Thursday 26 January 2017

طائف کی گھاٹی

طائف کی گھاٹی
ڈاکٹر سلیم خان
ایک ماہ کے اندرواشنگٹن کے اویجنلک سینٹر میں پھرسے کرسمس کا سماں  لوٹ آیا ۔مرکزی   ہال میں بہت سارے لوگ ٹرمپ کی حلف برداری سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ باہر لان میں زبردست پارٹی کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں گوشت کو آگ پر رکھا اور شراب کو برف سے  ڈھانپا جارہاتھا  کہ اچانک قرآن مجید کی تلاوت شروع ہوگئی ۔  یہ منظر دیکھ کر شدت پسندمسیحی قائد ڈیوڈ  کے تن بدن میں آگ لگ گئی  اور جب ان آیات کا انگریزی میں ترجمہ بھی پیش ہونے لگا تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔  اس نے فوراً ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کیا اورکھڑا ہوکر اپنی گرجدار آواز میں جشن  کی منسوخی کا اعلان کردیا ۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا لیکن کوئی کچھ نہ بولا مجمع خاموشی کے ساتھ چھٹنے لگا ۔
دس منٹ بعد ہال میں ڈیوڈ اور اس کے چند خاص حواری رہ گئے تھے ۔ ایک خوفناک سناٹے نے سب کو نگل رکھا تھا کہ ڈیوڈ پھر گویا ہوا ۔ وہ فریبی  ہے۔ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ      بھی دھوکے باز نکلے گا چلو اچھا ہوا کہ بلی بہت جلد تھیلے سے باہر آگئی ۔ ان منافق  سیاستدانوں نے ہمیشہ ہی ہمیں بے وقوف بناکر ہمارا  جذباتی استحصال کیا ہے۔ ہم انہیں  قرار واقعی سزا دیں گے۔ ڈیوڈ کے خاموش ہوتے ہی اس کا دست راست مائیکل بولا ڈیوڈ ابھی تم جوان ہو لیکن اس طرح سے فریب کھاتے کھاتے اور اس طرح کی دھمکیاں سنتے سنتے میں بوڑھا ہوچکا ہوں ۔ ہماری یادداشت بہت کم ہوتی ہے  مجھے یقین ہے کہ آئندہ انتخاب سے قبل اس واقعہ کو بھلا کر پھر سے ۰۰۰۰۰ڈیوڈ درمیان میں بول پڑا آپ ہمیشہ مایوسی اور بددلی کی باتیں کرتے ہیں۔  میری رائے ہے کہ اب آپ کو کسی بزرگ خانہ میں بھرتی ہوکر دنیوی معاملات سے کنارہ کش ہوجانا چاہئے۔
انٹن نے نے کہا لیکن ڈیوڈ تم نے تواس کے بجائے اپنے ہی ارکان کی خوشیوں پر پانی پھیردیا۔ ان لوگوں نے شام کی دعوت کیلئے جو تعاون دیا تھا اس پر مٹی ڈال دی اب جو یہ تیاری ہوچکی ہے اسے کوڑے دان میں ڈال دیں یا قریب کے مسلم یتیم خانے میں  خیرات کردیں ؟وہ کمبخت بھی نہ خنزیر کے کباب کو ہاتھ لگائیں گے اور نہ شراب کے قریب پھٹکیں گے۔ ڈیوڈ بولا اچھا یاد دلایا اب ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا۔ چلو اسلامک سینٹر چلتے ہیں ۔ کہاں ہے ہمارا میگا فون  اور پوسٹر جو ہم نے پچھلے ہفتہ تبلیغ کیلئے استعمال کئے تھے ۔ انہیں نکالو، ہم  اسلامی مرکز کے باہر جاکر مظاہرہ کریں گے۔ مائیکل بولا لیکن وہ تو دعوت کیلئے تیار کئے گئے تھے ۔ ڈیوڈ نے کہا ایک ہی بات ہے۔ اسی کے ساتھ یہ پانچ سات نفری قافلہ اسلامی مرکز پہنچ گیا اور اس کے دروازے پر کھڑے ہوکرڈیوڈ نے اسلام اور مسلمانوں کو میگافون پر جی بھر کے برا بھلا کہا۔  
