Friday 30 October 2015

پنجاب کی معیشت میں سیاست کی آگ

اس سال سنگھ پریوار کو دیوالی کا خصوصی تحفہ سکھوں کی جانب سے موصول ہوا۔ سنگھ  کے بقول ہندووں کی تلوار سکھ سماج کی جانب سے ایک  حیرت انگیز اعلان سامنے آیا بدقسمتی سے جسےنظر اندازکردیا گیا۔ چندی گڑھ سے شائع ہونے والے دی ٹریبون کے مطابق  شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی نے اس سال گولڈن ٹیمپل اور دوسرے گردواروں میں دیوالی کا تہوار سادگی کے ساتھ منانے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی کے صدر اوتار سنگھ مکرّ نے اعلان کیا کہ اس سال ہرمندر صاحب میں حسبِ روایت  چراغان نہیں کیا جائیگا اور آتش بازی بھی نہیں ہوگی بلکہ صرف مٹی کے دئیے جلائے جائیں گے۔ عام طور پر طلائی مندر میں دیوالی کا تہوار بڑے زور شور سے منایا جاتا تھا اور نہ صرف مندر کی سجاوٹ اورروشنی بلکہ آتش بازی بھی قابلِ دید ہوتی تھی ۔ ۱۲ اکتوبر کو فرید کوٹ کے برگادی گاوں میں ہونے والی گرو کرنتھ صاحب کی بے حرمتی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔اس مذموم حرکت کے خلاف مظاہروں میں دو سکھ نوجوان پولس کی گولی سے  ہلاک ہوئے اور اس کے بعد سارے پنجاب میں احتجاج  کے شعلے جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئے  ۔
حالیہ تنازعہ کی ابتداء ماہِ جون  میں برگ جواہر گردوارہ سے گرو گرنتھ صاحب کی چوری سے ہوئی۔  سکھ قوم گرو گرنتھ صاحب کونہ صرف مقدس صحیفہ بلکہ زندہ گرو مانتے ہیں ۔ اس اہانت کے خلاف شکایت پر پولس نے توجہ نہیں دی یہاں تک کہ  کسی نامعلوم فرد  کی ایک تحریر منظر عام پر آگئی ۔ اس میں دعویٰ کیا گیا تھا مسروقہ صحیفہ اس کے پاس ہے۔ اس کے خاتمہ پر ’’دھن دھن ست گرو‘‘ بھی درج تھا ۔ یہ دراصل ڈیرا سچا سودہ  پنتھ کےماننے والوں کا نعرہ ہے۔یہ الزام بھی ہے کہ تحریر  میں سکھ سماج اور ان کے مذہبی پیشواوں کے خلاف برا بھلا لکھا ہوا تھا ۔ ان حالات کے باوجودماہِ   ستمبر میں اکال تخت کے سب سے بڑے گرنتھی نے ڈیرہ سچا سودہ کے سربراہ گرمیت رام رحیم کی معافی کا اعلان کرکے  ساری دنیا کو چونکا دیا ۔  
گرمیت رام رحیم نے ؁۲۰۰۷ میں گرو گوبند سنگھ سے مشابہ  لباس زیب تن  کرلیا تھا جسے سکھوں نے مذہبی تو ہین  قرار دیا اور اس کے خلاف برسرِ جنگ ہوگئے۔  گردوارہ پربندھک کمیٹی چونکہ شرومنی  اکالی دل کے قبضے میں ہے اس  لئے اس کے فیصلے کو پرکاش سنگھ بادل سے جوڑ دیا گیا  اورعوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ  اکالی دل نے ؁۲۰۱۷ کے ریاستی انتخابات کے پیش نظر ڈیرہ سچا سودہ کے ماننے والوں کو رجھانے کیلئے یہ فیصلہ کروایا ہے۔ اس متنازعہ فیصلے سے سکھوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے  اور وزیراعلیٰ  پرکاش سنگھ بادل کی ہوا خراب خراب ہوگئی ۔ بی جے پی چونکہ عرصۂ دراز سے اکالی دل کی حلیف بنی ہوئی ہے اس لئے لازماً سکھ اس سے بھی ناراض ہوگئے ۔
مذہب اور سیاست کی اس  رسہ کشی کے دوران  اکتوبر کے اندر کسانوں نے ریل روکو تحریک شروع کردی۔ اس سال ٹڈی دل حملوں کے سبب فصلیں تباہ ہوئی ہیں جس کے سبب پنجاب جیسے خوشحال علاقہ کے کسان بھی خودکشی پر مجبور ہوئے ہیں مگر حکومت نے ان کی جانب توجہ نہیں دی ۔ کسانوں کی تحریک کے رہنماوں کا مطالبہ ہے کہ خودکشی کرنے والوں  کے اہل خانہ کو ۵ لاکھ روپیہ معاوضہ دیا جائے۔ ریل گاڑیوں کے روکے جانے سے عوام کو ہونے والی پریشانی کے خاتمہ سے قبل ۱۲ اکتوبر برگادی گاوں میں گرو گرنتھ صاحب کے پھٹے ہوئے صفحات ملے جس سے متعلق شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر اوتار سنگھ مکرّ نے دعویٰ کردیا کہ وہ مسروقہ صحیفے کے ہیں۔ اس خبر نے سکھوں کے اندر زبردست بے چینی پیدا کردی اور سمرنجیت سنگھ مان کی قیادت میں اکالی دل (امرتسر) و سکھ سنگھرش کمیٹی نے بند کا اعلان کردیا ۔
ان ریاست گیر  مظاہروں کے تحت کوٹکاپورہ اور بہبل کلاں میں بھی عوام نے پرامن احتجاج کیا ۔ پنتھ پریت سنگھ اور رنجیت سنگھ کی قیادت میں حکومت سے مطالبہ کیا  گیاکہ وہ پولس کی مدد سے گروگرنتھ صاحب کو چرانے والوں کا پتہ لگائے اور اہانت کرنے والوں کو سزا دلائے۔  ان مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے نہ صرف آنسو گیس  اور لاٹھی  کا استعمال کیا  گیا بلکہ گولی بھی چلی جس میں ۸۰ زخمی اور دونوجوان ہلاک ہوگئے۔  حالات جب قابو سے باہر ہونے لگے تو سرکار کو ہوش آیا۔ نائب وزیراعلیٰ سکھبیر سنگھ بادل نے پولس کو حکم دیا کہ وہ مظاہرین کے خلاف درج شدہ سارے مقدمات واپس لے۔ اہانت اور اس کے بعد رونماہونےوالے واقعات کی تحقیقات کیلئے ہائی کورٹ کے ایک جج کا تقرر کیا گیاتاکہ مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جائے۔مذہبی صحیفے کے چورکو گرفتار کرنے میں مدد کرنے والی خبر دینے والے کیلئے ایک کروڈ کے انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔
ان اعلانات کے بعد عوام کے غم و غصے کو کم کرنے کی خاطربیر گاوں میں روپندر سنگھ اور جسوندر سنگھ نامی دو نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا لیکن ان کے متعلق یہ انکشاف ہوا کہ وہ امرت دھاری مذہبی سکھ ہیں ۔ ان کی گرفتاری کے خلاف ۱۵ مذہبی رہنماوں کی قیادت میں ۳۰۰۰ سکھوں نے مظاہرہ کیا اور پولس پر الزام  لگایا کہ اس کی جانب سے گھڑی جانے والی بدیسی ہاتھ کی کہانی جھوٹی ہےاور موگا کے  بے قصورنوجوانوں کو بلی کا بکرہ بنایا گیاہے۔ مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر ملوندر سنگھ جگیّ کو میمورنڈم دے کر گرفتار شدگان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ نوجوانوں کی گرفتاری اور موت  کے خلاف ہونے والے مظاہروں نےموگا ، فریدکوٹ ، فیروز پور، مکتسر ، بھٹنڈا،جالندھر، ترن تارن ، امرتسراور دیگر ا ضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔  یہ ناراضگی نہ صرف پولس بلکہ برسرِ اقتدار اکالی دل اور بی جے پی کے خلاف بھی تھی ۔ موگا کے سابق کاونسلر  سکھوندر سنگھ آزاد نےان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئےکہا کہ ان سارے مسائل کا بنیادی سبب سکھ مذہبی اداروں پر اکالیوں کا تسلط ہے ۔ وہ شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کی مدد سے اپنے سیاسی مفادات حاصل کررہے ہیں ۔ آزاد کے خیالات کی تصدیق اس دوران کئے جانے والے اکال تخت کے مختلف فیصلوں سے ہوتی ہے۔
۲۴ ستمبر کوجس طرح اکال تخت نے  اچانک گرومیت رام رحیم کو معاف کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا تھا اسی طرح۱۷ اکتوبر کو اس نے اپنا فیصلہ واپس لے کر سب کو حیرت زدہ کردیا۔ اس تبدیلی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ پنتھ کے اندر اس پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ۔ عوام نے اس فیصلے کو احتجاج کے دباو میں کیا جانے والا ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا ۔ اگر پرکاش سنگھ بادل کے ہاتھوں میں اکالی دل کے ساتھ ساتھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی اور اکال تخت کی باگ ڈور نہیں ہوتی تو یہ خیال کسی کو  نہیں آتا مگر قوت کا ارتکاز  عوام کو بجا طور پر ان خطوط  سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔  اس دوران پنج پیارا کے ذریعہ  پانچ تخت کے جتھیداروں کو برخواست کرنے کے فیصلہ کیا گیااور ان کے سارے حقوق سلب کرلینے کا مطالبہ کیا گیا۔اکال تخت کے جتھیداروں نے پنج پیارا کے اس حق کو چیلنج کردیا۔
 پرکاش سنگھ بادل کے کٹھ پتلی پربندھک کمیٹی کے صدر اوتار سنگھ مکرّ نے جب  پنج پیاراکے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تو رامن دیپ نامی ملازم نے اپنا استعفیٰ ان کے منھ پر دے مارا بعد میں اسے مسترد کرنے کے بعد رمن دیپ کو نکال دیا گیا اور آگے چل کر پھر بحال  بھی کردیا  گیا۔ مکر ّنے اپنی مخالفت کے خوف سے ایس جی پی سی کی انتظامیہ کی نشست منسوخ کردی  اور پنج پیارا کو معطل کردیا۔  بعد میں جب پربندھک کمیٹی کا اجلاس ہوا تو اس نے مکرّ کی حمایت نہیں کی ۔ اس انتشار و ہنگامےسے عوام کومزید بے چین کردیا اور مختلف گرودواروں میں اکالی رہنماوں کی مخالفت شروع ہو گئی۔ کپورتھلہ گرودوارے میں اکھنڈ پاٹھ کے درمیان سے  کئی معمر اکالی رہنماوں کو جان بچا کر بھاگنا پڑا۔  اس طرح کے واقعات دیگر مقامات پر دیکھنے کو ملے۔  
ان ہنگاموں کے سبب کسانوں کی تحریک پس منظر میں چلی گئی۔  کسانوں کی تحریک بھارتیہ کسان یونین  فی الحال دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ اس کے ایک دھڑے بی کے یو (اوگھرا) کے جنرل سکریٹری سکھدیو سنگھ کھوکرنے اس کی سیدھی ذمہ دار ی حکومت پر ڈال دی ۔ ان کے مطابق مذہبی صحیفے کی اہانت  ریاستی حکومت کی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے اور اس کا مقصد پنجاب کے بنیادی مسائل کی جانب سے توجہ ہٹانا ہے۔  بی کے یو(داکنڈا) کے جنرل سکریٹری جگموہن سنگھ اس  دعویٰ سے اتفاق تو نہیں کرتے   کہ اہانت کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے  لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ پنجاب سرکار سست رو ہے۔ وہ مسائل کو حل کرنے میں بہت وقت لگاتی ہے۔ اس واقعہ نے نوجوانوں کی توانائی کو تقسیم کیا ہے اور ان کے احتجاج سے مجبور ہوکر حکومت نے جو اقدامات کئےوہ بہت پہلےکئے جانے چاہئے تھے۔ کسانوں کو حکومت کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی خاطر ایک ہفتہ ریلوے لائن پر احتجاج کرنا پڑا۔   جگموہن کے مطابق ریاستی حکومت اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس کاغیر ذمہ دارانہ  رویہ خطرناک اور قابلِ مذمت ہے۔
حکومت کی جانب سے عدم توجہی نہ  صرف ریاستی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی نظر آتی ہے۔ ہر مسئلے کو ابتدائی مرحلے میں سلجھانے کے بجائے پہلے اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جب پانی سر سے اونچا ہونے لگے تو سرکار کےکان پر جوں رینگتی ہے  اور اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔ وزیراعظم کو تو خیر انتخابی مہم اور غیر ملکی دوروں یا غیر ملکی مہمانوں کی خاطر مدارات سے فرصت نہیں ہے مگر وزیرخزانہ ارون جیٹلی کو ان معاملات میں دلچسپی لینی چاہئے تھی۔ انہوں نے  امرتسر سے انتخاب لڑا تھا (گوکہ  ہار گئے ) اس لئے ان کو ان سلگتے ہوئے مسائل کو سلجھانے کی کوشش ان کی ذمہ داری تھی لیکن فی الحال بی جے پی کے اعصاب  پر بہار سوار ہے اس لئے جیٹلی چندی گڑھ کے بجائے پٹنہ پہنچ گئے ۔ بہار جہاں فی الحال مودی جی دال نہیں گل رہی ہے وہاں بھلا جیٹلی جی کیا کرتے ۔ ایک پریس کانفرنس  میں دال بھات پر چرچا کرنےکے بعداپنی کامیابی کا پرفریب اعلان  کرکےوہ لوٹ آئے۔
پنجاب کے لوگ زراعت کے سبب ویسےتو خوشحال ہیں اس کے باوجود اپنے معیار زندگی کو مزید بہتر بنانے کی شدید خواہش نے انہیں دنیا بھر میں پھیلا دیا ہے ۔ پنجاب  کی یہ آگ  اب ہندوستان کی حدود سے نکل کر دیگر ممالک تک پہنچ گئی ہے ۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں سکھوں نے اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کیلئے مظاہرے کئے۔ بر طانیہ میں سکھوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے ۔ وہاں بھی ایک  بڑا احتجاج ہوا جس میں ہندوستانی سفارتخانے کے باہر سیکڑوں سکھوں نے مظاہرہ کیا ۔ یہ پرامن احتجاج آگے چل کر مشتعل ہوگیا جس کے بعد پولس نے سفارتخانے کی گھیرا بندی کردی اور ۲۰ مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ احتجاج کے منتظم جسویر سنگھ نے بتایا یہ مظاہرہ  پنجاب کے اندر رہنے والے بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار اور ان پر ہونے والے پولس  کےمظالم سے متعلق عوامی بیداری کیلئے کیا گیا تھا ۔
 وزیراعظم ۱۲ نومبر کو ترکی جاتے ہوئے برطانیہ کا دورہ کرنے والے ہیں ۔اس سے قبل ۷ نومبر کو ان  کاسرینگر دورہ متوقع ہے ۔ اگر وہ امرتسر کے اوپر سے آتے جاتے ہوئے وہاں اتر کر سکھ رہنماوں سے بھی اس خلفشار پر گفتگو کرلیں تو اچھا ہے ورنہ   برطانیہ میں انہیں سکھوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ویسے برطانوی حزب اختلاف کےلیبر رہنما جیرمی کاربن کی قیادت میں ۳۹ارکان پارلیمان نے ایوان کے اندر ایک تجویز پیش کی تاکہ اپنے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پر ہندوستان کے اندر حقوق انسانی کی پامالی پر گفتگو کرنے کیلئے دباو بنا سکیں ۔ بی بی سی کے ذریعہ بنائی گئی  دہلی عصمت دری کے واقعہ پر دستاویزی فلم پر پابندی  ، گرین پیس کیلئے کام کرنے والی پریا پلائی کی برطانیہ میں داخلے پر پابندی، ارم شرمیلا کی بھوک ہڑتال اور ایمنسٹی کےذریعہ اٹھائے گئے کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی   کا اس موشن میں ذکر ہے ۔  تعجب کی بات ہے کہ  جن مسائل کوملک کے اندر نظر انداز کیا جاتا ہے ان کی جانب برطانوی ارکان پارلیمان نے توجہ مبذول کرائی ہے۔
  وزیراعظم کو  یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا بھر میں تقاریر سے جو ساکھ قائم ہوتی ہے وہ ایک بہیمانہ تشدد کے واقعہ سے ملیامیٹ ہوجاتی ہے۔ بیرونی سرمایہ کار بھی امن و امان کے بغیر یہاں آنے کی غلطی نہیں کرسکتے۔ ٹیسلا موٹرس کی مثال سامنے ہے ۔ مودی جی کے امریکہ میں ان کے کارخانے میں دورے کے باوجود انہوں نے ہندوستان کے بجائے چین جانے کا فیصلہ کیا۔  اس واقعہ میں ان لوگوں کیلئے عبرت کا  سامان ہے جو اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔  پنجاب ایک آتش فشاں کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ میں عوام کےاندر پائی جانے والی بے چینی اور تناو میں بتدریج اضافہ ہوا  ہے لیکن چونکہ ذرائع ابلاغ پربہار کا بھوت سوار ہے اس لئے کوئی دوسری جانب مڑ کر دیکھنے کا روادار نہیں ہے ۔  احتجاج و تشدد کی اکا ّ دکا ّ خبریں ضرور شائع ہوتی ہیں لیکن اس کا حل تو درکنارلوگ اس کی وجوہات کا تجزیہ کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ بہار میں متوقع جنگل راج پر تو بہت کچھ بولا اور لکھا جاتا ہے لیکن پنجاب میں پھلنے پھولنے والے جنگل راج کی کوئی بات نہیں کرتا ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں انتخابات ڈیڑھ سال بعد ہیں ۔ ملک کے سیاستدانوں کو کسی صوبے میں اسی وقت دلچسپی پیدا ہوتی ہے جب وہاں انتخابات ہونے والے ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ کسی کو اپنا اقتدار بچانا  کی فکر لاحق ہوجاتی ہے تو کوئی اس کے حصول کی خاطر سرگرمِ عمل ہوجاتا ہے۔
 ذرائع ابلاغ کا کام ان سیاستدانوں کے پیچھے کیمرے اور مائک لے کر دوڑنا ہے۔ ان کے اوٹ پٹانگ  بیانات کو شائع کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا ہے ۔ اس لئے کہ ایساکرنے سےان کےدونوں ہاتھوںمیں لڈوہوتا ہے۔سیاسی جماعتیں اس کا بھرپور معاوضہ دیتی ہیں  اورعوام کی پذیرائی  سے ٹی آر پی بھی بڑھتی ہے جس سے خوب اشتہارات ملتے ہیں ۔یہ قومی صحافت کا صارفیت کی بھینٹ چڑھ جانا اورذرائع ابلاغ کا تجارت میں بدل جاناہے کہ اس کی دلچسپی عوامی مسائل  سے ہٹ کر سیاستدانوں اور سرمایہ کاروں کی   رہین منت ہوجائے۔ گوکہ ہمارا ذرائع ابلاغ اس سے صرف نظر کررہا ہے مگر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آگ کو بھڑکنے  کیلئے ایندھن ، ہوا اور چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے۔پنجاب کی آگ میں معاشی مسائل  کی ایندھن  کاکام کررہے ہیں ۔  سیاستداں اس کوانتخابی مفاد کی  چنگاری دکھا کر مذہبی جذبات سے ہوا دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پنجاب ایک سرحدی ریاست ہے اور وہاں خالصتان کی تحریک چل چکی ہے۔ سکھ ایک خوددار قوم  ہے اور اس قومی تلوارکے ساتھ  سے کیا جانے والا کھلواڑ سنگین نتائج کا موجب بن سکتا ہے۔

