Thursday 19 January 2017

عقل کی کھڑکی


ڈاکٹر سلیم خان
رامو اور چنگو بچپن کے دوست اور پڑوسی تھے ۔ دونوں محنت مزدوری کرتے اور شہر کی جھونپڑ پٹی میں رہتے تھے۔ ان کے بیٹے شیامو اورمنگو دوست اور ہم جماعت  تھے۔ دونوں کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا ۔ ہر  کلاس میں کئی  بار فیل ہوتے مگر کوئی افسوس نہ ہوتا ۔ بالآخر دونوں نے پاسپورٹ بنایا اور تعلیمی سلسلہ ادھورا چھوڑ کر بدیس کی راہ لی۔  اپنے والد کی طرح مزدوری کرنے کیلئے ایک  دوبئی چلا گیا اور دوسرا سنگا پور جاپہنچا۔ پردیس میں کام تو وہی محنت مزدوری کا تھا لیکن آمدنی زیادہ تھی۔ باہر کا روپیہ جب گھر میں آیا تورامو اور چنگو نے اپنے خوابوں کے محل کی تعمیر آغاز کردیا ۔ جھگیوں کی بستی میں  مزید دو دو منزلہ پکے مکانات  کا اضافہ ہوگیا ۔ وہ اپنے بچوں اور بہووں کو اوپر کی منزل میں رکھنا چاہتے تھے جبکہ بیٹوں نے بیویوں کے ساتھ بدیس نکل  جانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا ۔
تین سال کے بعد شیامو دبئی سے  لوٹا تو اس کے ساتھ کئی بڑے بڑے بکسے تھے ۔ کھولنے پر پتہ چلا یہ ہوم تھیٹر ہے ۔ اس میں ایک بڑا  سا                       ٹی وی اور دوبڑے اسپیکر ہیں۔ شیامو جب اس پر موسیقی سنتا تو سارے محلے کو پتہ چلتا لیکن سب سے زیادہ شور چنگو کی سمع خراشی کرتا۔ چنگو نے رامو   سے گذارش کی کہ آواز دھیمی رکھے یا  کم ازکم  کھڑکی بند کردیا کرے  تو اس نے کہا دوست مجھے تمہاری پریشانی کا احساس ہے۔ میں نے شیامو کوبھی  سمجھایا لیکن وہ نہیں مانتا۔ اس کا کہنا ہے کہ میوزک سسٹم  اور کھڑکی دونوں ہماری ہے۔ ان پر ہماری مرضی چلے گی ۔ ان کاکھلنا و بند ہونا کوئی اور نہیں بلکہ ہم طے کریں گے ۔ کسی اور کواگر اس سے زحمت ہوتی ہو وہ  اس کا اپنا مسئلہ  ہے۔ چنگو بولا یار یہ تو عجیب بات ہے۔ رامو نے تائید کی جی ہاں ہمارے لئے عجیب مگر نئی نسل کیلئے نہیں اس لئے کہ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتی ہے اور دوسروں کا خیال رکھنا ضروری نہیں سمجھتی۔
منگو بھی چند ماہ بعدلوٹ آیا۔ اس کے ساتھ بھی بکسے تھے لیکن چھوٹے۔ وہ اپنے ساتھ بڑا سا کمپوٹر لے آیا تھا ساتھ میں دو چھوٹے چھوٹے اسپیکر اور کانوں پر لگانے والا ائیر فون ۔ چنگو نے پوچھا تو ٹی وی نہیں لایا تو منگو بولا اس کمپیوٹرمیں  آپ ٹی وی دیکھ سکتے ہیں  اور ان اسپیکرس کی مدد سے آواز بھی  سن سکتے ہیں ۔  ویسے اگر آپ اکیلے سننا چاہیں تو ائیرفون لگالیں ، چنگو بولا بیٹا لیکن شام میں جب شیامو اپنا ٹیلی ویژن چلاتا ہے تو ہم سب بہرے ہوجاتے ہیں ۔ کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ منگو نے پوچھا لیکن ہم لوگ اپنی کھڑکی بند کیوں نہیں کرتے؟ کرتے ہیں لیکن پھر بھی بہت سارا شور اندر آہی جاتا ہے ۔تووہ اپنی کھڑکی کیوں نہیں بند کرتا ؟ رامو بولا جس کی کھڑکی اس کی مرضی۔  منگو سمجھ گیا وہ شیامو کا ہم جماعت جوتھا
شام کو منگو نے لوباندان میں مرچیں رکھیں تو چنگو نے پوچھا یہ کیا۔ وہ بولا دیکھتے جائیے ۔ منگو نے لوباندان کو   کھڑکی کے باہر  رکھنے کے بعد اس میں جلتا ہوا کوئلہ ڈال کر پنکھا چلا دیا  اور اپنی کھڑکی  بند کردی۔ مرچوں کا دھواں اب سیدھا رامو کے گھر میں جارہاتھا سارے لوگ کھانس رہے تھے۔ رامو شکایت کیلئے چنگو کے گھر آیا تو دیکھا یہاں دھویں کا نام و نشان نہیں ہے ۔ رامو نے پوچھا چنگو یہ کیا ؟  چنگو مسکرا کر بولا  بھابی کوبلا لاو اور یہاں  بیٹھ کر چائے پیو ۔ رامو بولا لیکن ۰۰۰۰۰ دیکھتے جاو۔چنگو نے جواب دیا۔ چپ چاپ  منگو اور شیامو کا کھیل دیکھو یہ نئے وقت کے لوگ ہیں ۔
 شیامو بھی  کھانستے ہوئے منگو کے پاس پہنچا اور سوال کیا منگو یہ کیا ہورہا ہے؟ منگو نے جواب دیا  دوست میری کھڑکی میری مرضی میں اس پر جوچاہوں جلاوں ۔ لیکن اسے کھول کر تو دیکھو کیا ہورہا ہے؟مجھے پتہ ہے لیکن میں  جب تک چاہوں اسے کھلا رکھوں جب چاہوں بند کروں ۔ مگر ہم کھانس کھانس کر مرجائیں گے ۔ اپنی کھڑکی بند کرلو۔ بند کیا پر بے فائدہ۔ یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ شیامو کے عقل کی کھڑکی مرچوں کے دھوئیں سے کھل چکی تھی  وہ بولا تم میرے ہم سایہ اور ہم جماعت ہو  خدا کیلئےیہ مسئلہ حل کرو۔ منگو بولا اس کا حل یہ ہے کہ میرے گھر کی جو کھڑکی تمہاری طرف ہے وہ تمہاری مرضی سے کھلے گی یا بند ہوگی اور تمہاری جو کھڑکی میری طرف کھلتی اس پر میری مرضی چلے گی ۔ بات معقول تھی  دونوں نے مصافحہ کیا ۔ منگو نے لوباندان ہٹا لیا ۔ شیامو نے اسپیکر کی آواز کم کردی۔ تمام کھڑکیا ں کھل گئیں  ۔

No comments:

Post a Comment