اسلامی مرکز کے لوگ جو ٹرمپ کی حلف برداری میں قرآن مجید اور اس کے ترجمہ پر خوش ہوکر اس کی تقریر کے منتظر تھے اچانک برپا ہونے والے اس ہنگامہ سے چونک پڑے۔ مرکز کے نائب ذمہ دار عمیراحمد نے کھڑکی سے ڈیوڈ کو دیکھا تو سمجھ گئے کہ ’ہنگامہ ہے کیوں برپا‘ ۔ وہ بورڈ روم سے نکل کر لائبریری میں آئے جہاں بہت سارے لوگ مطالعہ میں غرق تھے۔ ان میں کچھ باہر کے شور شرابے سے پریشان بھی ہوگئے تھے۔ عمیرنے اعلان کیا آپ اطمینان سے اپنا کام کریں ۔ یہ ٹرافک جام ہے! تھوڑی دیر میں کھل جائیگا اور ہارن کی یہ آوازیں  بھی تھم جائیں گی۔ اس کے بعد وہ ورزش گاہ میں گئے اور نوجوانوں کو اطمینان سے اپنا کام جاری رکھنے کی تلقین کرکے واپس لوٹ آئے۔
بورڈ روم میں پرجوش سلمان نے مشورہ دیا خوش قسمتی سے آج مرکز میں بہت لوگ ہیں کیوں نہ ان  کمبختوں کا دماغ درست کردیا جائے تاکہ  دوبارہ یہاں کا رخ  کرنے کی جرأت نہ  کریں ۔ مرکزکے صدر عامر نےکہا اس طرح ہم ان کے آلۂ کار بن جائیں گے۔ذرائع ابلاغ نام نہاد  پرامن عیسائی داعیوں کی ہمدردی میں آنسو بہاکر اسلام کے خلاف محاذ کھول دے گا۔ ہم ان کے تھکنے کا انتظار کریں گے۔ اورپھر پڑوس کےکافی ہاوس سے ٹھنڈا پانی اور گرم کافی پلا کر انہیں روانہ کردیں گے۔ واپسی سے قبل ان سب  کا فون نمبر لے لیاجائیگا تاکہ فرداً فرداً ہر ایک کو اسلام کی دعوت پہنچائی جاسکے۔ یہ  بدر کا میدان  نہیں طائف کی گھاٹی ہے ۔ ان شاء اللہ  ان کی آنے والی نسلیں مشرف  بہ اسلام ہوں گی۔

Thursday 19 January 2017

کاش خود کو بھی دیکھتے۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

کاش خود کو بھی دیکھتے۰۰۰۰۰
ڈاکٹر سلیم خان
صبح نے سانس لی اور زندگی کے سفر کاآغاز ہوگیا۔ کوئی مندرجارہا تھا توکوئی مسجد سے آرہا تھا ۔کچھ لوگ  دودھ یا اخبار رسانی کے کام  میں جٹ گئے تھے۔ کسی کودفترپہنچنے کی توکسی کو دوکان کھولنےکی جلدی تھی۔کوئی چہل قدمی فرما رہا تھا اور کسی کو اسکول جانے کا غم ستا رہا تھا۔ غرض کہ شہر کی گہما گہمی شروع ہوگئی تھی۔ دنیا کے اس  میلے میں ملوّ بھی اپنی منحنی سے سائیکل پر بڑا سا ناریل کا بڑا سا ٹوکر ا رکھ کر شامل ہوگیا۔ ملوّ کے بالکل پیچھے سائے کی مانند چلنے والے ایک لڑکے نے اچانک ٹوکرے کی جانب ہاتھ بڑھایا اور ایک ناریل اٹھا کر اپنی جگہ کھڑا ہوگیا۔ اسی کے ساتھ ملوّ اور اس کے درمیان کافاصلہ بڑھنے لگا۔  نوعمر چور کی اس حرکت کو ملوّ نے تو نہیں مگر اس کے پیچھے چلنے والے سارے لوگوں نے دیکھا۔
چہل قدمی میں مصروف  گنگا پرشاد نے اپنے آپ سے کہا یہ ملوّ اور لڑکے کا آپسی معاملہ ہے مجھے اس میں دخل اندازی نہیں دینی چاہئے۔      سیٹھ موہن داس نے سوچا ملوّ کو محتاط ہونا چاہئے چونکہ اس نے اپنے مال کی حفاظت کا انتظام نہیں کیا اس لئے خسارے کیلئے خود ذمہ دار ہے ۔