Thursday 22 October 2015

سیاسی بساط پر سانپ سیڑھی کا کھیل

سیاست کی بساط ایک زمانے میں شطرنج کی بازی  ہواکرتی تھی ۔ دونوں فریق ہاتھی ، گھوڑے ،فوج سمت  ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے۔ شئے دی جاتی مات ہوجاتی اور اقتدار بدل جاتا ۔یہ اس دور کی بات ہے جب سیاست اصول و ضوابط کی پابند تھی۔ ہاتھی ، گھوڑے اور فوج تو درکنار بادشاہ کی چال بھی متعینہ حدود کا پاس و لحاظ کرتی تھی لیکن آگے چل کر یہ سانپ سیڑھی کا کھیل بن گئی۔ جس میں اچانک کسی کو سیڑھی ملتی ہے تووہ شہریت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے  پھر جب سانپ کاٹتا ہے تو  دھڑام سےگمنامی کی کھائی میں گرجاتا ہے ۔ ایسا  نہ صرف جمہوری نظام ہی میں ہوتا  ہےبلکہ آمریت اور ملوکیت میں ہوتا رہتا ہے جس کی بے شمار مثالیں جابجا پھیلی ہوئی ہیں ۔
سعودی عرب میں دو ولیعہد اس لئے بادشاہت سے محروم رہے کہ باری آنے سے قبل  ان کا انتقال ہو گیا اور ملک سلمان کی لاٹری لگ گئی ۔ ان کے بھائی اور متوقع  ولیعہدمقرن کو سانپ نے ڈس لیا اور بھتیجے محمد بن نائف کو سیڑھی مل گئی۔ مصر میں جمال عبدلناصر کو اسرائیل سے شکست کے صدمے سے جاں بحق ہوگئے تو انور سادات کی لاٹری لگ گئی ۔ انور سادات کو گولی لگی تو حسنی مبارک کو سیڑھی مل گئی ۔ عوامی بغاوت کا سانپ جب نامبارک  اقتدارکو نگل لیا توجنرل اشفاق نے سیڑھی چڑھنے کی  کوشش کی  مگر ناکام رہے ۔ ڈاکٹرمحمدمورسی کے اقتدار پر مغرب نے سازشی سانپ چھوڑ دئیے اور السیسی کو سیڑھی تھما کر اقتدار پر فائز کردیا۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو کوپرویز مشرف کے ناگ نے ڈس لیا مگر زرداری کو سیڑھی مل گئی اور وہ پورے پانچ سال تک  صدار تی محل میں دادِ عیش دیتے رہے ۔  
ہندوستانی سیاست تو اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ شاستری جی کی ناگہانی موت سے گونگی گڑیا اندراجی کی قسمت کا ستارہ چمک گیا ۔ سونیا گاندھی کے اقتدار سنبھالنے کا وقت آیا تو اطالوی نسل کے سانپ نے انہیں ڈس لیا اور اسی کے ساتھ نرسمھا راو کو سیڑھی مل گئی۔ ان کے بعدوی پی سنگھ کو ان کے ضمیر نے روک دیا اور جیوتی باسو کو پارٹی کے سانپ نے ڈس لیا جس کے سبب دیوے گوڑا جیسے گمنام آدمی کی لاٹری لگ گئی اور وہ وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ اڈوانی جی کو قائد اعظم پر تبصرہ لے ڈوبا تو مودی جی کی وارے نیارے ہوگئے اوریہ ابھی پچھلے سال کی بات ہے کہ  دیکھتے دیکھتےان کا سورج  اقتدار کے فلک پر جگمگانے لگا  لیکن آج کل وہ بے شمار زعفرانی سنپولوں  کے درمیان پھڑ پھڑا رہے ہیں ۔ دہلی کی شکست کا کلنک مٹانے کیلئے بہار گئے تو وہاں بھی دال نہیں گلی ۔ ویسے اگر دال کا بھاؤگوشت سے زیادہ ہو جائے تو وہ گلے بھی کیسے؟
آج کل مودی جی کا یہ حال ہے کہ اس سے قبل وہ پہلے سنپولے کا گلا دبانے میں کامیابی حاصل دونئے ناگ دیوتا ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔  سنگیت سوم کو پھٹکارہ توساکشی مہاراج پھنکارنے لگے ۔ امیت شاہ نے ساکشی کودفتر میں بلا کر ڈانٹا تو کھٹر نے کہہ دیا ’’مسلمان ملک میں رہ سکتے ہیں مگر انہیں بیف کھانا چھوڑنا پڑے گا‘‘۔کھٹر کی دھمکی کے ساتھ ہی راحت اندوری کی غزل ’’کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘‘ پھر سے زندہ ہوگئی۔  خیر امیت شاہ نے منوہر لال  کھٹر کو تو فون پر جتا دیا کہ تو ’’ کرائے دار ہے مالک مکان تھوڑی ہے‘‘ اور منوہر لال نے معذرت بھی پیش کردی کہ میں تو گزارش کررہا تھا میں کوئی حکم تھوڑی نا لگا رہا تھا  لیکن برا ہو آر ایس ایس کا کہ اس کے ترجمان پانجنیہ میں ایک مضمون شائع ہوگیا جس میں کہا گیا تھا کہ ویدوں کے مطابق گائے کاٹنے والے کا قتل جائز ہے۔
بی جے پی والوں نےجب سنگھ کو سمجھایا گیا تو اس نے عجیب و غریب صفائی دی ۔ ایک  ترجمان نے کہا کسی مضمون نگار کے خیالات سے جریدے کا اتفاق ضروری نہیں ہے  لیکن دوسرا دوہاتھ آگے نکل گیا اور بولا پانجنیہ سنگھ کا ترجمان ہی نہیں ہے ۔ جو لوگ خود اپنے بارے میں  اس قدر دھڑلےّ سے جھوٹ بولتے ہوں  ان سے دوسروں کی بابت کیا توقع کی جائے۔  اس صورتحال میں مودی جی نے جن غیر ملکی سرمایہ کاروں بڑی مشکل سے میک ان انڈیا کیلئے تیار کیا ہے وہ بڑے تذبذب کا شکار ہیں اس لئے کہ سرزمین ہندپر اگر ان  کے مسابقین میں سے کوئی ان کا کانٹا نکالنا چاہے تو یہ بے حد آسان ہے۔ جب وہ اپنے ہوٹل سے دفتر جارہا ہو تو مخالف کے چند گھنٹے یہ افواہ اڑا دیں گے کہ اس نے ابھی ابھی بیف بر گر کھایا ہے اور پھر اس پر ہلہ ّ بول کر گئو ماتا کے نام پر اس کی بلی چڑھا دی جائے اس لئے کہ ویدوں میں تو یہی لکھا ہے اور فی الحال یہاں پر ویدوں  کی تعلیمات کے مطابق سارا کاروبار چل رہا ہے۔
 لوگ بار باریہ سوال کرتے ہیں  کہ اگر سنگھ پریوار بڑے کے گوشت کا اس قدر مخالف ہے تو وہ  بی جے پی  کی مرکزی حکومت سے بیف کی برآمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ  کیوں نہیں کرتا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ  سنگھ پریوار فی الحال بیف کے تاجروں کا دلال بنا ہوا ہے۔ وہ بیف  کی برآمد کو بڑھانے کیلئے ہی ہندوستان کے اندر اس کے کھانے پر پابندی لگوا رہا ہے۔ ہندوستان میں بڑے جانور کے گوشت کی پیداوار صرف۴۱ لاکھ ٹن ہے یعنی وہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے پانچویں نمبر پر ہے اس کے باوجوداس کی برآمد۲۱ لاکھ ٹن  ہے جودنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جبکہ ہندوستان جیسی آبادی والا ملک چین ہم سے ڈیڑھ گنا زیادہ  ۶۹ لاکھ ٹن بیف تیار کرنے کے باوجود۷۳ لاکھ ٹن درآمد کرتا ہے۔ اب اگر ہندوستان  اپنااول نمبر کا مقام برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اس لئے لازم ہے کہ  اندرونِ ملک اس کی کھپت گھٹائی جائے ۔ اس لئے کہ بیف کی پیدواوار کومزید بڑھانا ناممکن ہے۔یہی وجہ ہے کہ  بیف مخالف بھگوا دھاری سرمایہ داروں کے دلال چاہتے ہیں کہ سارےکا سارا۴۲ لاکھ ٹن بڑے جانور کا گوشت پردیس بھیج کر اپنی تجوری بھر لی جائے ۔ اِدھر بیف برآمد کرنے والے عوام کا گلا گھونٹ رہے ہیں اُ دھر دال درآمد کرنے والےعوام کو لوٹ رہے ہیں ۔ لوٹ کھسوٹ کی اس چکی میں عام لوگوں کے ساتھ مودی سرکار بھی گیہوں سمیت گھن کی مانند پسی جارہی ہے جس کا نمونہ ممکن ہے بہار کے اندر دیکھنے کو ملے ۔
ایک زمانے میں بی جے پی کا نعرہ تھا بھئے(خوف) ، بھوک (فاقہ) اور بھرشٹاچار(بدعنوانی) مکت بھارت ۔ اب اس کی عملی تفسیر لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ بہار کے اندر جنگل راج کا خوف دلایا جارہا ہے ، اچھے دنوں کی بھوک بڑھائی جارہی ہے اور بدعنوانی کے بل بوتے پر انتخاب جیتنے کی کوشش کی جارہی ہے۔  ملک بھر میں گائے کا خوف دلا کر قتل و غارتگری کا ننگا ناچ جاری ہے، کہیں پاکستان کے نام پر بد معاشی ہورہی ہے تو کہیں دلت سماج پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں ۔  عام لوگوں سے ان کی دال روٹی چھین کر انہیں فاقہ کشی کا شکار کیا جارہا ہے اور  بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ پچھلے ایک ہفتہ میں ملک سے ۶۰۰۰کروڈ روپیہ باہر چلا گیا جس کی تلاش جاری ہے ۔ راجستھان کے ایک ماربل بیوپاری کے پاس کئی ہزار کروڈ نقد ملے نیز ریاستی سرکار نے کوئلہ کے ٹھیکے  منسوخ کرکے بدعنوانی کا الزام بلاواسطہ تسلیم کرلیا۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ زعفرانی دہشت گرد بھئے مکت(بے خوف) ہوگئے ہیں ۔ سرمایہ داروں کواستحصال کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے اور غریب عوام بے بس و لاچار ہیں۔ قوم کا نام نہاد چوکیدار چادر تان کرکمبھ کرن کی نیند  سو رہا ہے ۔
