Thursday 19 January 2017

کاش خود کو بھی دیکھتے۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

کاش خود کو بھی دیکھتے۰۰۰۰۰
ڈاکٹر سلیم خان
صبح نے سانس لی اور زندگی کے سفر کاآغاز ہوگیا۔ کوئی مندرجارہا تھا توکوئی مسجد سے آرہا تھا ۔کچھ لوگ  دودھ یا اخبار رسانی کے کام  میں جٹ گئے تھے۔ کسی کودفترپہنچنے کی توکسی کو دوکان کھولنےکی جلدی تھی۔کوئی چہل قدمی فرما رہا تھا اور کسی کو اسکول جانے کا غم ستا رہا تھا۔ غرض کہ شہر کی گہما گہمی شروع ہوگئی تھی۔ دنیا کے اس  میلے میں ملوّ بھی اپنی منحنی سے سائیکل پر بڑا سا ناریل کا بڑا سا ٹوکر ا رکھ کر شامل ہوگیا۔ ملوّ کے بالکل پیچھے سائے کی مانند چلنے والے ایک لڑکے نے اچانک ٹوکرے کی جانب ہاتھ بڑھایا اور ایک ناریل اٹھا کر اپنی جگہ کھڑا ہوگیا۔ اسی کے ساتھ ملوّ اور اس کے درمیان کافاصلہ بڑھنے لگا۔  نوعمر چور کی اس حرکت کو ملوّ نے تو نہیں مگر اس کے پیچھے چلنے والے سارے لوگوں نے دیکھا۔
چہل قدمی میں مصروف  گنگا پرشاد نے اپنے آپ سے کہا یہ ملوّ اور لڑکے کا آپسی معاملہ ہے مجھے اس میں دخل اندازی نہیں دینی چاہئے۔      سیٹھ موہن داس نے سوچا ملوّ کو محتاط ہونا چاہئے چونکہ اس نے اپنے مال کی حفاظت کا انتظام نہیں کیا اس لئے خسارے کیلئے خود ذمہ دار ہے ۔
مندر سے لوٹنے والے پنڈت نند کشور کے من میں چور کے خلاف شدید نفرت اور غم وغصہ پیدا ہوا مگر وہ بھی دل مسوس کے رہ گئے ۔
ماسٹر طوطا رام سے رہا نہ گیا اور انہوں نے چور چور کا شور مچادیا ۔
ملوّ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو چور ناریل کو ہاتھ میں لئے دوڑ رہا تھا ۔ اس سے پہلے کہ ملوّ اپنی سائیکل اسٹینڈ پر لگا کر پیچھاکرتا وہ ہوا ہوگیا۔
اس منظر کو دیکھ کر اسکول جاتے ننکو کو جوش آگیا۔وہ بلاتوقف چور کے تعاقب میں دوڑ پڑا اور گلی کے اندر اس کو دھر دبوچا ۔
اب چور کو قرار واقعی سزا دینے کیلئے سب جمع ہوگئے جن میں سب سے آگے موہن داس اور گنگا پرشاد تھے نیز سب سے پیچھے ملوّ ناریل والا ۔
ہمارے معاشرے میں  ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ گنگا پرشاد اور موہن داس قسم جیسے لوگ  برائی کو دیکھ کر اس کی غلط توجیہ کرکے اپنے ضمیر کی آواز کو دبا دیتے ہیں۔ ایسے لوگ آگے چل کر خود برائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔  پنڈت نند کشور جیسے بھلے مانس خود کو تو برائی سے روکنے میں سپھل ہوجاتے ہیں لیکن دوسروں کو اس سے روک نہیں پاتے۔ طوطا رام جیسا انسان ان راہگیروں  کو چور کی پیروی سے روکنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ کاش وہ بھی اس نوجوان کی طرح مفت میں ناریل کھانے کی کوشش کرتے ۔طوطا رام کی اس جزوی کامیابی سے  نہ تو چور کا کوئی خسارہ ہوتا اور نہ ملوّ کا کوئی فائدہ ۔ننکو کے اقدام سے منظر بدل جاتاہے ۔ ملوّ کو اس کا ناریل مل جاتا ہےاور چور کو وہ سبق کہ دوبارہ ایسی گھناونی حرکت کا ارتکاب مشکل تر ہوجائے ۔
 حضرت ابو سعید خدری ؓ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ تم میں سے جو شخص کسی برائی کو ہوتا دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے (یعنی رو ک دے) اگر وہ (ہاتھ سے روکنے کی) استطاعت نہیں رکھتا تو زبان سے (اس برائی کو واضح کرے) اور اگر وہ (اس کی بھی) استطاعت نہیں رکھتا تو پھر اپنے دل سے (اسے برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘(مسلم)۔ اس حکایت  کے تناظر میں یہ فیصلہ کرنا کہ گنگا پرشاد،  موہن داس ، نند کشور،طوطا رام اور ننکو کہاں کھڑے ہیں کسی اہمیت کا حامل نہیں  ہے بلکہ  اس حدیث کی روشنی  ہمیں اپنے آپ سے سوال  کرنا چاہئے کہ ہم خود کس درجہ میں  ہیں؟  اور اپنے درجات کی بلندی کیلئے کیا کرسکتے ہیں؟ ورنہ ہمارا حال توبقول افتخار راغب یہ ہے کہ  ؎
کاش خود کو بھی دیکھتے راغب رہ گئے انگلیاں اٹھانے میں

No comments:

Post a Comment