Thursday 24 November 2016

اقبال اور گاندھی سے راشد اور ساحر تک


ڈاکٹر سلیم خان
آزادی کے فوراً بعد گاندھی جی نے ایک مکتوب میں پنڈت نہرو کو لکھا تھا ’’ اس ریاست کے طریقۂ     کار پر میں نے ۱۹۰۹؁  کے اندرہند سوراج میں جو لکھا ہے اس پر  بالکل قائم ہوں ۰۰۰۔ میں یہ مانتا ہوں کہ ہندوستان کو کل دیہاتوںمیں ہی رہنا ہوگا، جھوپڑیوں میں، محلوں میں نہیں۔ کئی ارب آدمی شہروں اور محلوں میں سکھ اور شانتی سے کبھی نہیں رہ سکتے، نہ ایک دوسرے کا خون کرکے،یعنی تشدد سے، نہ جھوٹ سے ۔ وہ سچائی اور عدم تشدد کے درشن صرف دیہاتوں کی سادگی میں ہی کرسکتے ہیں۔ میرے دیہات آج میرے تصور میں ہی ہیں۔آخر ہر انسان اپنے تصور کی دنیا میں رہتا ہے۔ اسی زمانے میں  گاندھی جی کی طرح علامہ اقبال نے بھی مملکتِ خداداد سے متعلق ایک حسین خواب دیکھا تھا جس کی بھیانک  تعبیر  صاحب طرز  شاعر ن م راشد نے اپنی نظم ’’نمرود کی خدائی  ‘‘میں کچھ اس طرح بیان کی ہے کہ   ؎
یہ قدسیوں کی زمیں
جہاں فلسفی نے دیکھا تھا، اپنے خواب سحر گہی میں،
ہوائے تازہ و کشت شاداب و چشمۂ جاں فروز کی آرزو کا پرتو
یہیں مسافر پہنچ کے اب سوچنے لگا ہے:
''وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟‘‘
گاندھی جی سوچتے تھے آزادی کے بعدہندوستان کا  دیہاتی  ’’ گندگی میں ، اندھیرے کمرے میں جانور کی زندگی بسر نہیں کرے گا۔ مرد اور عورت دونوں آزادی سے رہیں گے اور ساری دنیاکے ساتھ مقابلہ کرنے کو تیار رہیں گے۔وہاں نہ ہیضہ ہوگا،نہ پلیگ ہوگا،نہ چیچک ہوگی۔‘‘ اگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو گیا ہوتا تو ۷۰ سال بعد دہلی کو عصمت دری کے دارالخلافہ کا خطاب نہیں ملتا،سوچھّتاا بھیان  کی تحت  بیت الخلاء تعمیر کرنے کی تحریک  نہیں چلانی پڑتی ۔ گاوں توکجادہلی جیسے شہر میں ڈینگو وباء  نہ بنتا۔    حالات کی سنگینی ایسی نہ ہوتی  کہ  ساحر لدھیانوی کو مجبور ہوکرعام آدی کوخواب دیکھنے کی دہائی دینی پڑتی ؎
 آو کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے ، ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی ،
 ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل ، تاعمر پھر نہ کوئی حسیں خواب  بن سکیں ‘‘
اس موقع پر عوام کے حزن و ملال کا استحصال کرنے کیلئے ایک نیا سپنوں کا سوداگر نمودار ہوا جس  نے سب کو ساتھ لے کر سب کے وکاس کیلئے اچھے دنوں کے خواب دکھائے اور سوئس بنکوں سے کالادھن  واپس لاکرہرشہری کے کھاتے میں ۱۵ لاکھ جمع کرنے کا وعدہ کیا۔   امیدکی ایک کرن نےکروڈوں لوگوں سے بنکوں میں کھاتے کھلوادیئے لیکن اب یہ حال ہے کہ ۵۰۰ اور ہزار کی شکل میں جمع نقد کمائی بھی ڈوب گئی۔ بیرونِ ملک شریف حکمرانوں کےبنک  بھرے پڑے ہیں اور لوگ  زاروقطار  رورہے ہیں   ۔ اقبال اور گاندھی کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے اور عوام کی زبان پر اسی نظم کا اگلا حصہ ہے ؎
کہاں وہ رویائےانتخابی ؟ کہاں یہ نمرود کی خدائی!
ہم اس یقیں سے' ہم اس عمل سے' ہم اس محبت سے'، آج مایوس ہو چکے ہیں۔

No comments:

Post a Comment