وزیراعظم کے دادری والے بیان پر دی ہندو نے جو کارٹون بنایا وہ درسی کتاب میں پڑھائی جانے والی پنوکیو کی کہانی کی علامت پر ہے۔ پنوکیو جب بھی جھوٹ بولتا تھا اس کی ناک لمبی ہو جاتی تھی ۔ سریندر نےدیو ہیکل مودی جی کی ناک کی جگہ پیمائش کی پٹی لگا دی جو ۵۵ انچ لمبی ہو چکی ہے ۔ اس  کے سامنے ننھے امیت شاہ کو ایک سیڑھی پر کھڑا کردیا اوراس کے ہاتھ میں محدب عدسہ ہے تھما دیا جسے وہ پٹی کے آگے رکھ کر کہتا ہے کہ دیکھو اس پر صاف لکھا ہے کہ وزیراعظم نے دادری کے سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے جب کہ ناک پر ایسا کچھ بھی نہیں لکھا۔ خلیل جبران کا مشہور فقرہ امیت شاہ پر صادق آتا ہے کہ  ’’میں جھوٹ نہیں بولتا، سوائے اس ایک جھوٹ کے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا‘‘۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جب انسان پہلے پہل جھوٹ بولتا ہے تو اسے مشکل ہوتی  ہے اس کے بعد ہچکچاہٹ ہوتی پھر ندامت و پشیمانی کا احساس بھی ختم ہوجاتا ہے اور انسان اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولنے لگتا ہے لیکن یہ سب عام لوگوں کے ساتھ ہوتا ہوگا ہمارےسیاستدان تو پہلی  ہی جست میں چاروں مراحل طے کر لیتے ہیں ۔        
دادری کی آگ کے ہماچل پردیش تک پہنچ جانے کی بنیادی وجہ  یہی ہے قاتلوں کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ جموں کے زاہد کا قتل اسی سازش کا حصہ ہے ۔ مودی جی نے دادری کے متعلق تو یہ کہہ دیا کہ اس کا مرکز سے کوئی واسطہ نہیں ہےیہ ریاستی سرکار کا مسئلہ ہے  لیکن دہلی کی پولس تو مرکزی حکومت کے تحت ہے یہاں ایک ہی دن میں دو معصوم بچیوں کی عصمت دری اور قتل ہوگیا اس کیلئے کیا  وہ اروند کیجریوال  کوذمہ دارٹھہرائیں گے؟  ابھی ان اندوہناک  سانحات کی گرد بیٹھی بھی نہیں تھی  راجدھانی دہلی کےقریب فرید آباد میں رات ۳ بجے ایک دلت خاندان کی جھونپڑی کے آس پاس تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی ۔ اس حملے سے گھر کے مالک میاں بیوی تو کسی طرح  جھلس کربچ نکلے مگر دو معصوم بچے زندہ نذرِ آتش ہوگئے۔
 فریدآباد اتفاق سےبی جے پی منوہر لال کھٹرّ کے ہریانہ میں آتا ہے۔اب کھٹر کی ہمت نہیں ہے کہ وہ فریدآباد کے ٹھاکروں سے کہے کہ تم لوگ شہر میں رہ تو سکتے ہو لیکن تمہاری جگہ گھر پر نہیں جیل میں ہے جہاں سے پھانسی کا پھنداتمہارا منتظرہے۔ ملک کا وزیرداخلہ خود ٹھاکر ہیں وہ نہ تو دادری کے ٹھاکروں کا کچھ بگاڑ سکے اورنہ فرید آباد کے ٹھاکروں پر کوئی اقدام کرسکے۔  دادری سے لے کر فرید آباد تک وزیرداخلہ کا کام صرف رپورٹیں وصول کرکے انہیں فائل میں لگانا ہے ۔ اس لئے ظالموں کا تعلق  ان کی اپنی برادری سے ہے۔ ابھی تو خیر راج ناتھ وزیراعظم نہیں بنے  تو ٹھاکروں کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے ہیں کل کو اگر ایسا انرتھ ہوجائے تب تو ملک بالکل اناتھ ہوجائیگا۔
ویسے وزیراعظم کی حوصلہ مندی نے بہتوں کے حوصلے بلند کردئیے ہیں ۔ شیوسینا تو بالکل آپے سے باہر ہوگئی ہے۔ غلام علی سے شروع ہونے والا سلسلہ سدھیندر کلکرنی سے ہوتا ہوا ششانک جوشی تک پہنچ گیا ۔ جیٹلی جی نے شیوسینا کو بحث و مباحثہ  کے معیار کواونچا کرنے کی مشورہ دیا ہے۔ جو گفت و شنید میں یقین رکھتا  ہواس سے تو اس طرح کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن جو برسرِ عمل ہو اس پر قابو پانے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے۔  جیٹلی جی کو   چاہئے کہ وہ شیوسینا سے کہیں کہ  بھائی ان ہنگاموں کے بجائے اپنی توانائی کا مثبت استعمال کیجئے اور ایک کرکٹ ٹیم بنائیے جو پچ کھودنے یا بی سی سی آئی کے دفتر پر حملہ کرنے بجائے میدان میں اتر کر کھیل دکھائے۔ اس لئے  کہ فی الحال جنوبی افریقہ نے ہندوستانی ٹیم کا برا حال کررکھا ہے۔ ٹی ۲۰ کے دو میچ وہ لوگ جیت گئے تیسرا بارش کی نذر ہوگیا ورنہ آسمان کے بجائے کولکاتا کے شائقین آنسو بہاتے۔ ون ڈے  سیریز کے پانچ میچ بالکل بہار کے پانچ مراحل میں پولنگ کی طرح ہیں ۔ پہلا میچ بھارت ہار گیا تو دوسرے میں زور لگا کر اسے جیت لیا لیکن تیسرے میں پھر شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ پہلے میچ میں شکست کی وجہ دھونی کا دھنائی کرنے کے بجائے آخرمیں اچانک آوٹ  ہوجانا تھا اور تیسرے میں گھبرائے ہوئے دھونی کی موجودگی میں ۳۰ سے ۴۰ اوور کے دوران ٹیم کا صرف ۳۸ رن بنانا ۔ بہار میں بی جے پی کے کپتان کا بھی یہی حال ہے کبھی وہ اچانک آوٹ ہوجاتا ہے تو کبھی ڈھیلا پڑ جاتا ہے ۔ دھونی نے تو خیر پچ کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنی جان چھڑا لی دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی کس کو بلی کا بکرا بناتے ہیں۔
تیسرا میچ راجکوٹ کے اندر کھیلا گیا جہاں ادھو ٹھاکرے کے بجائے ہاردک پٹیل ہنگامہ مچائے ہوئے تھا۔ ہاردک سے بی جے پی اس قدر خوفزدہ تھی کہ وزیراعلیٰ نے  میدان میں جاکر کھیل دیکھنے کا ارادہ ترک کردیا۔ڈیجیٹل انقلاب کے معمار مودی جی کی راج کوٹ میں  ایسا شگاف پڑا کہ  انٹر نیٹ کی سروس میچ کے پہلے دن رات دس بجے سے اگلے دن صبح ۶ بجےتک کیلئے بند کردی گئی۔ ہاردک کو گرفتار کرلیا گیا ۔ اس پر پرچم کی توہین اور بغاوت کے الزامات لگائے گئے حالانکہ قومی پرچم  کی توہین تو وزیر اعظم سے بھی امریکہ میں سرزد ہوچکی ہے جب انہوں نے باورچی وکاس  کو دئیے جانے والے جھنڈے پر دستخط فرما دئیے تاکہ وہ اسے اوبامہ کو وہ تحفہ میں پیش کرسکے۔ اول تو پرچم پر دستخط کرنا غلط تھا اور دوسرے باورچی کے ذریعہ اسے اوبامہ تک پہنچانا یہ منطق تو شاید اس بل گیٹس کی سمجھ میں نہیں آئی ہوگی جومودی  جی بہت بڑے مداح ہیں۔
جہاں تک کہ بغاوت کے مقدمے کا سوال ہے وہ تو اتر پردیش کی ایک نچلی عدالت میں وزیرخزانہ ارون جیٹلی کے خلاف بھی قائم ہوگیا ہے۔  دراصل ہوا یہ کہ جب سپریم کورٹ نے نئی حکومت کے وضع کردہ  ججوں کی تقرری کےقومی کمیشن کو غیر دستوری قرار دے کر مسترد کردیا تو وزیر خزانہ جو ماہر قانون سمجھے جاتے ہیں نے اپنے نادرِ روزگار خیالات کا اظہار کرتے ہوئے  بلاگ میں لکھا کہ  غیر منتخب شدہ اداروں کا ظلم نہیں برداشت کیا جائیگا۔ یعنی منتخب شدہ  نمائندوں کی زیادتی تو قابل برداشت ہے لیکن یہ غیر منتخبہ لوگ ظلم و جبرکے حقدار نہیں ہیں۔ یہ بیان اگر کوئی چائے والا دیتا تو اسے لاعلمی پر موقوف کرکے نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ارون جیٹلی جیسے عدالتِ عالیہ کے معروف وکیل  نے دستور کی وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے محترم دستوری ادارے کو ظالم قرار دے دیا۔  اتر پردیش کے مہوبہ ضلع  کی عدالت کے جج انکت گوئل نے اس بیان کو قوم دشمن قرار دیتے ہوئے وزیرخزانہ کو ۱۹ نومبر کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ جیٹلی  جی کا اگر یہ اخباری  بیان ہوتا تو اس سے مکر جانا بہت آسان تھا ، یہ کہہ دینا کہ ان کی بات کوتوڑ مروڈ کر پیش کیا  گیا  سیاستدانوں کا روزمرہ کا  معمول بن گیا ہے ۔ مگریہ تو ان کے اپنے بلاگ پر لکھا ہوا ان کا اپنا مضمون ہے جس کی ذمہ داری کسی اور پر ڈالنا ناممکن ہے ۔
 ہاردک پٹیل تو خیر سیاسی دباو بنا کر سارے الزامات سے چھوٹ جائیگا لیکن  اگر گبرّ کےلہجے میں پوچھیں کہ ’’اب تیرا کیا ہوگا جیٹلی‘‘ تو اس کا کیا جواب ہوگا؟  سوم ، ساکشی، کھٹر ، ادھو اور ہاردک جیسے سنپولوں سے تو مودی جی کسی طرح نمٹ لیتے تھے لیکن اب دیکھنا یہ ہے جیٹلی جیسے اژدھے کے ساتھ وہ کیا معاملہ کرتے ہیں۔  گردشِ زمانہ کو دیکھئے کہ پچھلے سال مودی جی  جب بھی پانسہ پھینکتے تھےسامنے ایک سیڑھی نظر آتی تھی جس پر چڑھتے ہی ان کی چھاتی ایک انچ پھول جاتی تھی۔ آج کل یہ حال ہے ہر قدم پر ایک سانپ دکھائی دیتا ہے  اور جب وہ اس کا سر کچلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی ناک لمبی ہوجاتی ہے۔  ایسے میں راحت کا وہ مصرع یاد آتا ہے ’’جو آج صاحبِ منصب ہیں کل نہیں ہوں گے‘‘۔ اس  روشن حقیقت پر زمانے کی گواہی کافی ہےلیکن اس وقت تک کتنی تاریکی پھیل چکی ہو گی کوئی نہیں جانتا۔      

