Friday 10 February 2017

کیا ؟ کیوںَ ؟؟اور کیسے؟؟؟

ڈاکٹر سلیم خان
ایک مہم جو دوست نے سوال کیا کہ عوام کو اپنے کام میں شامل کرنے کیلئے کیا کیا جائے؟ اگر کوئی اور ہمیں اپنے کام میں شامل کرنا چاہےتو تین بنیادی سوالات کا واضح ہم اس سے طلب کریں گے۔ انہیں سولات کا  اطمینان بخش جواب  ہمیں بھی دینا ہوگا۔ پہلا سوال   کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے ؟  دوسرا  وہ کیوں کر رہا ہے؟؟ اور تیسرا کیسے کرےگا؟؟؟ پہلا سوال عقل پر دستک دیتا ہے  اس لئے اگر تجویز گنجلک ہو تو سر کے اوپر سے نکل جاتی ہے اور  دماغ  کو  مطمئن  نہ کرسکےتو کان سے آر پار نکل جاتی ہے۔ دماغ ظاہر پرست ہے اس لئے معقول دلائل سے قائل    ہوجاتا ہے  لیکن دل کا معاملہ مختلف ہے وہ مخاطب کے اندر جھانک کر یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ کام کیوں کیا جارہا ہے؟ اس کے پس پشت کون سے اغراض ومقاصد  کارفرما ہیں ؟ اگر قلب کے اندر اخلاص موجود ہوتووہ فوراً آمادہ ہوجاتا ہے لیکن اگر وہاں مفاد یا   سازش کی بو سونگھتا ہے تو  دلبرداشتہ ہوکر لوٹ جاتا ہے۔ اب کو ئی بڑی سے بڑی لفاظی اسے  آمادۂ کار نہیں کرسکتی ۔ لاکھ کوشش کے باوجود  بھی شرح صدر ہوگا نہیں  ہوگا۔
دل اور دماغ  کاکسی کام کیلئے تیار ہوجانالازمی تو ہے لیکن  کافی نہیں ہے۔مہماتی سرگرمیوں میں ہاتھ اور پیر کی پیشقدمی  ناگزیر  ہے۔  دست وبازو اپنی شمولیت سے قبل تیسرے سوال یعنی کیسے کی تفصیل جاننا چاہتے تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ   قابلِ عمل بھی ہے یا نہیں؟  وہ طریقۂ         کار کی روشنی میں اپنے آپ کو ٹٹولتے ہیں کہ کیا  مہم میں شرکت  ان کے بس میں  ہے؟     اس تیسرےرکاوٹ  کو کامیابی سے عبور کرنے کے بعدہی  کوئی فرد مہم  کا حصہ بن سکتا ہے۔ ورنہ دعا کرنے کا وعدہ کرکے ٹرخا دیتا ہے یا نیک خواہشات کے ساتھ معذرت چاہ لیتا ہے ۔
منشیات کے خلاف مہم کی عملی مثال سے  معاملہ کوسمجھاجاسکتاہے ۔ پہلا سوال کہ کس نشےکی بیخ کنی کی جائیگی ؟ اس جواب ہوکہ چرس اور پتہ چلے کہ محلے میں لوگ چرس کا نشہ ہی نہیں کرتا تو معاملہ ابتداء میں ہی ٹائیں ٹائیں فش ہوجائیگا لیکن اگر تحریک  شراب کے خلاف ہو نیز محلہ شرابیوں سے بھرا پڑا ہے تو دماغ قائل ہوجائیگا ۔ اب دوسرا سوال کہ  یہ سب کیوں کیا جارہا ہے؟ اس کا مقصد اگر انتخاب میں کامیابی ہو تو مشکل ہوسکتی ہے اس لئے کہ جس پارٹی کیلئے ووٹ کی توقع کی جارہی ہوسکتا  ہے مخاطب اس کے نظریہ سے اتفاق نہ کرتا ہو  یا اس کے رہنماوں سے بدظن ہےتوتب بھی بات بگڑ جائیگی ۔ اگر معاملہ معاشرے کی اصلاح اور رضائے الٰہی  کا حصول ہوتو انسان  یہ سوچ کر بہ آسانی تیاع ہوجاتا  ہے کہ میرے بچے اس برائی سے محفوظ رہیں گے اور مجھے ثواب بھی ملے گا۔اب آخری سوال یہ کہ سرگرمی کیا ہوگی؟ اس کے جواب  میں بتایا جائےکہ سائیکل مورچہ نکلے گا۔ اس پر مخاطب معذرت کرسکتا ہے کہ  اس کے پاس نہ سائیکل ہے اورنہ  وہ چلاناجانتا ہے اس لئے خواہش کے باوجود شریک ہونے سے قاصر ہے۔ اب اگر اسے بتایا جائے سائیکلوں کے پیچھے  لاریوں کا بھی اہتما م کیا گیا تو قوی امکان ہے کہ  مخاطب شرکت کے لئے تیار ہوجائے  ورنہ  صرف آرزو اور تمناکے سہارےتو مہم سر نہیں ہوتی ۔

No comments:

Post a Comment