی ہے لیکن ان ذرائع سے بھی غیر متوقع  لوگوں کو اقتدار نصیب ہوجاتا ہے ۔ مثلاً سعودی عرب میں شاہ عبداللہ کی موت کے بعد شاہ سلمان نے اقتدار سنبھالا اورحسبِ روایت  اپنے چھوٹے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کو ولیعہد کے عہدے پر فائز کیا لیکن ۱۰۰ دن کے اندر انہیں برطرف کردیا گیا محمد بن نائف کو ولیعہد بنا دیا گیا  اور برسوں کی روایت کو بالائے طاق رکھ کر اپنے بیٹے کو نائب ولیعہد بھی بنادیا۔ جمہوری نظام میں بھی  ایسا چمتکار ہوتا رہتا ہے ۔ مثلاً بیٹھے بٹھائے بے خطا ڈیوڈ کیمرون کو استعفیٰ دے کرنکل جانا پڑتا ہے اور ایک نامعلوم خاتون تھریسا  مے کے ہاتھوں میں عظیم برطانیہ کی باگ ڈور تھما آ جاتی ہے ۔ اقتدارتو اسی کو ملتا  جسے ملک کا مالک چاہتا ہے نہ کہ بورس جانسن کوجوبظاہراستصواب کے بعداس کاسب سے بڑادعویدارتھا
ہندوستان میں دو مہینے کے اندر اتراکھنڈ اور ارونانچل کی بابت ہونے والی تبدیلیاں یقیناً  غیرتوقع ہیں۔  ان دونوں مقامات پر مشترک یہ ہے کہ  کانگریس کی صوبائی  حکومتیں تھیں ۔ ہر جگہ کانگریس پارٹی میں پھوٹ پڑی ۔ بی جے پی کی مرکزی حکومت  نے اپنے پٹھو گورنر کی مدد سے سیاسی خلفشار پیدا کرکے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی  لیکن سارے کئے کرائے پر عدالت عالیہ نے پانی پھیر دیا ۔ اس بابت اگر کوئی سوچتا ہے کہ ہندوستانی عدالتیں حکومت کے دباو سے بالکل آزاد ہیں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ عدالتوں سے من مانے فیصلے کرائے جاتے ہیں اور ججوں کو مجبور تک کیا جاتا ہے  لیکن ایسااسی وقت تک ممکن ہوتاہے جب تک کہ اوپر والے کی رسی دراز ہو مگر جب وہ کھینچ لی جاتی ہے تو سب کئے دھرے پر پانی پھر جاتا ہے ۔ ساری تدبیریں اوندھے منہ گر جاتی ہیں ۔ اس کائنات کو چلانے والا ہاتھ  چونکہ نظر نہیں آتا اسی لئے بصیرت کے مارے دانشوراس کا انکار کردیتے ہیں۔  
ارونانچل پردیش کا معاملہ اترا کھنڈ سے کئی معنیٰ میں مختلف  تھا ۔ ارونانچل میں ایک تہائی سے زیادہ ارکان اسمبلی نے  بغاوت کی تھی اس لئے اتراکھنڈ کے برعکس وہ پھوٹ غیر دستوری نہیں تھی ۔ اتراکھنڈ میں  وزیراعلیٰ کی برطرف کرنے کے بعد صدر راج نافذ کرکے مرکزی کابینہ عدالتی احکامات کے ساتھ ساتھ ملک کے دستور کی دھجیاں اڑائی تھیں ۔اس  فیصلے کو مسترد کرکےعدالت عالیہ نے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی اجازت دی جس میں  ہریش راوت اس میں کامیاب ہوگئے اور ان کی حکومت بحال ہوگئی۔ اس کے برعکس ارونانچل میں گورنر نے من منانے طریقہ پر ایک ماہ قبل اسمبلی کا اجلاس بلوایا ۔ ایک نیا اسپیکر نامزد کیا ۔ اسمبلی کے باہر ایک ہال میں نئے وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا اور اس کو حلف دے کر حکومت کرنے کا موقع دے دیا گیا۔ عدالت عالیہ اس ساری بدتمیزی کو مسترد تو کردیا  لیکن قوی امکان ہے پرانے وزیراعلیٰ تکی اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کرسکیں اور پھر سے نئے وزیراعلیٰ  پل کے ہاتھوں میں زمام کار آجائے۔ اس اٹھا پٹخ میں مرکزی حکومت کی ذلت و رسوائی پر قرآن مجید کی آیت کا دوسرا حصہ صادق آتا ہے ’’اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر قدرت والا ہے‘‘۔ اقتدار کی طرح عزت و ذلت بھی پاک پروردگار کے ہاتھ  میں ہے۔ وہ سرکار دے کر بھی مودی جیسوں کو رسوا کردیتا ہے اور ایدھی جیسےقلندروں کو بغیراقتدار کے نام ونموس سے نواز دیتا ہے جن کی نذر یہ شعر ہے۔ (اے فناے فقر تجھ کو الوداع مفلسی ہی مفلسی تیری عبا )

No comments:

Post a Comment