Saturday 17 October 2015

موہن بھاگوت: ہوئے تم دوست جس کے۰۰۰

وزیراعظم نریندر مودی کی پہ در پہ ناکامیوں پر اب تو ان کے دشمنوں کو بھی رحم آنے لگا ۔ میرے ایک قاری نے اسی کیفیت میں لکھا ’’اے کاش خدا مودی جی کو عقل سلیم عطا فرمائے‘‘۔ اس تبصرے کو پڑھنے کے بعد اخبار دیکھا تو اس میں خبر تھی بہار میں مودی جی کے ۶ خطابات عام منسوخ کردئیے گئے۔میں نے دعا کو اس قدر جلدی مستجاب ہوتے کم ہی دیکھا ہے۔  ابھی پچھلے دنوں جب یہ خبر آئی تھی کہ مودی جی نے اپنے جلسۂ عام کی تعداد میں اضافہ فرما دیا ہے اور اب وہ دو دن میں ۴ کے بجائے ۶ مقامات پر عوام کو مخاطب کریں گے تبھی اندازہ ہوگیا تھا کہ حالت پتلی ہے ۔ اس خبر میں یہ بھی لکھا تھا کہ مودی جی ان خطابات عام کے دوران دہلی واپس آنے کے بجائے  پٹنہ میں قیام فرمائیں گے تاکہ آپسی جھگڑےمٹا سکیں تو اس سے بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ دال میں کالا ہے ۔ ویسے جہاں مودی اور شاہ کی جوڑی موجود ہو جھگڑے آسانی سے لگ تو سکتے ہیں لیکن مٹائے نہیں جاسکتے ۔
مودی جی نے اپنے جلسوں کو منسوخ کرکے اور پوسٹرس کے اوپر سے اپنی اور امیت شاہ کی تصاویر ہٹا کر عقل کے ناخون تو ضرور لئے ہیں اس لئے کہ فی الحال بہار میں ’’ بہاری اور باہری‘‘ کا نعرہ گونج رہا ہے ۔ اس پر آئے دن لالو جی کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے اپنی اور نتیش کمار کی جانب اشارہ کرکے ارشاد فرمایا دو بہاری سپوتوں نے وزیراعظم سمیت ان کی کابینہ کے ۵۰ وزراء اور ۲۰۰ ارکان پارلیمان کو دوڑا رکھا ہے ۔ اب سوال کردیا کہ جس طرح نقاب پوش  وزیراعلیٰ کے ساتھ وزیراعظم اپنے بل بوتے پر انتخاب لڑا رہے ہیں ایسے میں اگر بی جے پی ہار جاتی ہے تو کیا وہ اس کی ذمہ داری لیتے ہوئے استعفیٰ دے دیں گے ؟ ایک بات تو طے ہے کہ بہار انتخاب کے بعد وزیراعظم کا نہ سہی تو امیت شاہ کا بوریہ بسترہ گول ہونا ہی ہونا ہے ۔ ایسے میں وہ  بیچارہ کہاں جائیگا یہ کہا نہیں جاسکتا اس لئے کہ سنگیت سوم اسے اترپردیش میں گھسنے نہیں دے گا ۔ شاہ  جی نے اس کے دادری جانے پر تنقیدجو کردی ہے اور ہاردک پٹیل اسے گجرات میں آنے نہیں دے گا اس لئے کہ بنیا سماج  پٹیلوں کے خلاف ہے ۔ امیت شاہ تو بیچارہ نہ گھر کا ہوگا اور نہ گھاٹ کا ممکن ہے اس صورت میں وہ  اپنی پرانی کمین گاہ تہاڑ جیل کے اندر اپنے لئے محفوظ پناہ گاہ تلاش کرے ۔
مودی جی بہار سے دہلی  بھی اپنی  حما قتوں سمیت آئے ۔  دہلی میں انہوں نے اعلان فرمایا کہ یہاں میرے ساتھ اسٹیج پر پرکاش سنگھ بادل بیٹھے ہوئے ہیں جو ہندوستان کے نیلسن منڈیلا ہیں ۔ یہ اپنے آپ میں ایک نہایت منفرد بیان ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب دنیا بھر کے لوگ اپنے رہنماوں کا موازنہ گاندھی جی سے کرکے فخر محسوس کیا کرتے تھے اور نیلسن منڈیلا کو بھی جب جنوبی افریقہ کا گاندھی کہہ کر پکارا جاتا تھا تو ان کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا تھا ۔نیلسن  منڈیلااگر حیات ہوتے تو وزیراعظم کے ذریعہ بادل کے ساتھ اپنا موازنہ سن کر  ان کا سر شرم سے جھک جاتا ۔ گاندھی جی کا تو کیا ہے   کہ ان کی اپنی ریاست کا  ہاردک پٹیل علی الاعلان کہتا پھرتا ہے گاندھی کے راستے پر بہت چل کر دیکھ لیا ۔ اس سے کچھ بھی نہیں ملا اب ہم بھگت سنگھ کا راستہ اپنائیں گے۔ وہ تو خیر  ہاردک پٹیل نے مودی جی کی پیروی میں یہ نہ کہا کہ  ہم پنجاب کے منڈیلا  پرکاش سنگھ بادل کا راستہ اپنائیں گے ۔
مودی جی کے اس بیان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یا تو وہ نیلسن منڈیلا کی انقلابی زندگی سے ناواقف ہیں یا پرکاش سنگھ بادل کے کالے کارناموں کو نہیں جانتے ورنہ یہ جرأت کبھی نہ کرتے ۔ ان کے خیال میں ان دونوں رہنماوں کے درمیان قدر مشترک جیل جانا ہے۔  ممکن ہے آگے چل کر مودی جی کو بھی یہ سعادت نصیب ہوجائے تو کیا وہ دور جدید کے سبھاش چند بوس کہلائیں گے ۔ دراصل جیل جانا اپنے آپ میں کوئی اہم بات نہیں ہے ۔ گزشتہ دنوں وہ خود لالو جی کے جیل جانے پر تنقید کر چکے ہیں لیکن جب لوگوں نے انہیں یاد دلایا خود امیت شاہ بھی جیل یاترا کر چکے ہیں تو ان کی زبان کو لگام لگ گئی۔ بادل سکھ پنتھ کی خاطر جیل گئے تھے اگر بادل  اس بناء لائق تکریم ہیں تو سنت بھنڈارن والا نے سکھ پنتھ کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے کیا مودی جی ایوانِ پارلیمان میں ویر ساوکر کے بغل میں سنت بھنڈارن والا کا مجسمہ بھی نصب کروائیں گے ۔
وزیراعظم کے بیان پر سنا ہے  جنوبی افریقہ کی کسی عدالت میں ہتک عزت کا دعوی ٰ بھی درج ہوا  ہےجبکہ وزیراعظم کے بیان پر ہندوستان میں ہتک عزت کا دعویٰ درج ہونا چاہئے اس لئے کہ پرکاش سنگھ بادل جیسے بدعنوان اور نااہل سیاستدان کو ہندوستان کا منڈیلا محض اس لئے قراردیا گیا ہےکہ وہ بی جے پی کا باجگذار ہے ۔پنجاب  کے عوام پرکاش سنگھ بادل کی اقرباء پروری سے نالاں ہیں ۔ ان کا بیٹا نائب وزیر اعلیٰ اور بہو مرکزی وزیر ہے۔ بدعنوانی  کے معاملات میں وجئے راجے سندھیا اور شیوراج سنگھ چوہان بھی ان کے آگے پانی بھرتے ہیں۔ ان کے دور میں پنجاب کے اندر منشیات کا استعمال اس قدر بڑھا ہے کہ  ۴۰ فیصد سے زیادہ نوجوان اس کا شکار ہو گئے ہیں۔ ابھی حال میں گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کو لے کر ریاست پنجاب میں جو بدامنی پھیلی ہوئی ہے ۔ اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے وہ رام رحیم پنتھ کے لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں جن پر اس مذموم حرکت کا الزام ہے ۔ویسے مودی جی کو اس طرح کے واقعات سے کیا فرق پڑتا ہے ان کے اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی میں فی الحال گنیش وسرجن کو لے سادھو سنتوں اور انتظامیہ کے دوران ٹھنی ہوئی ہے۔ سادھو سنت سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف گنیش کی مورتی گنگا میں ڈبونا چاہتے ہیں انتظامیہ روکتا ہے تو وہ اس سے بھڑ جاتے ہیں اور سارا شہر سر پر اٹھا لیتے ہیں  لیکن مودی جی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
وزیراعظم کو ویسے سنجیدہ معاملات میں دلچسپی کم ہی ہوتی ہے ۔ ان کیلئے کسی ٹیم کا جیت جانا یا کسی کھلاڑی کا بیمار ہوجانا تو قابل توجہ  ہوتا ہے۔ وہ اس پر فوراً ٹویٹ بھی کردیتے ہیں لیکن دادری جیسے سانحہ پر  پراسرار چپی سادھ لیتے ہیں ۔ جب ان کی خاموشی کے خلاف شور شرابہ آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے تو وہ صدر محترم سے بیان دلوا کر اس کی جانب توجہ  اس طرح توجہ دلاتے ہیں کہ جیسے بھارتیہ ناری کہتی ہےمنے کے پاپا  ذرادیکھئے نا پڑوسی کس بات کی شکایت کررہے ہیں ۔اس پر بھی طوفان نہیں تھمتا تو بادلِ ناخواستہ کہہ دیتے ہیں  دادری کا واقعہ قابل مذمت ہے لیکن اس سے مرکز کا کیا تعلق ؟ لاء اینڈ آرڈر کیلئے ریاستی حکومت ذمہ دار ہے( جو اتفاق سے سماجوادی کی ہے)۔  یہی بیان اگر مودی جی دوہفتہ قبل دے دیتے تو اس قدر بدنامی نہیں ہوتی لیکن اس کیلئے جو دور اندیشی درکار ہے وہ کہاں سے آئے؟مودی جی کی خاموشی کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی رہنما فسادیوں کی پشت پناہی میں لگ گئے جس سے کام اور خراب ہوگیا اور انتظار بسیار کے بعد بیان بھی آیا تو اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ اس لئے کہ جو نقصان ہو نا تھا ہوچکا تھا۔
وزیراعظم کے بیان پر جہاں ان کے بھکت بغلیں بجا رہے تھے بی جے پی کی نظریاتی ہمزاد شیوسینا کے سنجئے راوت  نے اوس ڈال دی ۔ سنجئے راوت نے مودی جی کے بیان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یاد دلایا  کہ مودی جی کی اصل شناخت گودھرا سے ہے ۔ ہم گودھرا کے سبب ان کا احترام کرتے ہیں  اور دادری پر بیان دے کر انہوں نے اپنے تشخص کو پامال کیا ہے۔سنجئے راوت نے بڑی صفائی سے مودی جی کو وہ آئینہ دکھا دیا جسے توڑنے کی کوشش میں ان کی انگلیاں بار بار لہو لہان  ہو جاتی ہیں ۔ فی الحال سینا اور بی جے پی میں نئی مہا بھارت چھڑی ہوئی ہے ۔جس طرح مودی جی نے دہلی میٹرو کے افتتاح میں وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو نظر انداز کردیا اسی طرح ممبئی میں سینا سپریمو ادھو ٹھاکرے کو دعوت دینے سے گریز کیا گیا ۔ ادھو نے بگڑ کر بی جے پی کو بدنام کرنے کیلئے انہیں تاریخوں میں ودربھ کے کسانوں سے ملنے کا پروگرام بنا لیا ۔
وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس کو بہت دیر سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے ایک وزیرکے ہاتھوں ذاتی طور دعوتنامہ روانہ کیا لیکن دیر ہوچکی تھی ۔ ادھو نے وزیراعظم کی تقریب کا دعوتنامہ ٹھکرا کر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کردیا۔  اس سے قبل شیوسینا غلام علی کے پروگرام کی مخالفت کرچکی تھی۔ وزیراعلیٰ کے تمام تر یقین دہانی کے باوجود منتظمین نے پروگرام منسوخ کرکے شیوسینا کے حوصلے بلند کردئیے ۔ اس کے بعد بی جے پی کے دانشور سدھیندر کلکرنی نے پاکستان کےسابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری  کی کتاب کے ممبئی میں اجراء کا اعلان کردیا ۔ شیوسینا کو اس سے اپنے آپ کو بی جے پی سے بڑا زعفرانی ثابت کرنے کا ایک اور موقع مل گیا اور اس نے اس کے بھی منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا اور اپنا احتجاج جتاتے ہوئے سدھیندر کلکرنی کے منھ پر کالک پوت دی ۔ کلکرنی نے اپنے کالے منھ کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے شیوسینا کا منھ کالا کردیا ۔
اس واقعہ پر ساری دنیا شرمسار ہوئی یہاں تک کہ  مودی جی نے بھی اس پر اظہار تاسف کیا لیکن شیوسینا کو اس پر کوئی افسوس نہیں تھا۔ اس کے مطابق یہ نہایت مہذب اور عدم تشدد کے طریقے پر کیا جانے والا ہے احتجاج تھا ۔ اس احتجاج کے دوران چونکہ  خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہا اس لئے اسے پرتشدد احتجاج تو نہیں کہا جاسکتا اور جہاں تک سیاستدانوں کے چہروں پر کالک کا سوال ہے وہ کوئی نئی بات ہے نہیں  مثل مشہور ہےکوئلے کی دلالی میں تو صرف ہاتھ کالے ہوتے ہیں اقتدار کی دلالی میں منھ بھی کالا ہوتا ہے۔ فردنویس نے قصوری کی کتاب کا اجراء کروا کر شیو سینا کے منھ پر کالک پوت دی ۔
شیوسینا کے مطابق سدھیندر کلکرنی اجمل قصاب جیسا ہے ۔ اب اگر شیوسینا کے ہوتے اجمل قصاب ممبئی میں کسی پاکستانی کے کتاب کا اجراء کروادے تو وہ اس کیلئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔  بھگوا دھاری اس طرح ایک دوسرے کا منھ کالا کرتے رہیں تو ان کا خانگی معاملہ ہے اس پر کسی تیسرے کواعتراض کا کوئی حق نہیں ہےلیکن  سنجئے راوت نے سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر پوتی جانے والی سیاہی کو سرحد پر بہنے والے فوجی جوانوں کا لہو کہہ کر فوج کی ایسی توہین کی ہے کہ اس کی جس قدر  مذمت  کی جائے کم ہے ۔ سیاستدانوں کے منھ تو کالے ہوسکتے ہیں مگرفوجیوں کا خون کالا نہیں ہوسکتا۔  جوانوں کا لہو تو سرخ ہوتا ہے لیکن  زعفرانی سیاستدانوں کو اس کا علم اسی وقت ہو گا جب وہ آپسی سر پھٹول سے نکل کرسرحد پر جا ئیں اور ملک و قوم کیلئے  قربانی دیں ۔ فی الحال سینا اور بی جے پی ایک دوسرے کی قبر کھودنے میں مصروف ہیں اب اس میں کون دفن ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
مہاراشٹر کے اندر جس طرح بی جے پی کی مصیبتوں کا سرچشمہ شیوسینا ہے اسی طرح بہار میں اس کی حامی جماعتیں لوک جن شکتی پارٹی ، راشٹریہ سمتا دل اور ہندوستان عوام پارٹی ہے۔  وہ سب جہاں ایک دوسرے کے دشمن و ہیں بی جے پی کے اندر بھی گھمسان پڑا ہوا۔ آئے دن بی جے پی رہنماوں کے ایک دوسرے خلاف بیانات نشر ہوتے رہتے ہیں۔ اب تو امیت شاہ بھی ان کے نشانے پر آگئے ہیں اور وہ ان کی بیجا مداخلت پر سر عام اعتراض کیا جارہا ہے ۔آریس ایس کو چونکہ  بی جے پی والے اپنا مہا گرو مانتے ہیں اس لئے سر سنگھ چالک کا اس معاملے میں سب زیادہ حق  بنتاہے ۔ بھاگوت جی نے ریزرویشن کے خلاف بیان دے کر لالو اور نتیش کے ہاتھ میں جو ہنٹر پکڑا دیا ہے اس سے بہار میں بی جے پی لہو لہان ہے ۔
بی جے پی نے پہلے تو اس بیان سےدہلی میں  پلہّ جھاڑا  پھر اس کے بعد وزیراعظم نے بہار میں ریزرویشن کو قائم و دائم رکھنے کی یقین دہانی کی بلکہ ممبئی میں بھی اس کا اعادہ کیا لیکن موہن  بھاگوت بھی آسانی سے قابو میں آنے والے پرانی نہیں ہیں۔ اگست ؁۲۰۱۲ میں جب ان سے غیر ملکی صحافیوں نے مختلف ریاستوں کی ترقی کی بابت پوچھا تھا تو انہوں نے بہار کو گجرات پر ترجیح دی تھی ۔ اس کے معنیٰ یہی ہوتے تھے کہ وزیراعلیٰ کے طور پر نتیش کمار کو نریندر مودی پر سبقت عطا کی گئی تھی  ۔ بھاگوت جی بہار کیلئے نئے نہیں ہیں ۔  دس سال سے زیادہ بہار میں وہ پرچارک کے طور پر کام کرچکے ہیں ۔ ان کو ریاستِ  بہار کے مسائل اور بہاری عوام کی نفسیات کا اندازہ ہے ۔اس کے باوجود عین انتخابی مہم کے دوران موہن بھاگوت کا یہ بیان اور اور وزیراعظم کے حلقۂ انتخاب میں اس کا اعادہ غالب کے اشعار  یاد دلاتے ہیں    ؎
یہی ہے آزمانا  تو  ستانا کس کو   کہتے  ہیں عدو  کے ہو لئے   جب  تم  تو  میرا   امتحاں  کیوں  ہو؟
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟


