Thursday 22 October 2015

سیاسی بساط پر سانپ سیڑھی کا کھیل

سیاست کی بساط ایک زمانے میں شطرنج کی بازی  ہواکرتی تھی ۔ دونوں فریق ہاتھی ، گھوڑے ،فوج سمت  ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے۔ شئے دی جاتی مات ہوجاتی اور اقتدار بدل جاتا ۔یہ اس دور کی بات ہے جب سیاست اصول و ضوابط کی پابند تھی۔ ہاتھی ، گھوڑے اور فوج تو درکنار بادشاہ کی چال بھی متعینہ حدود کا پاس و لحاظ کرتی تھی لیکن آگے چل کر یہ سانپ سیڑھی کا کھیل بن گئی۔ جس میں اچانک کسی کو سیڑھی ملتی ہے تووہ شہریت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے  پھر جب سانپ کاٹتا ہے تو  دھڑام سےگمنامی کی کھائی میں گرجاتا ہے ۔ ایسا  نہ صرف جمہوری نظام ہی میں ہوتا  ہےبلکہ آمریت اور ملوکیت میں ہوتا رہتا ہے جس کی بے شمار مثالیں جابجا پھیلی ہوئی ہیں ۔
سعودی عرب میں دو ولیعہد اس لئے بادشاہت سے محروم رہے کہ باری آنے سے قبل  ان کا انتقال ہو گیا اور ملک سلمان کی لاٹری لگ گئی ۔ ان کے بھائی اور متوقع  ولیعہدمقرن کو سانپ نے ڈس لیا اور بھتیجے محمد بن نائف کو سیڑھی مل گئی۔ مصر میں جمال عبدلناصر کو اسرائیل سے شکست کے صدمے سے جاں بحق ہوگئے تو انور سادات کی لاٹری لگ گئی ۔ انور سادات کو گولی لگی تو حسنی مبارک کو سیڑھی مل گئی ۔ عوامی بغاوت کا سانپ جب نامبارک  اقتدارکو نگل لیا توجنرل اشفاق نے سیڑھی چڑھنے کی  کوشش کی  مگر ناکام رہے ۔ ڈاکٹرمحمدمورسی کے اقتدار پر مغرب نے سازشی سانپ چھوڑ دئیے اور السیسی کو سیڑھی تھما کر اقتدار پر فائز کردیا۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو کوپرویز مشرف کے ناگ نے ڈس لیا مگر زرداری کو سیڑھی مل گئی اور وہ پورے پانچ سال تک  صدار تی محل میں دادِ عیش دیتے رہے ۔  
ہندوستانی سیاست تو اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ شاستری جی کی ناگہانی موت سے گونگی گڑیا اندراجی کی قسمت کا ستارہ چمک گیا ۔ سونیا گاندھی کے اقتدار سنبھالنے کا وقت آیا تو اطالوی نسل کے سانپ نے انہیں ڈس لیا اور اسی کے ساتھ نرسمھا راو کو سیڑھی مل گئی۔ ان کے بعدوی پی سنگھ کو ان کے ضمیر نے روک دیا اور جیوتی باسو کو پارٹی کے سانپ نے ڈس لیا جس کے سبب دیوے گوڑا جیسے گمنام آدمی کی لاٹری لگ گئی اور وہ وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ اڈوانی جی کو قائد اعظم پر تبصرہ لے ڈوبا تو مودی جی کی وارے نیارے ہوگئے اوریہ ابھی پچھلے سال کی بات ہے کہ  دیکھتے دیکھتےان کا سورج  اقتدار کے فلک پر جگمگانے لگا  لیکن آج کل وہ بے شمار زعفرانی سنپولوں  کے درمیان پھڑ پھڑا رہے ہیں ۔ دہلی کی شکست کا کلنک مٹانے کیلئے بہار گئے تو وہاں بھی دال نہیں گلی ۔ ویسے اگر دال کا بھاؤگوشت سے زیادہ ہو جائے تو وہ گلے بھی کیسے؟
