Thursday 23 February 2017

دل ہے کہ مانتا نہیں

دل ہے کہ مانتا نہیں
ڈاکٹر سلیم خان
شہر کے سب سے بڑے ہارٹ سرجن ڈاکٹر چندربھان کا  سب سے ہونہار طالبعلم ا ٓفتاب عالم تھا ۔یکساں شخصیت کے حامل استاد و شاگرد فارغ اوقات میں  مختلف موضوعات پر باہم گفتگو وشنید کیا کرتے تھے ۔  استاد دل کو محض پمپ اور شاگرد افکارواحساس کا مرجع و منبع سمجھتا تھا ۔
ایک روز جراحی سے فارغ ہوکر آپریش تھیٹر سے متصل کمرے میں  چندربھان نے  کہا آفتاب  تم  نےدل کو بلا وجہ  دماغ کے اوصاف سے  متصف  کردیا ہے۔دل محض ایک پمپ ہے سوچنے سمجھنے کے سارے کام دماغ کرتا ہے۔ تم دل کے بجائے اپنے دماغ سے پوچھو تو وہ میری   تائید کرے گا ۔
آفتاب بولا جی ہاں جناب میرا دماغ آپ  کے دلائل کی تائید کرتا ہے۔
چندربھان نے خوش ہوکر کہا بہت خوب تو پھر کیا مسئلہ ہے؟
سر  لیکن  دل ہے کہ مانتا  نہیں ۔
ارے بیٹے دراصل دل کاکام اقرار یا انکار کرنےکا نہیں ہے ؟ دماغ  نےمان لیا تو سمجھو کہ تم نے مان لیا ۔
سر لیکن کیا کبھی  آپ کے اندر  سے بیک وقت دو مختلف و متضاد آوازیں نہیں آتیں ؟
یہ تو ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن وہ دونوں آوازیں دماغ سے آتی ہیں ۔
تو کیا دماغ اپنے آپ سے اختلاف کرتا ہے؟ اور  اگر ہاں تووہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟
میں نہیں جانتا کہ دماغ ایسا کیوں کرتا ہے ۔ میں نیوروسرجن نہیں  ماہر قلب ہوں ۔
سر میں بھی  دل کا ڈاکٹرہوں اس لئےجانتا ہوں کہ   دماغ اپنے آپ سے نہیں  بلکہ دل  اس سے اختلاف کرتا ہے۔
دل کاکام سارے جسم خون پہنچانا ہے اور تم   نہ جانےکتنے آپریشن  کر چکے ہو۔ کیا تم نے کبھی اس کو کچھ اور کرتے دیکھا ہے؟
لیکن سر ایک عضو ایک سے زیادہ کام بھی تو کرسکتا ہے اور کیا اس کے ہرکام کا نظر آنا ضروری ہے۔
کج بحثی سے نالاں چندربھان  نے موضوع بدلتے ہوئے کہا  کل ہی میرے پاس ایک نئی (animation) سی ڈی آئی ہے جو دل کی ساری  کارکردگی پر بہترین روشنی ڈالتی۔  میں وہ  تم کو دینا چاہتا تھا ۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب نےآواز لگا ئی ’’رامو میرے ٹیبل سے وہ سی ڈی لے آ‘‘۔
رامو دوڑ کر   صاحب کے کمرے میں پہنچا سیڑھی  دور پڑی تھی۔ سوچا صاحب نے تو میزپر کہا تھا ! پھردماغ سےوہ  سوال جھٹک کر سیڑھی لے آیا۔
چندربھان نے رامو کی سیڑھی کے ساتھ دیکھ کر کہا یہ کیا اٹھالایا؟
رامو بولا صاحب سیڑھی !وہ میز پر کیسے چڑھ سکتی ہے۔ ایک کنارے کھڑی تھی سو لے آیا۔
اوئے بیوقوف میں نے تجھے ٹیبل پر پڑی گول کمپیوٹر کی سی ڈی لانے کیلئے کہا تھا ۔
اوہو وہ چمکدار دائرہ نما طشتری جو کمپیوٹر میں بنی کھڑکی کے اندر گھومتی نظر آتی ہے۔
جی ہاں وہی۔ لیکن وہ صرف گھومتی نہیں  ہے بلکہ میں جوکچھ کمپیوٹر کے پردے پر دیکھتا ہوں وہ اس میں لکھا ہوتا ہے۔
بے یقینی کے عالم میں رامو سی ڈی لاتے ہوئےالٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا  ۔ اس پرتو کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہے۔ صاحب !کچھ بھی بولتے ہیں ۔
رامو کی حیرانی اس کے چہرے سے عیاں تھی  ڈاکٹرچندربھان اسے   بھانپ کربولے دیکھوآفتاب یہ سی ڈی پر لکھی تحریر پڑھنے کی سعی کرتا ہے۔
سر عجیب معاملہ ہے کہ جو کچھ آپ سی ڈی کے متعلق کہتے ہیں میں دل کی بارے میں  کہتا ہوں لیکن نہ رامو مانتا ہے  اورنہ آپ مانتے ہیں ۔
ڈاکٹر چندربھان کا دماغ سی ڈی کی مانند گھومنے لگا۔ ان کا  قلب گواہی دے رہا  تھا کہ آفتاب کی بات درست ہے۔

No comments:

Post a Comment