Wednesday 14 October 2015

नेपाल: हिंदू राष्ट्र में लाल ध्वज को भगवा प्रणाम

पूर्व प्रधानमंत्री सुशील कोइराला को 249 के मुकाबले 338 वोट से हराकर वामपंथी नेता खडगा प्रसाद ओली नेपाल के 38 वें प्रधानमंत्री बन गए। होना तो यह चाहिए था कि जिस प्रकार प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी के राज्यअभिषेक में सुशील कोइराला सब से पहले दिल्ली के निमंत्रण पर दौड़े चले आए थे उस तरह मोदी जी भी काठमांडू जाते लेकिन ऐसा नहीं हो सका। वह तो खैरा ओली को मोदी की तरह स्वप्रर्दशन का शौक नहीं था वरना अगर वह किसी को अपने शपथ ग्रहण समारोह में भाग लेने के लिए आमंत्रित करते तो वह नरेंद्र मोदी नहीं बल्कि शी जीन पिंग होते। बकौल आडवाणी जी जिस तरह मोदी जी के सत्ता में आने का श्रेय कांग्रेस की अक्षमता को जाता है ठीक उसी प्रकार ओली जी के प्रधानमंत्री बन जाने में मोदी जी का बहुत बड़ा योगदान है। मोदी जी दादागिरी ने नेपाली जनता और नेताओं को न केवल भारत बल्कि भारत समर्थित कोइराला का भी दुश्मन बना दिया। एक साल पहले खडगा को मंद बुध्दि कहने वाले माओवादी भी उनके समर्थक बन गए और वे प्रधानमंत्री की कुर्सी पर विराजमान हो गए।
प्रधानमंत्री बनने के बाद मोदी जी को विदेशी दौरों की ऐसी जल्दी थी कि तुरंत घोषणा हो गई कि वह पहली यात्रा जापान की करेंगे लेकिन जापान जाना अहमदाबाद जाने जैसा तो था नहीं, इसलिए मोदी जी भूटान के लिए निकल पड़े। भूटान जाने में प्रधानमंत्री तो दर किनार एक आम नागरिक के लिए भी कोई दिक्कत नहीं है जहां तक आवश्यकता और महत्व का प्रशन है इन बातों पर विचार करने की प्रधानमंत्री को फुर्सत नहीं है। भूटान से वापस आने के बाद भी मोदी जी का चंचल मन शांत नहीं हुआ तो संभव है किसी ने सलाह दी हो महाराज नेपाल के पशुपति नाथ मंदिर में जाकर शांति प्राप्ति का कष्ट करें। वहां पूजा-पाठ के बाद मोदी जी ने ट्वीट किया मैं अपने आप को बहुत सौभाग्यशाली महसूस कर रहा हूं।
पशुपति नाथ मंदिर में मोदी जी ने खुश हो कर लगभग 4 करोड का चंदन और 9 लाख का घी दान कर दिया। सवाल यह उठता है कि क्या वह धन सरकारी खजाने से खर्च किया गया था? यदि हाँ तो क्या मोदी जी जनता के टैक्स का रुपया किसी निजी संस्था पर खर्च करने का अधिकार रखते हैं? यदि उनका अपना निजी धन था तो अचानक प्रधानमंत्री बनते ही वह उनके हाथ कहां से आ गया। उनका दो महीने का वैध वेतन तो चार करोड नहीं है। चुनावी हलफनामे में जमा पूंजी सिर्फ एक करोड 65 लाख थी। यदि यह राशि किसी दोस्त ने उन्हें उपहार में दी थी तो वह काला धन था या सफेद यानी उस पर आय कर का भुगतान किया गया था या नहीं? जो व्यक्ति लगातार सीना ठोंक कर यह घोषणा करता है कि अगर मेरे ऊपर कोई भ्रष्टाचार का आरोप हो तो बताओ? उसे चाहिए कि वह इन सवालों के जवाब दे या खोखली दावेदारी बंद कर दे।
पशुपति नाथ मंदिर से मोदी जी भगवा वसत्र धारण करके जब बाहर निकले तो उनके गले में रुद्रक्ष की माला और माथे पर चंदन का तिलक ऐसे सजा था मानो महर्षि जी दिल्ली के बजाय सीधे कैलाश परबत कूच करने वाले हैं। बाद में पता चला कि ऐसे दृश्य हर विदेशी दौरे पर देखने को मिलेंगे कहीं वह कोट पहन कर ढोल बजा रहे होंगे तो कहीं हैट पहनकर बीन बजाएंगे जैसा देस होगा वैसा वेषभूषा होगा। वह तो खैर अरब अमीरात के दौरे मस्जिद में जाते हुए उन्होंने अरबी कंदूरा नहीं पहन लिया वरना गजब हो जाता। मंदिर से वापस होते हुए उन्होंने यात्री पुस्तक में लिखा काशी (जो उनके निर्वाचन क्षेत्र में स्थित है) और पशुपति समान हैं। वह नेपाल और भारत को एकजुट रखते हैं, मैं प्रार्थना करता हूँ कि उनका आशीर्वाद दोनों देशों की जनता पर सदा रहे। '' इस एक साल के समय में मोदी जी ने पशुपति नाथ का आशीर्वाद भी व्यर्थ कर दिया और देखते देखते हिन्द-नेपाल एकता काफूर हो गई।
 अमेरिका के अलावा नेपाल ही वह देश है जहां का दौरा मोदी जी ने दो बार यात्रा की। मोदी जी के अमेरिका आने जाने का लाभ तो पाकिस्तान को यह हुआ कि अमेरिका ने उसके साथ परमाणु समझौते की पेशकश कर दी और जो सफलता पूर्व प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह ने बरसों की मेहनत से प्राप्त की थी नवाज शरीफ के लिए उसका मार्ग खुल गया। नेपाल भारत के बजाय चीन के करीब हो गया। यही वह कूटनीतिक उपलब्धि हैं जिनके कारण मोदी जी की तुलना पंडित नेहरू से की जाती है जिन्हों ने निष्पक्ष आंदोलन का नेतृत्व ऐसे किया था कि मुट्ठी भर शक्तियों को छोड सारी दुनिया के देश एक झंडे तले जमा हो गए थे।
प्रधानमंत्री का दूसरा नेपाल दौरा भी कम रोचक नहीं था। वैसे तो उन्हें सार्क सम्मेलन में भाग लेने के लिए जाना था लेकिन अचानक विश्व हिंदू परिषद को याद आ गया कि सीता माई का मायका जनकपुरी नेपाल में है अब यह कैसे हो सकता है कि राम भक्त मोदी नेपाल जाएं और राजा जनक के दरबार र्में उपस्थित न हों। विहिप ने आओ देखा न ताओ मोदी जी जनसभा की घोषणा कर दी और अयोध्या से बरात समान यात्रा लेकर जनकपुरी की ओर निकल पड़े। मोदी जी के आम सभा की तैयारियां जोर-शोर से शुरू हो गईं। इस दौरान संघ परिवार ने सोचा नेपाल तो हिंदू राष्ट्र है वहां राम भक्तों को सीता के मायके जाने से कौन रोक सकता है? वे बेचारे भूल गए थे कि कलयुग में नेपाल अखंड भारत का हिस्सा नहीं बल्कि एक स्वतंत्र देश है और वहां की सरकार को विश्वास में लेना अनिवार्य है। जनकपुरी की तराई में रहने वाले मधीशिय निवासियों को वैसे भी पहाड़ी नेपाली शक की नज़र से देखते हैं ऐसे में मोदी जी को वहाँ आम सभा की अनुमति देने की गलती वे कैसे कर सकते थे। खैर सुरक्षा कारणों का बहाना बना कर सभा को रद्द करके मामला रफा-दफा किया गया।
 मोदी जी को नेपालियों के तेवर से हवा के रुख का अनुमान लगाना चाहिए था लेकिन किसी भी खुद पसंद इंसान के लिए यह बहुत मुश्किल काम है। वह काठमांडू के अंदर नेपाली सरकार को संविधान बनाने के विषय में बिन मांगे सुझाव देने लगे, विलंब के दुषपरिणाम कि चेतावनी दे डाली, बहुमत के बजाय आम सहमति की हिदायत भी कर दी। इस तरह की सार्वजनिक गलती तो वायसराय लॉर्ड करज़न ने भी भारतीय संविधान के समय नहीं कि थी बल्कि पंडित नेहरू के पास सिर्फ अपना एक प्रतिनिधि भेजा था। मोदी जी अगर जानते कि पंडित नेहरू ने उस प्रतिनिधि को क्या कह कर लौटाया था तो वह उसकी मूर्खता दोहराने का साहस नहीं करते।
 मोदी जी से संविधान के पूर्ण होने पर विदेश सचिव एस जय शंकर को अपना विशेष दूत बनाकर नेपाल भेजने की जो चूक हुई इस ने भारत नेपाल संबंधों को असुधार्य नुकसान पहुंचाया। जय शंकर के सुझावों को खारिज करते हुए माओवादी पुष्पा कुमार दाहल ने स्पष्ट कहा कि नेपाली किसी भी ओर से कोई ऐसा दबाव बर्दाश्त नहीं करेंगे जिससे संप्रभुता पर अक्षर आता हो। हम भारत के जी हज़ूरिये नहीं हैं। प्रधानमंत्री खड़ग प्रसाद ओली ने कहा1950 का युग बीत गया जब भारतीय राजदूत नेपाली संसद में बैठा करता या भारत सरकार राजा के खिलाफ राजनीतिक दलों का समर्थन करती और क्षेत्रिय नेताओं को वश में रखती थी।
जय शंकर का कठमंडो में जाकर ऐसे मधीशिय नेताओं से मिलना (जो चुनाव में विफल हो चुके हैं) पाकिस्तानी विदेश सचिव के कश्मीरी अलगाववादी नेताओं नेताओं से मुलाकात जैसा था जिस के कारण भारत पाक बातचीत में रुकावट पडी। जिस कूटनीति की अनुमति हम पाकिस्तान को इसलिए नहीं देते कि वह हमारी संप्रभुता के खिलाफ है वही हरकत काठमांडू में जाकर करने को हम ठीक समझते हैं। जयशंकर के सुझावों को नेपाल के आंतरिक मामले में हस्तक्षेप क्यों समझा गया यह जानने के लिए उन पर एक नजर डालना पर्याप्त है।
इन सुझावों में संविधान के विभिन्न प्रावधान का उल्लेख कर के इस प्रकार आदेश दिए गए हैं। दफा 63 (3) मधीशियों लिए जनसंख्या के अनुपात से क्षेत्र और दफा 21 में राज्य ढांचे में उनकी आनुपातिक प्रतिनिधित्व। दफा 86 में परिवर्तन करके मधीशियों की आबादी के लिहाज से सदन में प्रतिनिधित्व। क्या भारत में राष्ट्रीय स्तर पर राज्य स्तर पर अल्पसंख्यकों को उनकी आबादी के आनुपातिक प्रतिनिधित्व प्राप्त है। क्या जिस भाजपा ने गुजरात के मुसलमानों को 12 साल से विधायक का टिकट तक नहीं दिया और जिसके र्निवाचित 282 सांसदों में एक मुसलमान या ईसाई नहीं है इसका नेपाल में जाकर आनुपातिक प्रतिनिधित्व की मांग हास्यास्पद नहीं है? दफा 154 में क्षेत्र संयुक्त चुनाव में संशोधन की अवधि को 20 साल से घटाकर 10 साल करने का सुझाव दिया गया । इस तरह के प्रशासनिक निर्णय किसी पड़ोसी देश को दूर भारत के अंदर एक प्रांतीय सरकार को भी नहीं दिए जाते।
मोदी सरकार के लिए संविधान में दो बातें सबसे अधिक परेशानी की थीं पहले तो नेपाल को हिंदू राष्ट्र के बजाय धर्मनिरपेक्ष लोकतांत्रिक गणराज्य घोषित किया जाना लेकिन इसका विरोध करना इसलिए संभव नहीं था कि खुद भारत अब तक एक धर्मनिरपेक्ष गणतंत्र है। दूसरा मुद्दा संविधान की धारा 283 है जिसके तहत किसी ऐसे व्यक्ति को जिस के माता पिता नेपाली न हों राष्ट्रपति, प्रधानमंत्री या मुख्य न्यायाधीश के पद के योग्य न होना। जय शंकर ने सुझाव दिया कि विवाह के आधार पर नागरिकता अपनाने वाले को उन पदों का हकदार होना चाहिए। सवाल यह उठता है कि आखिर भारत को इससे क्या गरज कि नेपाल में शिखर पद का अधिकार किस को प्राप्त हो और कौन उस से वंचित हो? सोनिया गांधी के प्रधानमंत्री का पद संभालने के विरोध भाजपा ने जिस आधार पर किया था क्या वो उसे भूल चुकी है?
नेपाल का संविधान उस सुधार वादी प्रर्कण का शिखर स्वरुप है जिसकी शुरुआत  1854 में जंग बहादुर राणा ने संविधान जारी कर के की थी। द्वितीय विश्व युद्ध के बाद पदमा शमशेर राणा ने  1945 में संविधान बनाने की पुर्नआरंभ किया और  1948 में जो संविधान बना इसमें राजा तो मौजूद था लेकिन एक शक्तिशाली प्रधानमंत्री का प्रावधान भी था। समय समय पर विभिन्न राजा अपनी सत्ता की खातिर संविधान का हनन करते रहे और राजनीतिक दल उसके संर्घष में पीडित होते रहे।  1979 में राजा बीरेंद्र ने संवैधानिक सुधारों के लिए 11 सदस्यीय आयोग का गठन किया और  1990 में आंदोलन के कारण नया संविधान स्वीकार करने के लिए मजबूर किया गया जिससे उसके अपने अधिकार सीमित हो गए। 
1996  में साम्यवादी विद्रोह ने जोर पकड़ा दस साल बाद2006  में एक शांति समझौता संपन्न हुआ। इसके बावजूद संविधान बनाने का काम विभिन्न कारणों से टलता रहा और अंततः 601 सदस्यों वाले संविधान सभा ने स्पष्ट बहुमत के साथ उसे पारित कर दिया। जिन मधीशियों की खातिर भारत सरकार परेशान है उनके 69 प्रतिनिधियों ने संविधान बनाने की प्रक्रिया का बहिष्कार किया जबकि हिंदू राष्ट्र के पक्ष में केवल 21 लोगों ने मत दिया।
नए संविधान के अनुसार संविधान सभा को संसद में बदल दिया गया। इस संविधान में आर्थिक समानता, सामाजिक न्याय और समता पर आधारित समाज बनाने का वचन दिया गया है। संविधान की प्रस्तावना में बहुदलीय लोकतांत्रिक व्यवस्था, नागरिक स्वतंत्रता, मूलभूत मानव अधिकार, मतदान का अधिकार, अभिव्यक्ति की स्वतंत्रता, स्वतंत्र और निष्पक्ष न्यायपालिका और संवैधानिक समाजवाद के आधार पर एक आनंद पूर्ण समाज के निर्माण की बात कही गई है। राष्ट्रपति राज्य प्रमुख हैं मगर संसद का वर्चस्व है। 20 सितंबर को संविधान के पारित होते ही जनता खुशी से जश्न मनाने के लिए सड़कों पर उतर आई। सारी दुनिया से बधाई संदेश प्राप्त होने लगे लेकिन भारत सरकार ने न नाराजगी का प्रर्दशन करते हुए अपने राजदूत को दिल्ली में तलब किया।
भारत की नाराजगी के जवाब में नेपाली प्रधानमंत्री ने कहा कि सैद्धांतिक रूप में यह बात सही है कि संविधान राष्ट्रीय आम सहमति के आधार पर बनाया जाए लेकिन यदि यह संभव न हो तो भारी बहुमत से पारित संविधान का स्वागत होना चाहिए तथा संविधान को बहुमत  या आम सहमति से बनाना नेपाल का आंतरिक मामला है, भारत को इसमें हस्तक्षेप नहीं करना चाहिए। भारत सरकार की इस प्रतिक्रिया ने नेपाली की जनता को न केवल निराश किया बल्कि उनके अंदर गुस्से और नाराजगी की एक लहर दौड़ा दी।
नेपाल चारों ओर से घिरा हुवा देश है और इसका बाहरी दुनिया से जमीनी संपर्क भारत पर निर्भर है। उस का व्यापार लगभग 65 प्रतिशत भारत से है। नेपाली जनता की सभी महत्वपूर्ण आवश्यकताओं जैसे पेट्रोल, खाद्य तेल, आटा सब्जियों और परिधान भारत से जाता हैं। संविधान के निर्माण के अंतिम चरण में तराई के अंदर सुरक्षाबलों के खिलाफ हिंसा भड़क उठी। शुरुआत में पुलिस वाले मारे गए फिर बाद में उनकी ओर से भी शक्ति का दुरुपयोग शुरू हो गया। संविधान की स्वीकृति के बाद मधीशियों के विरोध का बहाना बनाकर भारत की ओर से आघोषित आर्थिक बंदी लगा दी गई।
इस के कारण भारत का सर्मथन करने वाली नेपाली कांग्रेस भी दिल्ली सरकार की आक्रामक रोष का विरोध करने पर मजबूर हो गई। नेपाल के नेताओं ने आर्थिक नाकाबंदी की निंदा करते हुए विश्व समुदाय से अपनी भूमिका निभाने का अनुरोध किया है। तीन अक्टूबर को संयुक्त राष्ट्र महासभा को संबोधित करते हुए नेपाल के उप प्रधानमंत्री '' प्रकाश मान सिंह ने कहा है कि पिछले दो सप्ताह से नेपाल की आर्थिक नाकेबंदी के कारण खाने पीने का सामान और पेट्रोल डीजल आदि की भारी कमी से पौने तीन करोड़ नेपाली जनता बडे संकट से जूझ रहे हैं और आने वाले दिनों में बड़ी मानव त्रासदी जन्म ले सकती है।
मोदी जी को इस हस्तक्षेप के परिणाम का एहसास होता तो वह अपनी यात्रा के अवसर पर यह न कहते कि मैं ने तो कुछ महीनों के अंदर नेपाल का दौरा कर लिया जबकि मनमोहन सिंह दस सालों में यह न कर सके। इस दौरान नेपाल में संविधान बनाने की प्रक्रिया जारी थी इसलिए भारत सरकार दर पर्दा जो कुछ कर सकती थी करती रही लेकिन खुले हस्तक्षेप से बचा गया ताकि उसका नकारात्मक प्रतिक्रिया न हो लेकिन जल्द बाज तबीयत के मालिक मोदी जी इस नजाकत को नहीं भांप सके और अपनी अनुभवहीनता के कारण वर्षों की मेहनत पर पानी फेर दिया। एक नेपाली राजनयिक के अनुसार '' नेपाल में भारत विरोधी भावनाएं इतनी तीव्र हो गई हैं कि उन्हें सामान्य होने में शायद कई दशक आवश्यक हूँ। क्योंकि बकौल नेपाल के एक बौद्धिक अमित ढाकल जय शंकर के पास अपने स्वामी का कोई संदेश नहीं केवल धमकी थी। जिस धमकी की आशंका डखाल ने जताई थी वह सच्चाई बन गई है।
अपने राज अभिषेक के बाद पशुपति नाथ मंदिर से निकलते हुए मोदी जी के मन में यह विचार जरूर आया होगा कि काश पशुपति नाथ की तरह काशी विश्वनाथ भी हिंदू राष्ट्र में होता। उन्होंने मन ही मन में दृढ़ संकल्प भी किया होगा कि एक दिन वह भारत को भी नेपाल की तरह हिंदू राष्ट्र बना देंगे लेकिन वे नहीं जानते थे कि बहुत जल्द नेपाल भी हिंदू राष्ट्र नहीं रहेगा बल्कि धर्मनिरपेक्ष राज्य में बदल जाएगा। उस समय मोदी जी इस क्रांति का मूल्यांकन नहीं कर सके इसी लिए आज भारत नेपाल संबंध इस कगार पर पहुंच गए। मोदी जी शायद नहीं जानते कि देश या विदेश में अपने लोगों के सामने भाषणभाजी और सफल कूटनीति में बहुत बडा अंतर है।⁠⁠[10/14/2