آج کل مودی جی کا یہ حال ہے کہ اس سے قبل وہ پہلے سنپولے کا گلا دبانے میں کامیابی حاصل دونئے ناگ دیوتا ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔  سنگیت سوم کو پھٹکارہ توساکشی مہاراج پھنکارنے لگے ۔ امیت شاہ نے ساکشی کودفتر میں بلا کر ڈانٹا تو کھٹر نے کہہ دیا ’’مسلمان ملک میں رہ سکتے ہیں مگر انہیں بیف کھانا چھوڑنا پڑے گا‘‘۔کھٹر کی دھمکی کے ساتھ ہی راحت اندوری کی غزل ’’کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘‘ پھر سے زندہ ہوگئی۔  خیر امیت شاہ نے منوہر لال  کھٹر کو تو فون پر جتا دیا کہ تو ’’ کرائے دار ہے مالک مکان تھوڑی ہے‘‘ اور منوہر لال نے معذرت بھی پیش کردی کہ میں تو گزارش کررہا تھا میں کوئی حکم تھوڑی نا لگا رہا تھا  لیکن برا ہو آر ایس ایس کا کہ اس کے ترجمان پانجنیہ میں ایک مضمون شائع ہوگیا جس میں کہا گیا تھا کہ ویدوں کے مطابق گائے کاٹنے والے کا قتل جائز ہے۔
بی جے پی والوں نےجب سنگھ کو سمجھایا گیا تو اس نے عجیب و غریب صفائی دی ۔ ایک  ترجمان نے کہا کسی مضمون نگار کے خیالات سے جریدے کا اتفاق ضروری نہیں ہے  لیکن دوسرا دوہاتھ آگے نکل گیا اور بولا پانجنیہ سنگھ کا ترجمان ہی نہیں ہے ۔ جو لوگ خود اپنے بارے میں  اس قدر دھڑلےّ سے جھوٹ بولتے ہوں  ان سے دوسروں کی بابت کیا توقع کی جائے۔  اس صورتحال میں مودی جی نے جن غیر ملکی سرمایہ کاروں بڑی مشکل سے میک ان انڈیا کیلئے تیار کیا ہے وہ بڑے تذبذب کا شکار ہیں اس لئے کہ سرزمین ہندپر اگر ان  کے مسابقین میں سے کوئی ان کا کانٹا نکالنا چاہے تو یہ بے حد آسان ہے۔ جب وہ اپنے ہوٹل سے دفتر جارہا ہو تو مخالف کے چند گھنٹے یہ افواہ اڑا دیں گے کہ اس نے ابھی ابھی بیف بر گر کھایا ہے اور پھر اس پر ہلہ ّ بول کر گئو ماتا کے نام پر اس کی بلی چڑھا دی جائے اس لئے کہ ویدوں میں تو یہی لکھا ہے اور فی الحال یہاں پر ویدوں  کی تعلیمات کے مطابق سارا کاروبار چل رہا ہے۔
 لوگ بار باریہ سوال کرتے ہیں  کہ اگر سنگھ پریوار بڑے کے گوشت کا اس قدر مخالف ہے تو وہ  بی جے پی  کی مرکزی حکومت سے بیف کی برآمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ  کیوں نہیں کرتا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ  سنگھ پریوار فی الحال بیف کے تاجروں کا دلال بنا ہوا ہے۔ وہ بیف  کی برآمد کو بڑھانے کیلئے ہی ہندوستان کے اندر اس کے کھانے پر پابندی لگوا رہا ہے۔ ہندوستان میں بڑے جانور کے گوشت کی پیداوار صرف۴۱ لاکھ ٹن ہے یعنی وہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے پانچویں نمبر پر ہے اس کے باوجوداس کی برآمد۲۱ لاکھ ٹن  ہے جودنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جبکہ ہندوستان جیسی آبادی والا ملک چین ہم سے ڈیڑھ گنا زیادہ  ۶۹ لاکھ ٹن بیف تیار کرنے کے باوجود۷۳ لاکھ ٹن درآمد کرتا ہے۔ اب اگر ہندوستان  اپنااول نمبر کا مقام برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اس لئے لازم ہے کہ  اندرونِ ملک اس کی کھپت گھٹائی جائے ۔ اس لئے کہ بیف کی پیدواوار کومزید بڑھانا ناممکن ہے۔یہی وجہ ہے کہ  بیف مخالف بھگوا دھاری سرمایہ داروں کے دلال چاہتے ہیں کہ سارےکا سارا۴۲ لاکھ ٹن بڑے جانور کا گوشت پردیس بھیج کر اپنی تجوری بھر لی جائے ۔ اِدھر بیف برآمد کرنے والے عوام کا گلا گھونٹ رہے ہیں اُ دھر دال درآمد کرنے والےعوام کو لوٹ رہے ہیں ۔ لوٹ کھسوٹ کی اس چکی میں عام لوگوں کے ساتھ مودی سرکار بھی گیہوں سمیت گھن کی مانند پسی جارہی ہے جس کا نمونہ ممکن ہے بہار کے اندر دیکھنے کو ملے ۔
ایک زمانے میں بی جے پی کا نعرہ تھا بھئے(خوف) ، بھوک (فاقہ) اور بھرشٹاچار(بدعنوانی) مکت بھارت ۔ اب اس کی عملی تفسیر لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ بہار کے اندر جنگل راج کا خوف دلایا جارہا ہے ، اچھے دنوں کی بھوک بڑھائی جارہی ہے اور بدعنوانی کے بل بوتے پر انتخاب جیتنے کی کوشش کی جارہی ہے۔  ملک بھر میں گائے کا خوف دلا کر قتل و غارتگری کا ننگا ناچ جاری ہے، کہیں پاکستان کے نام پر بد معاشی ہورہی ہے تو کہیں دلت سماج پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں ۔  عام لوگوں سے ان کی دال روٹی چھین کر انہیں فاقہ کشی کا شکار کیا جارہا ہے اور  بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ پچھلے ایک ہفتہ میں ملک سے ۶۰۰۰کروڈ روپیہ باہر چلا گیا جس کی تلاش جاری ہے ۔ راجستھان کے ایک ماربل بیوپاری کے پاس کئی ہزار کروڈ نقد ملے نیز ریاستی سرکار نے کوئلہ کے ٹھیکے  منسوخ کرکے بدعنوانی کا الزام بلاواسطہ تسلیم کرلیا۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ زعفرانی دہشت گرد بھئے مکت(بے خوف) ہوگئے ہیں ۔ سرمایہ داروں کواستحصال کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے اور غریب عوام بے بس و لاچار ہیں۔ قوم کا نام نہاد چوکیدار چادر تان کرکمبھ کرن کی نیند  سو رہا ہے ۔
وزیراعظم کے دادری والے بیان پر دی ہندو نے جو کارٹون بنایا وہ درسی کتاب میں پڑھائی جانے والی پنوکیو کی کہانی کی علامت پر ہے۔ پنوکیو جب بھی جھوٹ بولتا تھا اس کی ناک لمبی ہو جاتی تھی ۔ سریندر نےدیو ہیکل مودی جی کی ناک کی جگہ پیمائش کی پٹی لگا دی جو ۵۵ انچ لمبی ہو چکی ہے ۔ اس  کے سامنے ننھے امیت شاہ کو ایک سیڑھی پر کھڑا کردیا اوراس کے ہاتھ میں محدب عدسہ ہے تھما دیا جسے وہ پٹی کے آگے رکھ کر کہتا ہے کہ دیکھو اس پر صاف لکھا ہے کہ وزیراعظم نے دادری کے سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے جب کہ ناک پر ایسا کچھ بھی نہیں لکھا۔ خلیل جبران کا مشہور فقرہ امیت شاہ پر صادق آتا ہے کہ  ’’میں جھوٹ نہیں بولتا، سوائے اس ایک جھوٹ کے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا‘‘۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جب انسان پہلے پہل جھوٹ بولتا ہے تو اسے مشکل ہوتی  ہے اس کے بعد ہچکچاہٹ ہوتی پھر ندامت و پشیمانی کا احساس بھی ختم ہوجاتا ہے اور انسان اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولنے لگتا ہے لیکن یہ سب عام لوگوں کے ساتھ ہوتا ہوگا ہمارےسیاستدان تو پہلی  ہی جست میں چاروں مراحل طے کر لیتے ہیں ۔        
دادری کی آگ کے ہماچل پردیش تک پہنچ جانے کی بنیادی وجہ  یہی ہے قاتلوں کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ جموں کے زاہد کا قتل اسی سازش کا حصہ ہے ۔ مودی جی نے دادری کے متعلق تو یہ کہہ دیا کہ اس کا مرکز سے کوئی واسطہ نہیں ہےیہ ریاستی سرکار کا مسئلہ ہے  لیکن دہلی کی پولس تو مرکزی حکومت کے تحت ہے یہاں ایک ہی دن میں دو معصوم بچیوں کی عصمت دری اور قتل ہوگیا اس کیلئے کیا  وہ اروند کیجریوال  کوذمہ دارٹھہرائیں گے؟  ابھی ان اندوہناک  سانحات کی گرد بیٹھی بھی نہیں تھی  راجدھانی دہلی کےقریب فرید آباد میں رات ۳ بجے ایک دلت خاندان کی جھونپڑی کے آس پاس تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی ۔ اس حملے سے گھر کے مالک میاں بیوی تو کسی طرح  جھلس کربچ نکلے مگر دو معصوم بچے زندہ نذرِ آتش ہوگئے۔
