Thursday 10 November 2016

فرعونِ وقت اور رویش کمار


ڈاکٹر سلیم خان
ظالم کی ایک پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ نہایت بزدل ہوتاہے۔ وہ خود ڈرتا ہے اس لئے دوسروں کو اس خیال سے ڈراتا ہے کہ وہ  بھی خوفزدہ ہوجائیں گےلیکن اس کی حماقتوں کے سبب رہی سہی دہشت بھی کافور ہوجاتی ہے ۔ این ڈی ٹی وی (ہندی) پر ایک دن کی پابندی کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ چار ہزار سال قبل فرعون نے بھی یہی کیا تھا ۔ اس کے دربار میں پہنچ کر جب حضرت موسیٰ  ؑ نے اسے اپنے رب کی بندگی کرنے کی دعوت دی تو وہ بگڑ کر بولا یہ کس رب کی بات ہورہی ہے؟میں کسی رب کو نہیں جانتا۔ اس دنیا کا’’رب اعلیٰ‘‘ تو میں ہوں (نعوذ بااللہ)۔ حضرت موسیٰ ؑ کے ذمہ بزور قوت اپنی بات منوانا تو تھا نہیں انہیں  تو صرف  دعوت پہنچانا تھا سو وہ اپنی ذمہ داری ادا کرکے لوٹنے لگے  یہ دیکھ کر فرعون کے وزیراعظم ہامان کے دل کی دہشت زبان پر آگئی ۔ اس نے اپنے آقا سے سوال کیا کہ کیا تو موسیٰ اور ہارونؑ کو چھوڑ دے گا کہ یہ زمین میں فساد پھیلائیں اور تجھے  اقتدار سے بے دخل کردیں؟ یہ حیرت انگیز اندیشہ ان دو نہتے افرادکے تئیں تھا جن کی قوم کو غلام بنا لیا گیا تھا ۔جن کے لڑکوں کو بے دریغ ہلاک کیا جاتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا وہ بھلا  میخوں والے فرعون کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟
اس  حقیقت سے قطع نظر اس خوف کا کیا جائے کہ اپنے سارے لاؤ لشکر کے باوجود سمراٹ مودی  ایک معمولی رویش کمار کے آگے تھر تھر کانپ رہے ہیں ۔ اس کی زبان بند کرنے کے درپہ  ہیں لیکن نہیں جانتے کہ  حق کی آواز کو بہ آسانی تو دور بہ مشکل  بھی دبایا  نہیں جاسکتا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسی جرأت کرنے والے ظالموں کوکال چکر روند دیتا ہے  ۔ فرعون اور مودی جی کے طریقۂ کار میں بھی بلا کی یکسانیت ہے ۔ فرعون نے جادوگروں کی مدد سے حضرت موسیٰ ؑ کو زیر کرنے کیلئے ایک تقریب کا اہتمام کیا  اوراس میں سارے شہر کو بلوابھیجا ۔ اس طرح گویا حضرت موسیٰ کی دعوت کی تشہیر کا کام مشیت نے خود فرعون سے لے لیا۔ یہی این ڈی ٹی وی کے ساتھ ہوا کہ اس کے منفرد تشخص کو مشہور کرنے کی زحمت خود مودی سرکار کے سپرد کرد ی گئی اور اس کار خیر کو انجام دیتے ہوئےاس نے نہ پابندی لگا کر پیر پر کلہاڑی چلائی اور اٹھا کر  اپنا سر پھوڑ لیا۔
مودی جی کے مداریوں کی مانند فرعون کے دربار میں حاضر ہونے والے جادوگروں نے فرعون کی جئے کا نعرہ لگانے کے بعد پوچھا تھا کہ ہمیں اس خدمت کے عوض کیا ملے گا؟ فرعون کا جواب وہی تھا جو مودی جی کا ہوسکتا تھا کہ تمہیں مال و دولت کے علاوہ مقربین میں شامل کرلیا جائیگا ۔ یعنی ایم جے اکبر کی طرح بغیر انتخاب لڑے نہ صرف راجیہ سبھا کی رکنیت  عطا کی جائیگی بلکہ وزارت سے بھی نوازہ جائیگا۔  مودی جی نہیں جانتے کہ ارنب تو اکبر کے نقشِ قدم پر چل سکتا ہےلیکن  رویش نہیں ۔ فرعون نے جب جادوگروں کو دیکھا کہ وہ موسیٰ پر ایمان لے آئے تو وہ بھڑک کربولا تم نے میری اجازت کے بغیر یہ جرأت کیسے کی ؟ اور پھر دھونس دھمکی پر اتر آیا میں تمہارے ہاتھ پیر مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا ۔
بزدل   فرعون کو یہ توقع رہی ہوگی کہ جادوگر ڈر کر اس کے قدموں میں آپڑیں گے اور لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جادوگروں نے ببانگ دہل کہا ہمیں اس کی پرواہ نہیں ۔ ہم پر امید ہیں  کہ ہمارا رب ہماری خطاوں کو بخش دے گا اورہمیں  اپنے مقربین میں شامل کرے گا ۔ علامہ اقبال نے غالباً اسی تناظر میں کہا تھا ’جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی ،کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی ۔ تاریخ شاہد ہے کہ  جادوگروں کی عزیمت نے فرعون کی رعونت کو ملیا میٹ  کرکےرکھ دیا ۔   رویش کا عصا  فرعون ِوقت کی رسیوں کو نگلتا جارہا  ہے ۔ جادوگروں کی مانند ہر باضمیرصحافی  اس کے ساتھ کھڑا ہے اور مودی جی کے ساتھ رہ گئے ہیں امیت شاہ جیسا ہامان اور امبانی جیسے قارون ۔ وہ  لوگ اپنے آقاکو گنگا جمنا کے سنگم ورانسی میں غرقاب ہونے سے نہیں بچا سکتے ۔ ویسے نہ تو رویش کو موسیٰؑ سے کوئی نسبت ہے اور نہ مودی کا فرعون سے کوئی واسطہ  پھر بھی اس عہد میں   قصۂ فرعون کلیم کے مناظر تازہ ہوگئے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment