Thursday 19 January 2017

اک نئی شئے وجود میں آئی ،خاک اور خواب کو ملانے سے


ڈاکٹر سلیم خان
اوم پوری اپنی فلموں کی مانند ایک دلچسپ اور رنگا رنگ زندگی گذار کر اس عالمِ فانی سے کوچ کرگئے۔ امبالہ کے اندر اپنے ننہال  میں پٹری کے اوپر سے کوئلے چننے والا لڑکا  اوم انجن ڈرائیور بننا چاہتا تھا ۔ جب اسکول جانے کے قابل ہواتو ایک دھابے میں نوکری کرلی اور برتن دھونے لگا۔ کالج میں پہنچ کر فوجی بننے کا خواب دیکھنے والے اس نوجوان  نےایک وکیل کے یہاں منشی کی ملازمت کرلی تھی اور  ڈراموں میں  کام کرنے لگا تھا ۔ اس نے ایک مرتبہ   ڈرامہ  کیلئے  تین دن کی رخصت طلب کی تو وکیل نے انکار کردیا ۔ اس  کے  جواب میں نوکری کو لات مارکر کہا اسے تو اپنے پاس رکھ اور میرا حساب کردے۔ کسمپرسی کے عالم   میں تعلیم حاصل کرنے والے کسی  اورنوجوان کیلئے  یہ فیصلہ نہایت مشکل ہوسکتا تھا  لیکن جسے آگے چل کر اوم پوری بننا ہو اس کیلئے   یہ کوئی مشکل نہیں تھی۔
دنیا والے جب ایک دروازہ بند کرتے ہیں تو اوپروالا کئی دروازے کھول دیتا ہے ایسا ہی کچھ اس نوجوان کے ساتھ ہوا۔ وہ آرٹس کا طالب علم تھا مگر  کالج میں لیب اسسٹنٹ  کی اسامی خالی تھی ۔ پرنسپل نے یہ کہہ کر ملازمت پر رکھ لیا کہ طلباء خود ہی نیلی پیلی بوتلیں طلب کریں گے اور وہ  فراہم کردیاکرےگا۔یوتھ فیسٹویل  کے ڈرامہ میں ہرپال دیوان نے اس کی  اداکاری کو دیکھ کراپنے تھیٹر میں شامل ہونے کی  پیشکش کردی۔ اس پر معذوری کا اظہار کرتے ہوئے نوجوان بولا  میں دن میں ملازمت اور شام میں پڑھائی  کرتا ہوں ۔ دیوان نے کہا ملازمت ترک کرکے دن  میں کا لج جاو اور شام میں تھیٹر آجایا کرو۔ اس طرح تنخواہ ۱۲۵ روپئے ماہانہ سے بڑھ کر ۱۵۰ ہوگئی۔
وقت  کا پہیہ  جو اس نوجوان کو انبالہ سے  پٹیالہ لے گیا تھا دہلی سے ہوتا ہوا ممبئی کی مایا نگری میں لے آیا۔ اس کی شکل و شباہت کو دیکھ کر ایک اداکارہ نے کہا کہ اس قدر بدشکل انسان فلموں میں قسمت آزمائی کی جرأت کیسے کرسکتا ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ  اگر ہر خوبرو شخص  اداکار نہیں ہوتا تو ہرا داکار کیلئے خوبصورت ہونا کیوں ضروری ہے؟ اس حقیقت  کی معرفت  اوم  پوری سے زیادہ کسی اور کو نہیں تھی ؟ اوم پوری نے اسٹیج سے لے کر فلموں تک اپنی اداکاری کا ایسا لوہا منوایا جو بہت کم لوگوں کو نصیب  ہوتاہے۔     دومرتبہ قومی اعزاز اور پھر پدم شری کے   ایوارڈ سے نوازہ جانا معمولی بات نہیں ہے۔۱۰۰ سے زیادہ ہندی فلموں کے علاوہ   ہالی ووڈ کی ۲۰  فلمیں کرنا  کیا ہر کس وناکس  کے بس میں ہے؟ امبالہ کے ایک معمولی  نوجوان نے یہ کارنامہ کرکےثابت کردیا کہ اگر عزم و صلاحیت موجود ہوتو دکھاوے کی فلمی نگری میں بھی   غربت اور شکل و صورت  کسی کےراہوں کا روڑا نہیں بن سکتی لیکن جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ’’ کبھی  کسی  کو مکمل جہاں نہیں ملتا ‘‘۔
مور کے پر اور کلغی کی طرح  خوشنما فنکارانہ اور پیشہ ورانہ کامیابیوں کے ساتھ اوم پوری کی  ازدواجی زندگی   مورکے پیر کی مانند  ہے۔ پہلی بیوی  سے ۳ سال اور دوسری سے۱۰ سال بعد علٰحیدگی ہوگئی اور یہ کامیاب اداکار تنہائی کا غم غلط کرنے کیلئے  ساغرو مینا میں غرق ہو گیا۔ موت سے ایک روز قبل آخری چپقلش بیوی نندیتا سے ہوئی  ۔اوم پوری  کی لاش کوجب مکان سے نکالا گیا تو سر میں  ڈیڑھ انچ گہرا زخم تھا اور بہت سارا خون بہہ چکا تھا  ۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں تو  موت کی وجہ حرکتِ قلب کا بند ہونا درج  ہے لیکن پولس مختلف زاویوں سے تفتیش کررہی ہے ۔ ایک مرتبہ اوم پوری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئےکہا تھا میں ’خان ‘ نہیں بن سکا۔ اوم کیلئے خان بننا نہ تو ممکن تھا اور نہ ضروری ۔ انسان کیلئے ظاہری امکانات محدود ہوتے ہیں مگر باطنی ارتقاء لامحدود ہوتا ہے۔  چند ماہ قبل سوشل میڈیا  میں  افواہ اڑی کہ اوم پوری نے اسلام قبول کرلیا۔ اگروہ  خبر درست ہوتی  تو اوم پوری تین چھوٹے خان تو کجا بڑے خان صاحب ( یوسف خان) سے بھی بہت آگے نکل سکتا تھا لیکن انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جو حاصل کرسکتا ہے اس سے بے نیاز ہوکر جو ممکن نہیں اس کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے ۔ بہت ممکن ہے  دین رحمت کی آغوش میں اوم پوری  کےازدواجی مسائل حل ہوجاتے  مگر اخروی زندگی  کوتو تابناک ہونا ہی تھا  ۔

No comments:

Post a Comment