 فریدآباد اتفاق سےبی جے پی منوہر لال کھٹرّ کے ہریانہ میں آتا ہے۔اب کھٹر کی ہمت نہیں ہے کہ وہ فریدآباد کے ٹھاکروں سے کہے کہ تم لوگ شہر میں رہ تو سکتے ہو لیکن تمہاری جگہ گھر پر نہیں جیل میں ہے جہاں سے پھانسی کا پھنداتمہارا منتظرہے۔ ملک کا وزیرداخلہ خود ٹھاکر ہیں وہ نہ تو دادری کے ٹھاکروں کا کچھ بگاڑ سکے اورنہ فرید آباد کے ٹھاکروں پر کوئی اقدام کرسکے۔  دادری سے لے کر فرید آباد تک وزیرداخلہ کا کام صرف رپورٹیں وصول کرکے انہیں فائل میں لگانا ہے ۔ اس لئے ظالموں کا تعلق  ان کی اپنی برادری سے ہے۔ ابھی تو خیر راج ناتھ وزیراعظم نہیں بنے  تو ٹھاکروں کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے ہیں کل کو اگر ایسا انرتھ ہوجائے تب تو ملک بالکل اناتھ ہوجائیگا۔
ویسے وزیراعظم کی حوصلہ مندی نے بہتوں کے حوصلے بلند کردئیے ہیں ۔ شیوسینا تو بالکل آپے سے باہر ہوگئی ہے۔ غلام علی سے شروع ہونے والا سلسلہ سدھیندر کلکرنی سے ہوتا ہوا ششانک جوشی تک پہنچ گیا ۔ جیٹلی جی نے شیوسینا کو بحث و مباحثہ  کے معیار کواونچا کرنے کی مشورہ دیا ہے۔ جو گفت و شنید میں یقین رکھتا  ہواس سے تو اس طرح کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن جو برسرِ عمل ہو اس پر قابو پانے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے۔  جیٹلی جی کو   چاہئے کہ وہ شیوسینا سے کہیں کہ  بھائی ان ہنگاموں کے بجائے اپنی توانائی کا مثبت استعمال کیجئے اور ایک کرکٹ ٹیم بنائیے جو پچ کھودنے یا بی سی سی آئی کے دفتر پر حملہ کرنے بجائے میدان میں اتر کر کھیل دکھائے۔ اس لئے  کہ فی الحال جنوبی افریقہ نے ہندوستانی ٹیم کا برا حال کررکھا ہے۔ ٹی ۲۰ کے دو میچ وہ لوگ جیت گئے تیسرا بارش کی نذر ہوگیا ورنہ آسمان کے بجائے کولکاتا کے شائقین آنسو بہاتے۔ ون ڈے  سیریز کے پانچ میچ بالکل بہار کے پانچ مراحل میں پولنگ کی طرح ہیں ۔ پہلا میچ بھارت ہار گیا تو دوسرے میں زور لگا کر اسے جیت لیا لیکن تیسرے میں پھر شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ پہلے میچ میں شکست کی وجہ دھونی کا دھنائی کرنے کے بجائے آخرمیں اچانک آوٹ  ہوجانا تھا اور تیسرے میں گھبرائے ہوئے دھونی کی موجودگی میں ۳۰ سے ۴۰ اوور کے دوران ٹیم کا صرف ۳۸ رن بنانا ۔ بہار میں بی جے پی کے کپتان کا بھی یہی حال ہے کبھی وہ اچانک آوٹ ہوجاتا ہے تو کبھی ڈھیلا پڑ جاتا ہے ۔ دھونی نے تو خیر پچ کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنی جان چھڑا لی دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی کس کو بلی کا بکرا بناتے ہیں۔