مندر سے لوٹنے والے پنڈت نند کشور کے من میں چور کے خلاف شدید نفرت اور غم وغصہ پیدا ہوا مگر وہ بھی دل مسوس کے رہ گئے ۔
ماسٹر طوطا رام سے رہا نہ گیا اور انہوں نے چور چور کا شور مچادیا ۔
ملوّ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو چور ناریل کو ہاتھ میں لئے دوڑ رہا تھا ۔ اس سے پہلے کہ ملوّ اپنی سائیکل اسٹینڈ پر لگا کر پیچھاکرتا وہ ہوا ہوگیا۔
اس منظر کو دیکھ کر اسکول جاتے ننکو کو جوش آگیا۔وہ بلاتوقف چور کے تعاقب میں دوڑ پڑا اور گلی کے اندر اس کو دھر دبوچا ۔
اب چور کو قرار واقعی سزا دینے کیلئے سب جمع ہوگئے جن میں سب سے آگے موہن داس اور گنگا پرشاد تھے نیز سب سے پیچھے ملوّ ناریل والا ۔
ہمارے معاشرے میں  ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ گنگا پرشاد اور موہن داس قسم جیسے لوگ  برائی کو دیکھ کر اس کی غلط توجیہ کرکے اپنے ضمیر کی آواز کو دبا دیتے ہیں۔ ایسے لوگ آگے چل کر خود برائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔  پنڈت نند کشور جیسے بھلے مانس خود کو تو برائی سے روکنے میں سپھل ہوجاتے ہیں لیکن دوسروں کو اس سے روک نہیں پاتے۔ طوطا رام جیسا انسان ان راہگیروں  کو چور کی پیروی سے روکنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ کاش وہ بھی اس نوجوان کی طرح مفت میں ناریل کھانے کی کوشش کرتے ۔طوطا رام کی اس جزوی کامیابی سے  نہ تو چور کا کوئی خسارہ ہوتا اور نہ ملوّ کا کوئی فائدہ ۔ننکو کے اقدام سے منظر بدل جاتاہے ۔ ملوّ کو اس کا ناریل مل جاتا ہےاور چور کو وہ سبق کہ دوبارہ ایسی گھناونی حرکت کا ارتکاب مشکل تر ہوجائے ۔
 حضرت ابو سعید خدری ؓ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ تم میں سے جو شخص کسی برائی کو ہوتا دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے (یعنی رو ک دے) اگر وہ (ہاتھ سے روکنے کی) استطاعت نہیں رکھتا تو زبان سے (اس برائی کو واضح کرے) اور اگر وہ (اس کی بھی) استطاعت نہیں رکھتا تو پھر اپنے دل سے (اسے برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘(مسلم)۔ اس حکایت  کے تناظر میں یہ فیصلہ کرنا کہ گنگا پرشاد،  موہن داس ، نند کشور،طوطا رام اور ننکو کہاں کھڑے ہیں کسی اہمیت کا حامل نہیں  ہے بلکہ  اس حدیث کی روشنی  ہمیں اپنے آپ سے سوال  کرنا چاہئے کہ ہم خود کس درجہ میں  ہیں؟  اور اپنے درجات کی بلندی کیلئے کیا کرسکتے ہیں؟ ورنہ ہمارا حال توبقول افتخار راغب یہ ہے کہ  ؎
کاش خود کو بھی دیکھتے راغب رہ گئے انگلیاں اٹھانے میں

اک نئی شئے وجود میں آئی ،خاک اور خواب کو ملانے سے


ڈاکٹر سلیم خان