نیپال: ہندو راشٹرمیں سرخ پرچم کو زعفرانی پرنام



سابق وزیراعظم سشیل کوئرالا کو ۲۴۹کے مقابلے ۳۳۸ ووٹ سے ہرا کر معمر اشتراکی رہنما  کھڈگا پرشاد اولی نیپال  کے۳۸ ویں وزیراعظم بن گئے ۔  ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس طرح وزیراعظم نریندر مودی  کی تاجپوشی کے وقت  سشیل کوئرالا سب سے پہلے  دہلی  کی دعوت پر لبیک  کہہ کر دوڑے چلے آئے تھے اس طرح مودی جی بھی  قرض کی ادائیگی کیلئے کٹھمنڈو  تشریف لےجاتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔  وہ تو  خیراولی کو مودی کی طرح کا خودنمائی کا شوق نہیں تھا ورنہ اگر وہ کسی  کواپنے رسم حلف برداری میں شرکت کی دعوت دیتے تو وہ  نریندرمودی نہیں بلکہ شی جین پنگ ہوتےحالانکہ بقول  اڈوانی جی جس طرح مودی جی کے اقتدار میں کانگریس کی نااہلی کا بڑا کردار ہے عین  اسی طرح اولی جی کی وزیراعظم منتخب ہو جانے میں مودی جی کابہت بڑا  حصہ ہے۔ مودی جی کی دادا گیری نے نیپالی عوام اور سیاستدانوں کو نہ صرف ہندوستان کا بلکہ ہندوستان کیلئے نرم خو کوئرالا کا بھی دشمن بنا دیا۔ ایک سال قبل  کھڈگا کو خبط الحواس کہنے والے   ماؤ نوازتک ان کے حامی بن گئے اور وہ وزیراعظم کی کرسی پر متمکن ہوگئے۔
وزیراعظم بن جانے کے بعد  مودی جی کو  غیر ملکی دوروں کی اس قدر عجلت تھی کہ فوراً اعلان ہو گیا وہ پہلا دورہ جاپان کا کریں گے  لیکن جاپان جانا احمدآباد جانے جیسا تو تھا نہیں اس لئے مودی  جی بھوٹان کیلئے نکل کھڑے ہوئے ۔ بھوٹان جانے کیلئے وزیراعظم تو درکنارایک عام ہندوستانی کیلئے بھی کوئی دقت نہیں ہے جہاں تک ضرورت و اہمیت کا تعلق ہے ان باتوں پر غوروفکر کرنے کی وزیراعظم کو فرصت نہیں ہے۔ بھوٹان سے واپس آنے کے بعد  بھی مودی جی کا چنچل من شانت نہیں ہوا تو ممکن ہے کسی نے مشورہ دیا ہو گروجی نیپال کے پشو پتی ناتھ مندر میں جاکر شانتی کا کشٹ کرو ۔ وہاں پوجا پاٹھ کے بعدمودی جی نے ٹویٹ کیا میں نہایت خوش بخت محسوس کررہا ہوں ۔
پشو پتی ناتھ مندر میں مودی جی نے  خوش ہو کرتقریباً ۴ کروڈ کی صندل اور ۹ لاکھ کا گھی دان کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  کیا وہ دولت سرکاری خزانے سے خرچ کی گئی تھی؟ اگر ہاں تو کیا مودی جی عوام کے ٹیکس کا روپیہ کسی نجی ادارے پر خرچ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں؟ اگر وہ ان کی ذاتی  دولت تھی تو اچانک وزیراعظم بنتے ہی وہ ان کے ہاتھ کہاں سے آگئی ۔ ان کی دوماہ کی جائز تنخواہ تو  چار کروڈ نہیں ہے۔ انتخابی حلف نامے میں جمع پونجی کا اندراج  تو صرف ایک کروڈ ۶۵ لاکھ تھا ۔ اگر وہ رقم کسی دوست  نے انہیں تحفہ میں دی تھی تو وہ کالا دھن تھا یا سفید یعنی  اس پر انکم ٹیکس ادا کیا گیا تھا یا نہیں؟ جو شخص بار بار سینہ ٹھونک کریہ اعلان کرتا ہو کہ اگر میرے اوپر کوئی بدعنوانی کا الزام ہو تو بتاو؟  اسے چاہئے کہ وہ ان سوالات کے جواب دے یا کھوکھلی دعویداری بند کردے۔
پشو پتی ناتھ مندر سے مودی جی بھگوا وستر دھارن کرکے جب باہر نکلے تو ان گلے میں رودراکش کی مالا اور ماتھے پر چندن کا تلک  ایسے سجا  تھا گویا مہارشی جی دہلی کے بجائے سیدھے کیلاش پربت کوچ کرنے والے ہیں۔  خیر بعد میں پتہ چلا کہ ایسے مناظر ہر غیر ملکی دورے پر دیکھنے ملیں گے کہیں وہ  کوٹ پہن کرڈھول بجا رہے ہیں ہوں گے تو کہیں  ہیٹ پہن کر بین بجا رہے ہوں گے جیسا دیس ہوگا ویسا  ہی بھیس ہوگا ۔وہ تو خیر امارات کے دورے پر مسجد میں جاتے ہوئے انہوں نے عربی کندورہ نہیں پہن لیا ورنہ غضب ہوجاتا۔ مندر سے واپس ہوتے ہوئے انہوں نے زائرین کی  بیاض میں لکھا کاشی (جو ان کے حلقہ انتخاب میں واقع ہے) اور پشوپتی یکساں ہیں ۔ وہ نیپال اور ہندوستان کو متحد رکھتے ہیں ، میں پرارتھنا کرتا ہوں کہ ان کا آشیرواد دونوں ممالک  کی عوام پر جاری و ساری رہے‘‘۔  اس ایک سال کے عرصے میں مودی جی نے پشو پتی ناتھ کے آشیرواد کو بھی رائیگاں کردیا اوردیکھتے دیکھتے ہندنیپال اتحاد پارہ پارہ ہوگیا ۔    
 امریکہ کے علاوہ نیپال ہی وہ ملک ہے جہاں کا دورہ مودی جی اس دوران دو بار کیا ۔ مودی جی کے امریکہ آنے جانے کا فائدہ  توپاکستان کو یہ ہوا کہ  امریکہ نے اس کے ساتھ جوہری معاہدے  کی پیشکش کردی اور جو کامیابی  سابق وزیراعظم منموہن  سنگھ نے برسوں کی محنت سے حاصل کی تھی اس کی راہ ہموار نواز شریف  کیلئے آسان ہوگئی۔  نیپال کی آمدورفت کے نتیجے میں وہ ہندوستان کے بجائے چین سے قریب تر ہوگیا ۔  یہی وہ سفارتی کارنامے ہیں جن کے سبب مودی جی کا موازنہ پنڈت نہرو سے کیا جاتا ہے جنہوں نے غیرجانبدار تحریک کی ایسے قیادت کی تھی کہ مٹھی بھر استعماری طاقتوں کے علاوہ ساری دنیا کے ممالک ایک پرچم تلے جمع ہوگئے۔
وزیراعظم کا دوسرا نیپال  دورہ بھی کم دلچسپ نہیں تھا ۔ ویسے تو انہیں سارک کانفرنس میں شرکت کیلئے جانا تھا لیکن اچانک وشوا ہندو پریشد کو یاد آگیا کہ سیتا کامیکہ جنک پوری نیپال کے حدود میں واقع ہے اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رام بھکت مودی نیپال جائیں اور راجہ جنک کے دربارمیں حاضری نہ دیں ۔ ان لوگوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ مودی جی جلسۂ عام کا اعلان کردیا اور ایودھیا سے برات نما یاتر ا لے کر جنک پوری کی جانب نکل پڑے ۔ مودی جی کے استقبال اورخطاب عام کی تیاریاں زور  و شور سے شروع ہو گئیں ۔  اس دوران سنگھ پریوار نے سوچا نیپال تو ہندو راشٹر ہے وہاں رام بھکتوں کو سیتا کی میکے میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟ وہ بیچارے  بھول گئے کہ کل یگ میں  نیپال اکھنڈبھارت  کا حصہ نہیں بلکہ ایک خودمختار ملک ہے  اور وہاں کی حکومت کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔  جنک پوری کی ترائی میں رہنے والے مدھیشی باشندوں کو  ویسے بھی پہاڑی نیپالی شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں  ایسے میں وہ مودی جی کو وہاں خطاب عام کی اجازت دینے کی غلطی وہ کیسے کر سکتے تھے۔ خیرحفاظتی وجوہات کا بہانہ بنا کرجلسہ منسوخ کیا گیا اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
 مودی جی کو  نیپالیوں کے تیور سے ہوا کے رخ کا اندازہ  لگانا چاہئے تھا لیکن کسی بھی خود پسند انسان کیلئے یہ بہت مشکل کام ہے۔ انہوں کٹھمنڈو کے اندر نیپالی حکومت کو دستور سازی کے حوالےسے ہدایات جاری فرماتے ہوئےتاخیر کے نتائج سے خبردار کیانیز اکثریت کے بجائے اتفاق رائے  سےدستور جاری کرنے کی تلقین کرڈالی ۔ اس طرح کی عوامی  غلطی تو وائسرائے لارڈ کرذن نے بھی دستور ہند  کے وقت نہیں کی تھی بلکہ  قبل  پنڈت  نہرو کے پاس  صرف اپنا ایک نمائندہ بھیجنے پر اکتفاء کیا تھا   ۔ مودی جی اگر جانتے کہ پنڈت نہرو نے لارڈکرذن کے نمائندے کو کیا کہہ کر لوٹا دیا تھا تو وہ اس کی حماقت کو  دوہرانے کی جرأت نہیں کرتے۔
 مودی جی سے دستور کی تکمیل کے بعد خارجہ سکریٹری  ایس جئے شنکر کو اپنا خصوصی ایلچی بنا کر نیپال بھیجنے کی جو فاش غلطی  سرزد ہوئی اس  نےہند نیپال تعلقات کو ناقابلِ اصلاح نقصان پہنچایا۔ جئےشنکر کی پیش کردہ تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے ماؤنواز پشپا کمار داہل نے واضح انداز میں کہا کہ  نیپالی کسی بھی جانب سے کوئی ایسا دباو برداشت نہیں کریں گے جس سے خودمختاری پر حرف آتا ہو۔ ہم ہندوستان کے جی حضورئیے نہیں ہیں۔  وزیراعظم کھڑگ پرشاد اولی نے کہا ؁۱۹۵۰ کا وہ زمانہ لد گیا جب ہندوستانی سفیر نیپالی ایوانِ پارلیمان میں بیٹھا کرتا تھا  یا حکومت ہند بادشاہت کے خلاف سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کرتی  تھی اور گروہی رہنماوں کو اپنے قابو میں رکھتی تھی۔
جئے شنکر نےکٹھمنڈو میں  جاکر ایسے مدھیشی رہنماوں سے ملنا جو انتخابات میں ناکام ہوچکے ہیں۔ یہ پاکستانی خارجہ سکریٹری  کےکشمیری علٰحیدگی پسند رہنماوں سے ملاقات جیسا  عمل تھا جس پر پابندی کے سبب  ہند پاک گفتگو میں رخنہ پڑ گیا۔  یعنی جس سفارتکاری کی اجازت ہم پاکستان کو  دہلی میں اس لئے نہیں نہیں دیتے کہ وہ ہماری خودمختاری کے خلاف ہے  وہی حرکت کٹھمنڈو میں جاکر کرنے کو درست سمجھتے ہیں ۔جئے شنکر کی پیش کردہ تجاویز  کونیپال  کے داخلی معاملات میں مداخلت کیوں سمجھا گیا یہ جاننےکیلئے  ان پر ایک  غائرنظر ڈالنا کافی ہے۔ان تجاویز دستور کی مختلف شق کا حوالہ دے کر  اس طرح احکامات صادر کئے گئے ہیں ۔   دفع ۶۳(۳)مدھیشیوں کیلئے آبادی کے تناسب سے حلقہ ہائے انتخابات  اور دفع ۲۱ میں ریاستی ڈھانچے میں ان کی متناسب نمائندگی ۔ دفع ۸۶ میں تبدیلی کرکے مدھیشیوں کی آبادی کے لحاظ سے ایوان میں نمائندگی ۔ کیا ہندوستان میں قومی سطح پر ریاستی سطح پر اقلیتوں کو ان آبادی کے لحاظ سے  متناسب نمائندگی حاصل  ہے ۔ جس بی جے پی نے گجرات کے مسلمانوں کو۱۲ سال سے ایم ایل اے کا ٹکٹ  تک نہیں دیا اور جس کے منتخب شدہ ۲۸۲ ارکان  پارلیمان میں  ایک مسلمان یا عیسائی نہیں ہے اس کا نیپال میں جاکر متناسب نمائندگی کا مطالبہ کیا مضحکہ خیز نہیں ہے۔   دفع ۱۵۴ میں حلقہ ہائے انتخاب میں ترمیم کی مدت کو ۲۰ سال سے گھٹا کر ۱۰ سال کرنے کی تجویز دی گئی ۔ اس طرح کے انتظامی فیصلے  تو ہندوستان کے اندر  کسی صوبائی حکومت  کیلئے  بھی جاری نہیں کئے جاتے  کجا کہ کسی پڑوسی ملک کے ساتھ یہ کیا جائے۔  
مودی  سرکار کے لئے دستور  میں دوباتیں  سب سے زیادہ پریشان کن تھیں اول تو نیپال کو ہندو راشٹر کے بجائے لامذہبی (سیکولر)جمہوری ریاست قرار دیاجانا  لیکن اس کی مخالفت کرنا اس لئے ممکن نہیں تھا کہ خود ہندوستان ہنوز ایک سیکولر جمہوریہ ہے ۔ دوسرا مسئلہ دستور کی دفع ۲۸۳ ہے جس کے تحت کسی ایسےشخص  کاجس کے والدین نیپالی نہ ہوں  صدر ، وزیراعظم یا چیف جسٹس کے عہدے کا اہل نہ ہونا۔ جئے شنکر نے تجویز پیش کی کہ نکاح  کی بنیاد پر شہریت اختیار کرلینے  والے کو  ان عہدوں کا حقدار ہونا چاہئے۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندوستان کو اس سے کیا غرض کہ نیپال میں سربراہی کا حقدار کون ہے اور کون اس سے  محروم ہے؟ سونیا گاندھی کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کی مخالفت خود بی جے پی نے جس بنیاد پر کی تھی  کیا وہ لوگ اسے بھول گئے ہیں؟
نیپال کے دستور ان طویل اصلاحات  کی تکمیل ہے جن کا آغاز ؁۱۸۵۴ میں  جنگ بہادر رانا نے ملکی آئین جاری کرکے کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پدما شمشیر رانا نے ؁۱۹۴۵ میں دستور سازی کی ابتداء کی اور ؁۱۹۴۸ میں جو دستور بنا اس میں بادشاہت تو موجود تھی لیکن ایک طاقتور وزیراعظم پر زوردیا گیا تھا ۔  وقتاً فوقتاً مختلف بادشاہ اپنے اقتدار کی خاطر دستور کو پامال کرتے رہے  اور سیاسی جماعتیں اس کا مطالبہ کرکے معتوب ہوتی رہیں ۔ ؁۱۹۷۹ میں راجہ بریندر نے دستوری اصلاحات کیلئے ۱۱ رکنی کمیشن قائم کیا اور ؁۱۹۹۰ میں احتجاج کے سبب نیا دستور تسلیم کرنے پر مجبور کردئیے گئے جس سے ان کے اپنے اختیارات محدود ہوگئے ۔ ؁۱۹۹۶ میں اشتراکی بغاوت نے زور پکڑا دس سال بعد ؁۲۰۰۶ میں ایک امن معاہدہ طے پایا۔ اس کے باوجود آئین سازی کا کام مختلف وجوہات کی بناء پر ٹلتا رہا اور بالآخر ۶۰۱ ارکان پر مشتمل دستور ساز اسمبلی نے واضح اکثریت کے ساتھ اسے منظور کرلیا ۔ جن مدھیشیوں کی خاطر حکومتِ ہند پریشان ہے  ان کے ۶۹  نمائندوں نے دستور سازی کا بائیکاٹ  کیا جبکہ ہندوراشٹر کے حق میں  صرف ۲۱ افراد نے رائے دی ۔
نئے آئین نے آئین ساز اسمبلی کو باقائدہ ایوان پارلیمان میں تبدیل کردیا۔ اس آئین میں اقتصادی مساوات اور سماجی انصاف اور مساوات  پر مبنی  معاشرہ بنانے کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کے دیباچے میں کثیر جماعتی جمہوری نظام، شہری آزادی، نسانی حقوق، حق رائے دہندگی، اظہار رائے کی  آزادی، آزاد اور منصفانہ عدلیہ اور قانون و سوشلزم کی بنیاد پر ایک آنند پورن(خوش کن)  سماج کے تعمیر کی بات کہی گئی ہے۔ صدر مملکت کو سربراہ ریاست ہیں مگر متناسب انتخابی نظام  کی بنیاد پر منتخب شدہ  کابینہ کو برتری حاصل ہے۔ ۲۰ ستمبر کو دستور کے منظور ہوتے ہی  عوام  اس کا جشن منانے کیلئے سڑکوں  پر اتر آئے۔ ساری دنیا سے مبارکباد کے پیغام موصول ہونے لگے لیکن حکومت ہند نے نہ صرف اس سے احتراز کیا بلکہ اظہار ناراضگی کے طور پر اپنے سفیر کو دہلی میں طلب کرلیا ۔