تیسرا میچ راجکوٹ کے اندر کھیلا گیا جہاں ادھو ٹھاکرے کے بجائے ہاردک پٹیل ہنگامہ مچائے ہوئے تھا۔ ہاردک سے بی جے پی اس قدر خوفزدہ تھی کہ وزیراعلیٰ نے  میدان میں جاکر کھیل دیکھنے کا ارادہ ترک کردیا۔ڈیجیٹل انقلاب کے معمار مودی جی کی راج کوٹ میں  ایسا شگاف پڑا کہ  انٹر نیٹ کی سروس میچ کے پہلے دن رات دس بجے سے اگلے دن صبح ۶ بجےتک کیلئے بند کردی گئی۔ ہاردک کو گرفتار کرلیا گیا ۔ اس پر پرچم کی توہین اور بغاوت کے الزامات لگائے گئے حالانکہ قومی پرچم  کی توہین تو وزیر اعظم سے بھی امریکہ میں سرزد ہوچکی ہے جب انہوں نے باورچی وکاس  کو دئیے جانے والے جھنڈے پر دستخط فرما دئیے تاکہ وہ اسے اوبامہ کو وہ تحفہ میں پیش کرسکے۔ اول تو پرچم پر دستخط کرنا غلط تھا اور دوسرے باورچی کے ذریعہ اسے اوبامہ تک پہنچانا یہ منطق تو شاید اس بل گیٹس کی سمجھ میں نہیں آئی ہوگی جومودی  جی بہت بڑے مداح ہیں۔
جہاں تک کہ بغاوت کے مقدمے کا سوال ہے وہ تو اتر پردیش کی ایک نچلی عدالت میں وزیرخزانہ ارون جیٹلی کے خلاف بھی قائم ہوگیا ہے۔  دراصل ہوا یہ کہ جب سپریم کورٹ نے نئی حکومت کے وضع کردہ  ججوں کی تقرری کےقومی کمیشن کو غیر دستوری قرار دے کر مسترد کردیا تو وزیر خزانہ جو ماہر قانون سمجھے جاتے ہیں نے اپنے نادرِ روزگار خیالات کا اظہار کرتے ہوئے  بلاگ میں لکھا کہ  غیر منتخب شدہ اداروں کا ظلم نہیں برداشت کیا جائیگا۔ یعنی منتخب شدہ  نمائندوں کی زیادتی تو قابل برداشت ہے لیکن یہ غیر منتخبہ لوگ ظلم و جبرکے حقدار نہیں ہیں۔ یہ بیان اگر کوئی چائے والا دیتا تو اسے لاعلمی پر موقوف کرکے نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ارون جیٹلی جیسے عدالتِ عالیہ کے معروف وکیل  نے دستور کی وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے محترم دستوری ادارے کو ظالم قرار دے دیا۔  اتر پردیش کے مہوبہ ضلع  کی عدالت کے جج انکت گوئل نے اس بیان کو قوم دشمن قرار دیتے ہوئے وزیرخزانہ کو ۱۹ نومبر کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ جیٹلی  جی کا اگر یہ اخباری  بیان ہوتا تو اس سے مکر جانا بہت آسان تھا ، یہ کہہ دینا کہ ان کی بات کوتوڑ مروڈ کر پیش کیا  گیا  سیاستدانوں کا روزمرہ کا  معمول بن گیا ہے ۔ مگریہ تو ان کے اپنے بلاگ پر لکھا ہوا ان کا اپنا مضمون ہے جس کی ذمہ داری کسی اور پر ڈالنا ناممکن ہے ۔
 ہاردک پٹیل تو خیر سیاسی دباو بنا کر سارے الزامات سے چھوٹ جائیگا لیکن  اگر گبرّ کےلہجے میں پوچھیں کہ ’’اب تیرا کیا ہوگا جیٹلی‘‘ تو اس کا کیا جواب ہوگا؟  سوم ، ساکشی، کھٹر ، ادھو اور ہاردک جیسے سنپولوں سے تو مودی جی کسی طرح نمٹ لیتے تھے لیکن اب دیکھنا یہ ہے جیٹلی جیسے اژدھے کے ساتھ وہ کیا معاملہ کرتے ہیں۔  گردشِ زمانہ کو دیکھئے کہ پچھلے سال مودی جی  جب بھی پانسہ پھینکتے تھےسامنے ایک سیڑھی نظر آتی تھی جس پر چڑھتے ہی ان کی چھاتی ایک انچ پھول جاتی تھی۔ آج کل یہ حال ہے ہر قدم پر ایک سانپ دکھائی دیتا ہے  اور جب وہ اس کا سر کچلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی ناک لمبی ہوجاتی ہے۔  ایسے میں راحت کا وہ مصرع یاد آتا ہے ’’جو آج صاحبِ منصب ہیں کل نہیں ہوں گے‘‘۔ اس  روشن حقیقت پر زمانے کی گواہی کافی ہےلیکن اس وقت تک کتنی تاریکی پھیل چکی ہو گی کوئی نہیں جانتا۔      

No comments:

Post a Comment