Thursday 26 January 2017

طائف کی گھاٹی

طائف کی گھاٹی
ڈاکٹر سلیم خان
ایک ماہ کے اندرواشنگٹن کے اویجنلک سینٹر میں پھرسے کرسمس کا سماں  لوٹ آیا ۔مرکزی   ہال میں بہت سارے لوگ ٹرمپ کی حلف برداری سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ باہر لان میں زبردست پارٹی کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں گوشت کو آگ پر رکھا اور شراب کو برف سے  ڈھانپا جارہاتھا  کہ اچانک قرآن مجید کی تلاوت شروع ہوگئی ۔  یہ منظر دیکھ کر شدت پسندمسیحی قائد ڈیوڈ  کے تن بدن میں آگ لگ گئی  اور جب ان آیات کا انگریزی میں ترجمہ بھی پیش ہونے لگا تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔  اس نے فوراً ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کیا اورکھڑا ہوکر اپنی گرجدار آواز میں جشن  کی منسوخی کا اعلان کردیا ۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا لیکن کوئی کچھ نہ بولا مجمع خاموشی کے ساتھ چھٹنے لگا ۔
دس منٹ بعد ہال میں ڈیوڈ اور اس کے چند خاص حواری رہ گئے تھے ۔ ایک خوفناک سناٹے نے سب کو نگل رکھا تھا کہ ڈیوڈ پھر گویا ہوا ۔ وہ فریبی  ہے۔ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ      بھی دھوکے باز نکلے گا چلو اچھا ہوا کہ بلی بہت جلد تھیلے سے باہر آگئی ۔ ان منافق  سیاستدانوں نے ہمیشہ ہی ہمیں بے وقوف بناکر ہمارا  جذباتی استحصال کیا ہے۔ ہم انہیں  قرار واقعی سزا دیں گے۔ ڈیوڈ کے خاموش ہوتے ہی اس کا دست راست مائیکل بولا ڈیوڈ ابھی تم جوان ہو لیکن اس طرح سے فریب کھاتے کھاتے اور اس طرح کی دھمکیاں سنتے سنتے میں بوڑھا ہوچکا ہوں ۔ ہماری یادداشت بہت کم ہوتی ہے  مجھے یقین ہے کہ آئندہ انتخاب سے قبل اس واقعہ کو بھلا کر پھر سے ۰۰۰۰۰ڈیوڈ درمیان میں بول پڑا آپ ہمیشہ مایوسی اور بددلی کی باتیں کرتے ہیں۔  میری رائے ہے کہ اب آپ کو کسی بزرگ خانہ میں بھرتی ہوکر دنیوی معاملات سے کنارہ کش ہوجانا چاہئے۔
انٹن نے نے کہا لیکن ڈیوڈ تم نے تواس کے بجائے اپنے ہی ارکان کی خوشیوں پر پانی پھیردیا۔ ان لوگوں نے شام کی دعوت کیلئے جو تعاون دیا تھا اس پر مٹی ڈال دی اب جو یہ تیاری ہوچکی ہے اسے کوڑے دان میں ڈال دیں یا قریب کے مسلم یتیم خانے میں  خیرات کردیں ؟وہ کمبخت بھی نہ خنزیر کے کباب کو ہاتھ لگائیں گے اور نہ شراب کے قریب پھٹکیں گے۔ ڈیوڈ بولا اچھا یاد دلایا اب ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا۔ چلو اسلامک سینٹر چلتے ہیں ۔ کہاں ہے ہمارا میگا فون  اور پوسٹر جو ہم نے پچھلے ہفتہ تبلیغ کیلئے استعمال کئے تھے ۔ انہیں نکالو، ہم  اسلامی مرکز کے باہر جاکر مظاہرہ کریں گے۔ مائیکل بولا لیکن وہ تو دعوت کیلئے تیار کئے گئے تھے ۔ ڈیوڈ نے کہا ایک ہی بات ہے۔ اسی کے ساتھ یہ پانچ سات نفری قافلہ اسلامی مرکز پہنچ گیا اور اس کے دروازے پر کھڑے ہوکرڈیوڈ نے اسلام اور مسلمانوں کو میگافون پر جی بھر کے برا بھلا کہا۔  
اسلامی مرکز کے لوگ جو ٹرمپ کی حلف برداری میں قرآن مجید اور اس کے ترجمہ پر خوش ہوکر اس کی تقریر کے منتظر تھے اچانک برپا ہونے والے اس ہنگامہ سے چونک پڑے۔ مرکز کے نائب ذمہ دار عمیراحمد نے کھڑکی سے ڈیوڈ کو دیکھا تو سمجھ گئے کہ ’ہنگامہ ہے کیوں برپا‘ ۔ وہ بورڈ روم سے نکل کر لائبریری میں آئے جہاں بہت سارے لوگ مطالعہ میں غرق تھے۔ ان میں کچھ باہر کے شور شرابے سے پریشان بھی ہوگئے تھے۔ عمیرنے اعلان کیا آپ اطمینان سے اپنا کام کریں ۔ یہ ٹرافک جام ہے! تھوڑی دیر میں کھل جائیگا اور ہارن کی یہ آوازیں  بھی تھم جائیں گی۔ اس کے بعد وہ ورزش گاہ میں گئے اور نوجوانوں کو اطمینان سے اپنا کام جاری رکھنے کی تلقین کرکے واپس لوٹ آئے۔
بورڈ روم میں پرجوش سلمان نے مشورہ دیا خوش قسمتی سے آج مرکز میں بہت لوگ ہیں کیوں نہ ان  کمبختوں کا دماغ درست کردیا جائے تاکہ  دوبارہ یہاں کا رخ  کرنے کی جرأت نہ  کریں ۔ مرکزکے صدر عامر نےکہا اس طرح ہم ان کے آلۂ کار بن جائیں گے۔ذرائع ابلاغ نام نہاد  پرامن عیسائی داعیوں کی ہمدردی میں آنسو بہاکر اسلام کے خلاف محاذ کھول دے گا۔ ہم ان کے تھکنے کا انتظار کریں گے۔ اورپھر پڑوس کےکافی ہاوس سے ٹھنڈا پانی اور گرم کافی پلا کر انہیں روانہ کردیں گے۔ واپسی سے قبل ان سب  کا فون نمبر لے لیاجائیگا تاکہ فرداً فرداً ہر ایک کو اسلام کی دعوت پہنچائی جاسکے۔ یہ  بدر کا میدان  نہیں طائف کی گھاٹی ہے ۔ ان شاء اللہ  ان کی آنے والی نسلیں مشرف  بہ اسلام ہوں گی۔

No comments:

Post a Comment