Thursday 2 February 2017

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
ڈاکٹر سلیم خان
صدر براک اوبامہ نے ۲۰۰۹؁ میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے کہا تھا ’’ ہمارا مسائل میں گھرا ہونا اظہر من الشمس ہے۔ہماری قوم تشدد اور نفرت کے جال سے برسرِ جنگ ہے۔ہماری معیشت چند لوگوں کی لالچ اور غیر ذمہ داری کے سبب بے حدکمزور ہوگئی ہے لیکن  اس میں مشکل فیصلے کرنے اور قوم کو نئے زمانے کیلئے  تیار کرنے میں ہماری اجتماعی ناکامی کا بھی  حصہ ہے۔ گھر گئے ، ملازمتیں سمٹیں اور تجارت لڑھک گئی ۔ ہماری طبی  سہولیات بے حد مہنگی ہیں ، ہماری تعلیم گاہیں ناکامیوں سے اٹی پڑی ہیں۔ جس طرح ہم توانائی کا استعمال کررہے ہیں وہ ہنہ صرف حریفوں کو فائدہ پہنچارہا ہے بلکہ  کرۂ ارض کیلئے خطرہ بن رہا ہے۔ یہ علامات اعدادوشمار پر منحصر ہیں۔ہمارا اعتماد ٹوٹا ہے اورا مریکی انحطاط کا اندیشہ بڑھا ہے۔ نسل نو کی نظریں جھکی ہوئی ہیں ۔  آج میں یہ اعلان کرتا  ہوں کہ آزمائشیں حقیقی ہیں۔ وہ بہت زیادہ اور سنجیدہ نوعیت کی ہیں۔ وہ بہت آسانی سے مختصر سے عرصے میں نہیں نمٹیں گی۔ لیکن جان لو کہ یہ امریکہ ہے اور ہم ان پر قابو پاجائیں گے ۔
امریکی نظام سیاست کسی صدر کو ۸ سال سے زیادہ کی مہلت نہیں دیتا کبھی کبھار تو چار سال بعد ہی رسی کھینچ لیتا ہے ۔براک اوبامہ کو پورا موقع ملا مگرجاتے ہوئے انہیں شکاگو کی  الواداعی تقریر میں اعتراف کرنا پڑا کہ ’’آپ کہہ سکتے  ہیں کہ میں  ایک لاغر بطخ صدر ہوں اس لئے کوئی میری ہدایات پر کان نہیں دھرتا۔ ‘‘ اس لطیفے کے بعد وہ بولے ’’جی  ہاں ہماری ترقی غیر مساوی ہے۔جمہوریت کا عمل ہمیشہ مشکل، پیچیدہ اور خون آلود ہوتا ہے  ۔ ہم ہر دو قدم کے بعد ایک قدم پیچھے چلے جاتے ہیں  لیکن امریکہ کی اونچی چھلانگ ہماری پیش رفت ہے۔  یہ ہمارے آبا واجداد  کی   وسعت  القلبی ہے جو کسی ایک طبقے کے بجائے سب کو اپنے گلے لگا  لیتی ہے‘‘۔  سچ تو یہ  ہے کہ اوبامہ  کے یہ الفاظ اپنے معنیٰ گنوا بیٹھے ہیں ان کا خواب ڈونالڈ ٹرمپ کی نئی پابندیاں اور دیوارمیں چن دیا گیا ہے۔ امریکہ دو کے بعد ایک نہیں ہزار قدم پیچھے جاچکا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ جب اوبامہ نے کہا آئندہ دس دنوں میں دنیا جمہوریت کی ایک بڑی کامیابی کا مشاہدہ کرے گی تو عوام نے کہا ’نہیں‘ ْ۔
اپنی کامیابیاں گنانے کے بعد اوبامہ نے اعتراف کیا تمام ترقی کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ یہ کافی نہیں ہے۔ ہماری معیشت اس لئے ترقی نہیں کرتی کہ مٹھی بھر لوگ متوسط  اور غریب طبقات کے بل بوتے پر خوشحال ہوجاتے ہیں ۔اس کے علاوہ ہمارے جمہوری اقدار کو عدم مساوات کا گھنُ کھا رہا ہے۔  ایک فیصد اعلیٰ طبقہ دولت کے بڑے حصے پر قابض ہوگیا ہے نیز شہروں اور دیہاتوں کےلوگ پچھڑ گئے ہیں۔ صنعتوں سے نکالے جانے والے مزدور، اسپتال اور ہوٹلوں کی خادمائوں کیلئے گھر چلانا مشکل ہوگیا ہے۔ انہیں یقین ہوتا جارہا ہے کہ ان کے خلاف شکنجہ کسا جاچکا ہے۔ ان کی حکومت صرف طاقتور کے مفاد کا تحفظ کرتی ہے ۔ یہ ہماری سیاست میں   مزیدمایوسی اورتفاوت کا سامان ہے۔
اوبامہ کی  مایوس کن رخصتی کا سبب جاننے کیلئے گذشتہ چوتھائی صدی  میں امریکی جمہوری انحطاط پر ایک نگاہ  ڈال لیناکافی  ہے ۔       ۱۹۹۱؁میں طالبان کے ذریعہ سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد امریکہ ساری دنیا کی واحد عظیم ترین طاقت بن گیا لیکن ۱۹۹۲ ؁ کے انتخابات میں جارج بش اپنی دوسری میقات کا انتخاب نہیں جیت سکے یہ ایسا ہی تھا جیسے کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد ونسٹن چرچل برطانوی انتخاب ہار گئے۔جارج بش کو انتخابی شکست دینے والا ڈیموکریٹ رہنما بل کلنٹن نہایت ذہین وذکی مگر عیاش انسان تھا ۔ اس کی  بدکرداری نے  قصر ابیض کا منہ کالا کردیا ۔ مونیکا لیونسکی کے رسواکن  انکشاف  کے بعد اگر کلنٹن کو ہٹا دیا جاتا تو امریکی جمہوریت کا  وقار بحال ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عوام نے ڈیموکریٹس کو سزادینے کیلئےجارج بش کے بد دماغ بیٹے جارج ڈبلیوبش کو اقتدار سونپ دیا ۔جارج ڈبلیوبش عراق پر عمومی تباہی کے اسلحہ کا بہتان تراش   کر دوسری میقات کےانتخاب تو جیت گیا مگر بغدادسے جوتا کھاکر رخصت ہوا ۔ اس کی حماقتوں سے بیزار عوام نے پڑھے لکھے ذی فہم اوبامہ  کو اقتدار پر فائز کیا لیکن وہ  بھی  ناکام رہے۔مایوس و بیزارامریکی عوام نے بالآخر بل  کلنٹن اورجارج  بش کےزہریلے مرکب(  کند ذہن اور بدکردار) ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر بنا کر اقبال کی پیشن گوئی سچ ثابت کردی؎
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دوکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا

No comments:

Post a Comment