Thursday 3 November 2016

چٹانوں پہ دیکھی ہم نے بکھری لاش جوانوں

چٹانوں پہ دیکھی ہم نے بکھری لاش جوانوں کی
ڈاکٹر سلیم خان
 ’فساد فی الارض‘       کا مطلب زمین پر رب ذوالجلال  کی اطاعت ترک کر کے سرکشی پر اتر آناہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کی پاس داری کے بجاے انھیں پامال کرتے چلے جانا۔ بھوپال کا سانحہ اس فساد کا ایک نمونہ ہے۔ بھوپال انکاونٹر کے فوراً  بعدسارامیڈیا ایک زبان ہوکر سرکاری جھوٹ پھیلا رہا تھا اس کا اثر یہ ہوا کہ  جب ٹائمز انڈیا نے قارئین سے رائے طلب کی کہ ان میں سے کتنے انکاونٹر کو جائز سمجھتے ہیں تو ابتداء میں ۷۰ فیصد اس کے حق میں اور ۳۰ سے کم اس کے خلاف تھے لیکن اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ ۲۹ فیصد اس کو ہنوزدرست سمجھتے ہیں اور ۵۵ فیصد اس کے خلاف ہوگئے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ ہی میں شائع ہونےوالی مختلف تفصیلات کی بناء پر ہی عوام کاذہن بدلا ہے ۔رائے عامہ کی اس تبدیلی سے ظالم و مفسد حکمرانوں کی جس  رسوائی کا آغاز ہوا ہے اس کے متعلق ارشادِ ربانی ہے ’’ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے، جبکہ آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے، ۰۰۰۰۰۰۔‘‘  
محمد خالد احمد ان ۸ لوگوں میں شامل تھا جنہیں جھوٹ  کی بنیاد پرسیاسی مفاد کی خاطر شہید کردیا گیا۔ خالد مہاراشٹر کے شولاپورکا رہنے والا تھا ا سے دسمبر ۲۰۱۳؁ میں مدھیہ پردیش کے سیندھوا سے گرفتار کیا گیا ۔ اے ٹی ایس کے مطابق اس نے اپنے اقبالیہ بیان میں تسلیم کیا کہ وہ سابق مرکزی وزیر سشیل کمار شندے اور ان کی بیٹی کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔   یہ الزام عدالت میں ہنوز ثابت نہیں ہوا تھا اور شاید کبھی نہ ہوتا اس لئے کہ ۲۰۰۱؁ میں سیمی پر پابندی لگی اس کے ۱۳ سال بعد کسی کا ایک سابق وزیر کے قتل کی سازش  میں مصروف ہوناجس کا اس پابندی سے کوئی تعلق نہ ہو ایک بے معنیٰ  بہتان ہے اور اس کا مدھیہ پردیش سے گرفتار ہونا بھی حیرت انگیز ہے ۔
محمد خالد کی والدہ محمودہ  نے بھاسکر گروپ کےدیویہ مراٹھی نامی اخبار کے نمائندے کو بتایا کہ ان کا  بیٹا دہشت گرد نہیں تھا ۔ عدالت میں اس کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے اور انہیں ایک مثبت فیصلے کی امید تھی ایسے میں بھلا وہ فرار کی کوشش کیوں کرتا۔ خالد کوجس سازش کےتحت انکاونٹر کیا گیا اس کا  پردہ فاش کرتے ہوئے  محترمہ محمودہ نے کہا ۱۵ دن قبل دوپولس والے ا ن کے پاس آئے اور ایک کورے کاغذ پر دستخط کرنے کیلئے دباو ڈالنے لگےمگرانہوں نے انکار کردیا۔ پیر کے دن محمودہ اور ان کی بیٹی خالد سے ملنے کیلئے نکلے مگر راستے ہی میں انہیں انکاونٹر کی اطلاع مل گئی جس کے بعد وہ شولاپورلوٹ گئے ۔  منگل کے دن شولاپور کے پولس افسر نے ان سے ملاقات کرکے بتایا کہ قانون و سلامتی کے پیش نظر بھوپال  ہی میں خالد کی آخری رسومات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اس طرح خالد کی والدہ ،  اہلیہ ، بچوں اور بہن  کو آخری دیدار تک سے محروم کردیا گیا۔
اس کے برعکس بھوپال سے یہ جھوٹ پھیلایا گیا چونکہ خالد کے وارث اس کا جسد خاکی لینے کیلئے  نہیں آئے اس لئے بھوپال میں تدفین عمل میں آئی ۔ اس ظلم وجبر کا پول  سے ہاتھ آنے والی رسوائی تو بس ایک ابتداء  ہےظالموں کی اصل سزا تو یوم آخرت کیلئے اٹھا رکھی گئی ہے ۔    جیسا کہ مذکورہ آیت میں فرمایا گیا ’’ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے، جبکہ آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے، ۰۰۰۰۰۰۔‘‘    وہاں نہ اقتدار کام آئیگا نہ لاو لشکر ۔ جھوٹ کو سچ بنانے والا میڈیا موجود نہ ہوگا۔ روز محشر  زبانِ خنجریا آستین کا لہو نہیں  اعضاء و جوارح گواہی دیں گے بقول شاعر؎
وہ دنیا تھی جہاں تم روک لیتے تھے زباں میری یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری

No comments:

Post a Comment