اوم پوری اپنی فلموں کی مانند ایک دلچسپ اور رنگا رنگ زندگی گذار کر اس عالمِ فانی سے کوچ کرگئے۔ امبالہ کے اندر اپنے ننہال  میں پٹری کے اوپر سے کوئلے چننے والا لڑکا  اوم انجن ڈرائیور بننا چاہتا تھا ۔ جب اسکول جانے کے قابل ہواتو ایک دھابے میں نوکری کرلی اور برتن دھونے لگا۔ کالج میں پہنچ کر فوجی بننے کا خواب دیکھنے والے اس نوجوان  نےایک وکیل کے یہاں منشی کی ملازمت کرلی تھی اور  ڈراموں میں  کام کرنے لگا تھا ۔ اس نے ایک مرتبہ   ڈرامہ  کیلئے  تین دن کی رخصت طلب کی تو وکیل نے انکار کردیا ۔ اس  کے  جواب میں نوکری کو لات مارکر کہا اسے تو اپنے پاس رکھ اور میرا حساب کردے۔ کسمپرسی کے عالم   میں تعلیم حاصل کرنے والے کسی  اورنوجوان کیلئے  یہ فیصلہ نہایت مشکل ہوسکتا تھا  لیکن جسے آگے چل کر اوم پوری بننا ہو اس کیلئے   یہ کوئی مشکل نہیں تھی۔
دنیا والے جب ایک دروازہ بند کرتے ہیں تو اوپروالا کئی دروازے کھول دیتا ہے ایسا ہی کچھ اس نوجوان کے ساتھ ہوا۔ وہ آرٹس کا طالب علم تھا مگر  کالج میں لیب اسسٹنٹ  کی اسامی خالی تھی ۔ پرنسپل نے یہ کہہ کر ملازمت پر رکھ لیا کہ طلباء خود ہی نیلی پیلی بوتلیں طلب کریں گے اور وہ  فراہم کردیاکرےگا۔یوتھ فیسٹویل  کے ڈرامہ میں ہرپال دیوان نے اس کی  اداکاری کو دیکھ کراپنے تھیٹر میں شامل ہونے کی  پیشکش کردی۔ اس پر معذوری کا اظہار کرتے ہوئے نوجوان بولا  میں دن میں ملازمت اور شام میں پڑھائی  کرتا ہوں ۔ دیوان نے کہا ملازمت ترک کرکے دن  میں کا لج جاو اور شام میں تھیٹر آجایا کرو۔ اس طرح تنخواہ ۱۲۵ روپئے ماہانہ سے بڑھ کر ۱۵۰ ہوگئی۔
وقت  کا پہیہ  جو اس نوجوان کو انبالہ سے  پٹیالہ لے گیا تھا دہلی سے ہوتا ہوا ممبئی کی مایا نگری میں لے آیا۔ اس کی شکل و شباہت کو دیکھ کر ایک اداکارہ نے کہا کہ اس قدر بدشکل انسان فلموں میں قسمت آزمائی کی جرأت کیسے کرسکتا ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ  اگر ہر خوبرو شخص  اداکار نہیں ہوتا تو ہرا داکار کیلئے خوبصورت ہونا کیوں ضروری ہے؟ اس حقیقت  کی معرفت  اوم  پوری سے زیادہ کسی اور کو نہیں تھی ؟ اوم پوری نے اسٹیج سے لے کر فلموں تک اپنی اداکاری کا ایسا لوہا منوایا جو بہت کم لوگوں کو نصیب  ہوتاہے۔     دومرتبہ قومی اعزاز اور پھر پدم شری کے   ایوارڈ سے نوازہ جانا معمولی بات نہیں ہے۔۱۰۰ سے زیادہ ہندی فلموں کے علاوہ   ہالی ووڈ کی ۲۰  فلمیں کرنا  کیا ہر کس وناکس  کے بس میں ہے؟ امبالہ کے ایک معمولی  نوجوان نے یہ کارنامہ کرکےثابت کردیا کہ اگر عزم و صلاحیت موجود ہوتو دکھاوے کی فلمی نگری میں بھی   غربت اور شکل و صورت  کسی کےراہوں کا روڑا نہیں بن سکتی لیکن جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ’’ کبھی  کسی  کو مکمل جہاں نہیں ملتا ‘‘۔