ہندوستان کی ناراضگی کے جواب میں نیپالی وزیر اعظم نے کہا کہ اصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ آئین قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے لیکن جہاں ایسا ممکن نہ ہو تو بھاری اکثریت سے منظور کردہ آئین کا خیر مقدم ہونا چاہیے  نیز آئین کواکثریت یا اتفاق رائے کی سے تشکیل دینا نیپال کا اندرونی معاملہ ہے، بھارت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ حکومتِ ہند کےمنفی ردعمل نے نیپالی عوام کو نہ صرف مایوس کیا بلکہ ان کے اندر غصے اور ناراضگی کی ایک لہر دوڑادی ۔ نیپال ایک گھرا ہوا  ملک ہے اوراسکا بیرونی دنیا سے بری رابطہ ہندوستان کی مرہونِ منت ہے۔ اس کی تجارت کا تقریبا ۶۵ فیصد ہندوستان سےہے۔ نیپالی عوام کی تمام اہم ضروریات زندگی مثلا پیٹرول ، کھانے کا تیل، آٹا سبزیاں اور گارمنٹس ہندوستان سے جاتی ہیں۔  دستور کی تیاری کے آخری مراحل میں ترائی کے اندر حفاظتی دستوں کے خلاف تشدد پھوٹ پڑا۔ ابتداء میں پولس والے مارے گئےپھر بعد ان کی جانب سے بھی زیادتی شروع ہوگئی۔ دستور کی منظوری کے بعد مدھیشیوں کے احتجاج کا بہانہ بنا کر ہندوستان کی جانب سے جانے والی آمدورفت بند کردی گئی اور بلااعلان ؁۱۹۷۵ کی طرح کا معاشی مقاطعہ نافذ کردیا گیا۔  
اس اقدام کے سبب ہندوستان نواز نیپالی کانگرس بھی دہلی سرکار کی جارحانہ روش کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوگئی ۔ نیپال کےسیاسی رہنماوں نےاقتصادی ناکہ بندی کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپنا کردار نبھانے کی اپیل کی ہے ۔ تین اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نیپال کے نائب وزیر اعظم ’’ پرکاش مان سنگھ ‘‘ نے کہا ہے کہ پچھلے دو ہفتوں سے نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی ایشیاء اور پٹرول ڈیزل وغیرہ کی شدید قلت کے سبب پونے تین کروڑ نیپالی عوام سخت مشکلات کا شکار ہیں اور آنے والے دنوں میں بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
مودی جی کو اس بیجا مداخلت کے نتائج  کا احساس ہوتا تو وہ  اپنے دورے کے موقع پر یہ نہ کہتے کہ میں نے تو چند ماہ کے اندر نیپال کا دورہ کرلیا جبکہ  منموہن سنگھ دس سالوں میں نہ کرسکے۔ اس دوران  نیپال میں دستور سازی کا عمل جاری تھا۔ اس لئے حکومت ہند در پردہ جو کچھ کرسکتی تھی کرتی رہی لیکن اعلانیہ مداخلت سے احتراز کیا گیا تاکہ اس کا منفی ردعمل نہ ہو لیکن جلد باز طبیعت کے مالک مودی جی اس نزاکت کو نہیں بھانپ سکے  اور اپنی ناتجربہ کاری کے سبب برسوں کی محنت پر پانی پھیر دیا۔  ایک نیپالی سفارت کار کے بقول ’’ نیپال میں بھارت مخالف جذبات اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ انہیں معمول پر آنے میں  شاید کئی عشرے درکار ہوں  ‘‘۔ اس لئے کہ  بقول  نیپال کےایک دانشور امیت ڈھا کل جئے شنکر کے پاس اپنے آقا کا کوئی پیغام نہیں بلکہ صرف دھمکی تھی ۔ جس دھمکی کا خدشہ ڈھاکل نے ظاہر کیا تھا غالباًاس کو عملی جامہ پہنایا جاچکا ہے۔
اپنے راج ابھیشیک کے بعد پشوپتی ناتھ مندر سے نکلتے ہوئے مودی جی کے دل میں  یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ پشو پتی ناتھ کی طرح  کا ش کاشی وشوناتھ بھی ہندو راشٹر میں ہوتا ۔ انہوں نے من ہی من میں عزم بھی  کیا ہوگا کہ ایک دن وہ ہندوستان کو بھی نیپال کی طرح ہندوراشٹر بنا دیں گے لیکن وہ نہیں جانتے تھے  کہ بہت جلد خود نیپال بھی ہندوراشٹر نہیں رہے گا بلکہ سیکولر راجیہ میں تبدیل ہو جائیگا۔   اس وقت چونکہ مودی جی اس انقلاب کا اندازہ نہیں کرسکے اس لئے آج ہند نیپال کے تعلقات  میں  کشیدگی  پر یہ شعر صادق آرہا ہے ؎
جب شکل آئینے میں ہماری بگڑ گئی                  احساس تب ہوا ہمیں شیشے کے بال کا