مور کے پر اور کلغی کی طرح  خوشنما فنکارانہ اور پیشہ ورانہ کامیابیوں کے ساتھ اوم پوری کی  ازدواجی زندگی   مورکے پیر کی مانند  ہے۔ پہلی بیوی  سے ۳ سال اور دوسری سے۱۰ سال بعد علٰحیدگی ہوگئی اور یہ کامیاب اداکار تنہائی کا غم غلط کرنے کیلئے  ساغرو مینا میں غرق ہو گیا۔ موت سے ایک روز قبل آخری چپقلش بیوی نندیتا سے ہوئی  ۔اوم پوری  کی لاش کوجب مکان سے نکالا گیا تو سر میں  ڈیڑھ انچ گہرا زخم تھا اور بہت سارا خون بہہ چکا تھا  ۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں تو  موت کی وجہ حرکتِ قلب کا بند ہونا درج  ہے لیکن پولس مختلف زاویوں سے تفتیش کررہی ہے ۔ ایک مرتبہ اوم پوری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئےکہا تھا میں ’خان ‘ نہیں بن سکا۔ اوم کیلئے خان بننا نہ تو ممکن تھا اور نہ ضروری ۔ انسان کیلئے ظاہری امکانات محدود ہوتے ہیں مگر باطنی ارتقاء لامحدود ہوتا ہے۔  چند ماہ قبل سوشل میڈیا  میں  افواہ اڑی کہ اوم پوری نے اسلام قبول کرلیا۔ اگروہ  خبر درست ہوتی  تو اوم پوری تین چھوٹے خان تو کجا بڑے خان صاحب ( یوسف خان) سے بھی بہت آگے نکل سکتا تھا لیکن انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جو حاصل کرسکتا ہے اس سے بے نیاز ہوکر جو ممکن نہیں اس کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے ۔ بہت ممکن ہے  دین رحمت کی آغوش میں اوم پوری  کےازدواجی مسائل حل ہوجاتے  مگر اخروی زندگی  کوتو تابناک ہونا ہی تھا  ۔

عقل کی کھڑکی


ڈاکٹر سلیم خان
رامو اور چنگو بچپن کے دوست اور پڑوسی تھے ۔ دونوں محنت مزدوری کرتے اور شہر کی جھونپڑ پٹی میں رہتے تھے۔ ان کے بیٹے شیامو اورمنگو دوست اور ہم جماعت  تھے۔ دونوں کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا ۔ ہر  کلاس میں کئی  بار فیل ہوتے مگر کوئی افسوس نہ ہوتا ۔ بالآخر دونوں نے پاسپورٹ بنایا اور تعلیمی سلسلہ ادھورا چھوڑ کر بدیس کی راہ لی۔  اپنے والد کی طرح مزدوری کرنے کیلئے ایک  دوبئی چلا گیا اور دوسرا سنگا پور جاپہنچا۔ پردیس میں کام تو وہی محنت مزدوری کا تھا لیکن آمدنی زیادہ تھی۔ باہر کا روپیہ جب گھر میں آیا تورامو اور چنگو نے اپنے خوابوں کے محل کی تعمیر آغاز کردیا ۔ جھگیوں کی بستی میں  مزید دو دو منزلہ پکے مکانات  کا اضافہ ہوگیا ۔ وہ اپنے بچوں اور بہووں کو اوپر کی منزل میں رکھنا چاہتے تھے جبکہ بیٹوں نے بیویوں کے ساتھ بدیس نکل  جانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا ۔
تین سال کے بعد شیامو دبئی سے  لوٹا تو اس کے ساتھ کئی بڑے بڑے بکسے تھے ۔ کھولنے پر پتہ چلا یہ ہوم تھیٹر ہے ۔ اس میں ایک بڑا  سا                       ٹی وی اور دوبڑے اسپیکر ہیں۔ شیامو جب اس پر موسیقی سنتا تو سارے محلے کو پتہ چلتا لیکن سب سے زیادہ شور چنگو کی سمع خراشی کرتا۔ چنگو نے رامو   سے گذارش کی کہ آواز دھیمی رکھے یا  کم ازکم  کھڑکی بند کردیا کرے  تو اس نے کہا دوست مجھے تمہاری پریشانی کا احساس ہے۔ میں نے شیامو کوبھی  سمجھایا لیکن وہ نہیں مانتا۔ اس کا کہنا ہے کہ میوزک سسٹم  اور کھڑکی دونوں ہماری ہے۔ ان پر ہماری مرضی چلے گی ۔ ان کاکھلنا و بند ہونا کوئی اور نہیں بلکہ ہم طے کریں گے ۔ کسی اور کواگر اس سے زحمت ہوتی ہو وہ  اس کا اپنا مسئلہ  ہے۔ چنگو بولا یار یہ تو عجیب بات ہے۔ رامو نے تائید کی جی ہاں ہمارے لئے عجیب مگر نئی نسل کیلئے نہیں اس لئے کہ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتی ہے اور دوسروں کا خیال رکھنا ضروری نہیں سمجھتی۔
منگو بھی چند ماہ بعدلوٹ آیا۔ اس کے ساتھ بھی بکسے تھے لیکن چھوٹے۔ وہ اپنے ساتھ بڑا سا کمپوٹر لے آیا تھا ساتھ میں دو چھوٹے چھوٹے اسپیکر اور کانوں پر لگانے والا ائیر فون ۔ چنگو نے پوچھا تو ٹی وی نہیں لایا تو منگو بولا اس کمپیوٹرمیں  آپ ٹی وی دیکھ سکتے ہیں  اور ان اسپیکرس کی مدد سے آواز بھی  سن سکتے ہیں ۔  ویسے اگر آپ اکیلے سننا چاہیں تو ائیرفون لگالیں ، چنگو بولا بیٹا لیکن شام میں جب شیامو اپنا ٹیلی ویژن چلاتا ہے تو ہم سب بہرے ہوجاتے ہیں ۔ کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ منگو نے پوچھا لیکن ہم لوگ اپنی کھڑکی بند کیوں نہیں کرتے؟ کرتے ہیں لیکن پھر بھی بہت سارا شور اندر آہی جاتا ہے ۔تووہ اپنی کھڑکی کیوں نہیں بند کرتا ؟ رامو بولا جس کی کھڑکی اس کی مرضی۔  منگو سمجھ گیا وہ شیامو کا ہم جماعت جوتھا
شام کو منگو نے لوباندان میں مرچیں رکھیں تو چنگو نے پوچھا یہ کیا۔ وہ بولا دیکھتے جائیے ۔ منگو نے لوباندان کو   کھڑکی کے باہر  رکھنے کے بعد اس میں جلتا ہوا کوئلہ ڈال کر پنکھا چلا دیا  اور اپنی کھڑکی  بند کردی۔ مرچوں کا دھواں اب سیدھا رامو کے گھر میں جارہاتھا سارے لوگ کھانس رہے تھے۔ رامو شکایت کیلئے چنگو کے گھر آیا تو دیکھا یہاں دھویں کا نام و نشان نہیں ہے ۔ رامو نے پوچھا چنگو یہ کیا ؟  چنگو مسکرا کر بولا  بھابی کوبلا لاو اور یہاں  بیٹھ کر چائے پیو ۔ رامو بولا لیکن ۰۰۰۰۰ دیکھتے جاو۔چنگو نے جواب دیا۔ چپ چاپ  منگو اور شیامو کا کھیل دیکھو یہ نئے وقت کے لوگ ہیں ۔
 شیامو بھی  کھانستے ہوئے منگو کے پاس پہنچا اور سوال کیا منگو یہ کیا ہورہا ہے؟ منگو نے جواب دیا  دوست میری کھڑکی میری مرضی میں اس پر جوچاہوں جلاوں ۔ لیکن اسے کھول کر تو دیکھو کیا ہورہا ہے؟مجھے پتہ ہے لیکن میں  جب تک چاہوں اسے کھلا رکھوں جب چاہوں بند کروں ۔ مگر ہم کھانس کھانس کر مرجائیں گے ۔ اپنی کھڑکی بند کرلو۔ بند کیا پر بے فائدہ۔ یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ شیامو کے عقل کی کھڑکی مرچوں کے دھوئیں سے کھل چکی تھی  وہ بولا تم میرے ہم سایہ اور ہم جماعت ہو  خدا کیلئےیہ مسئلہ حل کرو۔ منگو بولا اس کا حل یہ ہے کہ میرے گھر کی جو کھڑکی تمہاری طرف ہے وہ تمہاری مرضی سے کھلے گی یا بند ہوگی اور تمہاری جو کھڑکی میری طرف کھلتی اس پر میری مرضی چلے گی ۔ بات معقول تھی  دونوں نے مصافحہ کیا ۔ منگو نے لوباندان ہٹا لیا ۔ شیامو نے اسپیکر کی آواز کم کردی۔ تمام کھڑکیا ں کھل گئیں  ۔