Tuesday 6 October 2015

گاندھی جینتی: گاندھی جی اب دیکھ لیں آ کر اپنا ہندوستان

ن میں تین  موسم کی مانند تین قومی دن بھی  ہیں ۔گرما گرم یوم آزادی ا ور ٹھنڈا ٹھنڈا یوم جمہوریہ ۔ ان کے علاوہ موسمِ باراں یعنی گاندھی جینتی ۔ ان تینوں مواقع پر صدر جمہوریہ قوم کے نام ایک پیغام نشر کرتے ہیں۔ اس بار گاندھی جینتی کے موقع ’پرنب دا ‘ نے اپنے پیغام میں کہا : ’’ گاندھی جینتی ایک ایسا مخصوص دن ہے ، جب ہمیں اپنے آپ کو بابائے قوم مہاتما گاندھی کے عدم تشدد ،امن اور رواداری کے آدرشوں کے تئیں وقف کردینا چاہئے ‘‘۔ گاندھی جی بنیادی طور انہیں تین اصولوں کے  علمبردار تھے۔ لیکن کل یگ کے گاندھی وادیوں نے گاندھی جی کی لاٹھی کو جھاڑو میں تبدیل کرکے ’’سوّچھ بھارت‘‘ سے جوڑ دیا ہے۔ ہاتھ کی صفائی سےاہنسا(عدم تشدد) کا ’الف ‘ نکال کر اسے ہنسا (تشدد)میں اور شانتی کے پہلے الف  لگا کر اسے اشانتی (بدامنی)میں بدل دیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ چہار جانب تشدد کا بازار گرم ہے  اور بدامنی کا دور دورہ ہے۔  رواداری کے فقدان کی  سب سے بڑی مثال دادری میں ایک فوجی سرتاج کے والد اخلاق اور بھائی دانش  کا بہیمانہ قتل ہے۔؁۲۰۰۷ میں اقوامِ متحدہ نے گاندھی جی کےیومِ پیدائش کو ‘بین الاقوامی عدم تشدد کا دن‘ قرار دیاتھاممکن ہے حالیہ واقعات کے  بعدیہ عالمی ادارہ اس دن کی موزنیت پر نظر ثانی کیلئے مجبور ہو جائے۔
اس سال ۲ اکتوبر کو جہاں بڑےسیاسی رہنما گاندھی سمادھی راج گھاٹ پر خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے پہنچے وہیں وزیر ثقافت مہیش شرما اور اسدالدین اویسی بساہڑا گاوں کے محمداخلاق کے گھر ان کے اہل خانہ کی تعزیت کیلئے گئے۔ محمد اخلاق کی موت اس قدر اہم کیوں ہو گئی کہ اگلے دن اروندکیجریوال اور راہل گاندھی نے بھی ان کے گھر  جانے کی زحمت کی ؟ یہ ایک اہم سوال ہے؟  اس سوال کا جواب آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کے اس بیان میں پوشیدہ ہے جو انہوں نے مہاتما گاندھی کی موت پر دیا تھا ’’ وہ روشنی ہم سے رخصت ہورہی ہے جو جانے کے بعد بھی ہزاروں برس بعد بھی ہماری زندگیوں کو منورکرتی رہے گی۔گاندھی جی کے آدرش ہماری اجتماعی زندہ وراثت کی حیثیت رکھتے ہیں ‘‘۔ مذہبی رواداری اور گئو کشی کے متعلق گاندھی  جی کا آدرش تو یہ تھا کہ’’ہندوستان میں گئو کشی کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۰۰۰۰میں عرصۂ دراز سے گائے کی خدمت کا حلف بردار ہوں لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میرا مذہب بقیہ ہندوستانی شہریوں کا بھی مذہب ہوجائے؟ اس کے معنیٰ ان لوگوں کے خلاف جبر ہوگا جو ہندو نہیں ہیں‘‘۔پنڈت جی کی قیادت میں کانگریس نے   اتر پردیش میں گئوکشی کی ممانعت  کا قانون بنا کرگاندھی جی  کی وراثت گنوا دی۔
اس قانون کے مطابق گائے بیل  ذبح کرنا ، اس کا  تعاون کرنا  یعنی گوشت بیچنا اور اس  کا حمل و نقل قابلِ تعزیر  جرم قرار پایا۔  اس کا ارتکاب کرنے والے کیلئے زیادہ سے زیادہ ۷ سال قید بامشقت اور دس ہزار روپئے جرمانہ  کی سزا تجویز کی گئی۔  ہوائی جہاز اور ریل گاڑی کے مسافروں کو بڑے کا گوشت بیچنے  کی بابت استثناء دیا گیا۔ اس قانون میں بڑے کا گوشت کھانے والے کا کوئی ذکر نہیں ہے  یعنی اگر کوئی  مسافرریلوے اسٹیشن یا ہوائی جہاز سے بڑے کا گوشت ا پنے ساتھ لے آئے اور کھائے تو یہ جرم نہیں ہے۔  ایسے میں محمد اخلاق کے گھر میں رکھےہوے گوشت کے تجربہ گاہ  میں بھیجنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا ۔ اگر اخلاق نے گائے ذبح بھی کی ہو تی تب بھی  تو اس کی سزا موت نہیں ہے اور اس سزا کوبحال کرنے کا حق کسی دہشت گرد بھیڑ کو نہیں بلکہ عدالت کو حاصل ہے لیکن ان باتوں  پر وہی توجہ دے سکتا ہے جو قانون کی حکمرانی میں یقین رکھتا ہو۔ جسے اپنی من مانی کرنی ہو؟ جو جانتا ہو کہ قتل غارتگری کے بعد وہ بھی  مظفر پور فساد کےملزم سنگیت سوم کی طرح  بری ہوجائے گا تو بھلا  ان باتوں پر وہ کیوں کان دھرے؟
اتر پردیش حکومت سےترغیب  پاکر ؁۱۹۵۵ کے اواخر میں بہار کے اندر بھی گئو کشی پر پابندی لگا دی گئی۔ اس قانون میں مجرم پائے جانے والے شخص کیلئے صرف ۶ماہ  تک کی سزا تجویز کی گئی تھی اور جرمانے کی رقم بھی بیش از بیش۱۰۰۰  روپئےتھی۔  اس قانون کے اطلاق سے مذہبی مقاصدکیلئے وقف شدہ بیلوں کومذہبی  طورطریقہ سے ذبح   کرنا مستثنیٰ قرار دیا گیا لیکن یہ انتظامیہ کے اجازت نامہ سے مشروط تھا ۔ مدھیہ پردیش میں جب قانون بنا تب بھی انتظامیہ کی اجازت سے مذہبی اور طبی تحقیق کی خاطر   بھینس کے  ذبیحہ کی اجازت تھی۔ سزا زیادہ سے زیادہ ایک سال  اور جرمانہ صرف ایک ہزار روپئے طے کی گئی  تھی۔کسی  سر پھری بھیڑ کوبڑے جانور کا گوشت کھانے والے کو قتل کرنے کا پروانہ نہیں کسی قانون نے نہیں  دیا۔
 دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام قوانین میں ذبیحہ کی خاطر گائے بیل کا حمل و نقل  اور خریدو فروخت قابل تعزیز جرم ہے۔ فی الحال ہندوستان بڑے کا گوشت برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اس لئے ظاہر ہے جن ریاستوں میں بڑے مذبح  خانے ہیں ان کے آس پاس والی ریاستوں سے بھی جانور وہاں لائے جاتے ہوں گے نیز ان کا گوشت جن بندرگاہوں سے برآمد کیا جاتا ہے مثلاً ممبئی وہاں بھی نقل و حمل کا کام ہوتا ہی ہوگا لیکن یہ قانون ان بڑے سرمایہ داروں پر بھی اسی طرح نافذ نہیں ہوتا جیسے پانچ ستارہ ہوٹلوں کو دولت کے زور پر استثناء مل جاتا ہے۔گزشتہ انتخابی مہم میں گلابی انقلاب کی اصطلاح ایجاد کرکے عوام کو ورغلا یا گیا تھا لیکن نئی حکومت کے پہلے سال میں برآمد پر پابندی تو درکنار اس میں اضافہ ہوگیا۔جو جین سماج اپنے تہوار کے دوران گوشت خوروں کو سبزی کھانے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ خود اپنے سماج کے مخیر حضرات کو   بڑے جانور کا گوشت برآمد کرنے سے نہیں روکتا۔    
؁۱۹۵۸ کے اندرگئو کشی پر پابندی لگانے والے قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ پانچ ججوں کے سربراہ چیف جسٹس ایس آر داس نے گائے اور بچھڑوں کے علاوہ دوسرے بڑے جانوروں کے ذبیحہ کی اجازت دے دی۔  سپریم کورٹ نے یہاں تک کہا بے کار جانوروں کو پالنا قومی نقصان ہے ان کا ذبیحہ غریبوں کی غذا ہے۔ چیف جسٹس نے اعتراف کیا کہ بڑے جانور کا گوشت عام آدمی کی خوراک ہے۔  اس فیصلے کے ۴۷ سال بعد ؁۲۰۰۵ میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ بدل کر گجرات میں لگی مکمل پابندی کو حق بجانب قرار دے دیا۔ جسٹس لاہوتی نے ۷ رکنی بنچ کا اکثریتی فیصلہ سناتے ہوئےکہا کہ ۴۷ سال بعد بڑے جانور کا گوشت ہی غریب آدمی کیلئے پروٹین والی عام غذا نہیں ہے۔ ملک میں غذا کی پیداوار خاصی بڑھ گئی ہے مسئلہ غذائی اشیاء کی منصفانہ تقسیم ہے۔
عدالت نے مذہب کے بجائے معیشت  اور غذائیت کی بنیاد پر فیصلہ کیا اور  گوبر کو کوہ نور ہیرے  کا ہم پلہ قرار دےدیا ۔ اصل معاملہ مذہبی نہیں بلکہ  معاشی و سیاسی ہی ہے۔ قانون کے تحت جانور کو ذبح کرنے اور اسے بیچنے پر پابندی ہے کھانے پر نہیں ۔اس پر عملدارآمد اس طرح سے ہونا چاہئے تھا کہ بیف کی درآمد میں اضافہ ہوتا ۔ یہ جانور دیگر ممالک میں کٹتے اور یہاں ان کی کھپت ہوتی لیکن اس کے برعکس درآمد کے بجائے برآمد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے جانور تو اب بھی زور و شور سے ذبح کئے جارہے ہیں اور ان کا گوشت بیچا بھی جارہا ہے یعنی قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ فرق  یہ ہے کہ پہلے عام ہندوستانی یہ جانور خریدتا تھا اور اسے ذبح کرکے عام ہندوستانی کو بیچ دیتا تھا اس طرح گویا اس کاروبار سے عام لوگوں کا فائدہ ہوتا تھا۔
ماضی میں  جو جانور ذبح کئے جاتے تھے وہ اب بھی نہ تو گئو شالاوں میں پلتے ہیں اور نہ سڑکوں پرایڑیاں رگڑ کر  مرتے ہیں بلکہ پہلے کی طرح چند خاص سرمایہ داروں کے نجی مذبح خانوں میں ذبح کئے جاتے ہیں  ۔تجارت سے وہ سرمایہ کار مستفید ہوتے ہیں اور اپنا فائدہ سیاستدانوں کے ساتھ بانٹ کر عیش کرتے ہیں ۔ وزیراعظم نے انتخابی مہم کے دوران اعتراف کیا تھا کہ ان کے جین دوست بھی اس کاروبار میں ہیں اب بھلا اقتدار میں آنے کے بعد اپنے دوستوں کو کون ناراض کرسکتا ہے؟ جہاں تک عوام کا تعلق ہے مذہبی جذبات کو گئو ماتا کے نام پر بھڑکا  کر انہیں با آسانی بے  وقوف بنایا جاسکتا ہے۔  
اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ مغربی بنگال میں گئو کشی پر پابندی نہیں ہے ۔ یہاں سے کچھ بڑے جانور سرحد پار کرکےبنگلا دیش بھی  بھیج دئیے جاتے تھے۔ اب اسے اسمگلنگ قرار دے کر بند کردیا گیا تاکہ وہ جانور ان بڑے مذبح خانوں میں آسکیں جن سے گوشت برآمد کیا جاتا ہے گویا پہلے اس کاروبار سے بڑے پیمانے پرغریب بیچنے والےاور بنگلا دیش کےغریب کھانے والےمستفید ہوتےتھے اب  اس سے امیر بیچنے والے اور یوروپ و خلیج کے خوشحال  کھانے والے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ جمہوریت کی بابت یہ غلط فہمی پیدا کردی گئی ہے اس میں ووٹ کو نوٹ پر فوقیت حاصل ہے۔ استثنائی صورتحال میں کبھی کبھار مثلاً ایمرجنسی کے بعد اس کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔
ووٹ اور نوٹ کےتفاوت  کی کئی وجوہات ہیں ۔ ووٹ ایک خودرو فصل کی مانند ہر انتخاب کے وقت بغیر کسی محنت مشقت کے اپنے آپ اگ جاتا ہے اس لئے اس کی خاص اہمیت نہیں ہوتی لوگ اسے ایک شراب کی بوتل کے عوض بھی بیچ دیتے ہیں۔ ووٹ کا استعمال بہت زیادہ سوچ سمجھ کر نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس اکثر و بیشتر نوٹ کما نے کیلئے کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے بڑے غورو فکر کے بعد اسے کہیں لگایا جاتا ہے ۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ ووٹ کا استعمال مجبوری ہوتی ہے اگر انتخاب کے وقت اسے استعمال نہ کیا جائے تو وہ ضائع ہوجاتا ہے جبکہ نوٹ ضائع نہیں ہوتے اسے مناسب موقع تک سینت کر رکھا جاسکتا ہے۔ نوٹ کے کاروبار میں نفع نقصان کا حساب کتاب آسان ہوتا ہے ووٹ کے دھندے میں یہ ناممکن ہوتا ہے۔ نوٹ دینے والے مٹھی بھر لوگوں کو خوش کرنا بھی سہل تر ہے لیکن ووٹ دینے والے کروڈوں لوگوں کی فلاح و بہبود ایک مشکل تر کام ہوتا ہے اس لئے سیاستداں اس بکھیڑے میں نہیں پڑتے۔ آخری بات عام آدمی کو ورغلانا   سیاستدانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل  ہےمگر سرمایہ داروں کو فریب دینا جوئے شیر لانا ہے۔
جن  قوانین کا اوپر ذکر ہوا وہ تو خیر آزادی کے بعد وضع کئے گئے لیکن جموں کشمیر  کا دستور ڈوگرراجہ رنبیر سنگھ کے زمانےکا بنایا ہوا ہے اس لئے اسے آئی پی سی کے بجائے آر پی سی یعنی رنبیر پینل کوڈ کہا جاتا ہے۔  ؁۱۸۶۲ میں وہاں  گائے ذبیحہ پر پابندی لگائی گئی ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے کیلئے دس سال کی سزا  اور گوشت رکھنے پر ایک سال کی سزاتجویز کی گئی  ہے۔ یہ قانون ابھی تک صرف کتابوں کی زینت بنا ہوا تھا  اور کسی کو اس پر عملدآمد کا خیال تک نہیں آیا تھا   لیکن  بی جے پی  کی مرکزی حکومت اور ریاستی اقتدار میں حصہ داری  کے بعد وکیل پرموکش سنگھ نے عوامی مصلحت  کے قانون کے تحت کا ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ داخل  کردیا اور اس قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔  جسٹس دھیرج سنگھ ٹھاکر اور جسٹس جنک راج کوتوال نے  فوراً ڈائرکٹر جنرل پولس کو حکم دیا کہ وہ قانون  کے نفاذ کو یقینی بنائیں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دینے دھمکی دے ڈالی۔اس فیصلے کو جموں کشمیر بار کونسل    نےعوام کے بنیادی حقوق کی پامالی قرار دیااور ریاست کے اکثریتی فرقہ کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ بتایا  اور ۱۲ ستمبر کو ہڑتال کا اعلان کردیا۔
اس کے بعد دیگر ملی جماعتوں نے بھی عوامی بند کا اعلان کردیا اور ساری وادی منجمد ہو گئی ۔ مختلف رہنماوں کو اپنے گھروں میں نظر بند کردیا گیا اس کے باوجود بند کو غیر معمولی کامیابی ملی ۔اس دن  ساری ریاست میں بڑے پیمانے پر علی الاعلان بڑے جانور ذبح کئے گئے۔یہاں تک کے گورنمنٹ میڈیکل کالج کے طلباء نے بھی اپنے ہاسٹل میں اس ظالمانہ قانون کی دھجیاں اڑا دیں ۔ میر واعظ نے کہا یہ بند اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری عوام اپنے مذہبی معاملات میں  مداخلت برداشت نہیں کریں گے ۔یٰسین ملک نے اسے جبر وتسلط کو مسترد کرنے کے مترادف بتایا۔مجلس اتحاد ملت نے گوشت کے تاجروں کو یقین دلایا کہ وہ بلاخوف اپنا کاروبار کریں اگر پولس نے روکا تو مجلس اس کے خلاف خاطر خواہ  حکمت عملی اختیار کرے گی اور اگر حالات خراب ہوئے تو انتظامیہ اس کیلئے ذمہ دار ہوگا۔
جموں بنچ کے اس فیصلے کو کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا اور اس نے حکومت سے صفائی مانگ لی۔ ریاستی حکومت صفائی دینے کے بجائے سپریم کورٹ میں پہنچ گئی اور سپریم کورٹ نے دوماہ کیلئے جموں ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرکے دونوں بنچوں سے کہا وہ آپس میں بیٹھ کر اس تنازع کو سلجھائیں ۔اس قانون کی منسوخی کیلئے نیشنل کانفرنس نے پی ڈی پی کو اپنی حمایت پیش کردی ۔ اب پی ڈی پی کیلئے دھرم سنکٹ پیدا ہوگیا یاتو وہ بی جے پی کو خوش کرے یا اپنے رائے دہندگان کو راضی کرنے کیلئے نیشنل کانفرنس کے ساتھ ہاتھ ملائے لیکن اس موقع پر بی جے پی میں شامل خورشید احمد نے بیف پارٹی دینے کا اعلان کر کے سب کو چونکادیا۔ خورشید ملک جنوبی کشمیر سے بی جے پی کے ٹکٹ پر ریاستی اسمبلی  کا انتخاب لڑ چکے ہیں۔ ان کے مطابق اس دعوت میں ہندو مسلم دونوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ سبزی خور لوگوں کیلئے سبزی کا اہتمامتھا۔ انہوں نے اس دعوت کے ذریعہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ میں اضافہ کی توقع کی تھی۔ ملک سے جب  پوچھا گیا کہ کیا آپ نے پارٹی سے اجازت لی ہے تو وہ بولے کیا مجھے مسجد جانے کیلئے پارٹی سے اجازت لینی ہوگی  یہ مذہبی معاملہ ہے اس سے بی جے پی کوئی لینا دینا نہیں ۔  مذہبی معاملات میں کوئی مصالحت ممکن نہیں ہے۔ میں ایک سیاسی رہنما کے علاوہ مسلمان بھی ہوں اور عدالت ہمارے مذہبی امور میں مداخلت کررہی ہے۔
بی جے پی رہنما کا  اگریہ حال ہو توعوام کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کشمیر میں سب سے زیادہ فوج  اور نیم فوجی دستےمتعین ہیں ۔ ریاستی حکومت میں بی جے پی کا عمل دخل ہے اور مرکز ی حکومت بھی اسی کی ہے اس کے باوجود ان کی ایک نہیں چلی ۔ کسی ایسے گاوں میں جہاں چند مسلمان خاندان رہتے ہوں فوجی بیٹا گھر سے دور ہو دو سو لوگوں کا دونہتےافرادپر حملہ بول دینا پرتاپ سینا کی دلیری نہیں بزدلی اور رانا پرتاپ کی توہین  ہے ۔ ان لوگوں میں اگر ہمت ہوتی تو وادی کشمیر میں قانون نافذ کروادیتے اور کسی کو سزا دینا تو درکنار گرفتار ہی کروا لیتے لیکن یہ تو اپنی گلی کے شیر ہیں جب باہر نکلتے ہیں تو بھیگی بلی بن جاتے۔ اس نفسیات کا غماز بی جے پی کے معمر رہنما پروفیسر ہری اوم کی یہ تجویز ہے کہ کشمیر مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ اسے چار حصوں میں تقسیم کردیا  جائے۔ ایک جموں دوسرا لداخ تیسرا وادی میں پنڈتوں کا علاقہ اور چوتھا کشمیر۔ یہی خوف کی نفسیات ہے جو کسی زمانے میں تقسیم ہند کا سبب بنی تھی۔ یہ  قابل ذکربات ہے کہ کشمیر ہی وہ ریاست ہے جہاں اسمبلی  کے اندر  محمد اخلاق پر حملہ کی مذمت کرنے والی قرارداد پیش کی گئی۔
شمالی و مغربی ہندوستان کی اکثر ریاستوں میں بڑے جانور کے ذبیحہ پر پابندی ضرور ہے لیکن جنوبی و مشرقی ہند میں ایسا قانون نہیں ہے۔ گوا کے اندر بی جے پی حکومت ہے اس کے باوجود چونکہ وہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے جو بڑے کا گوشت کھاتی ہے اس لئے بی جے پی اس پر پابندی کی جرأت نہیں کرتی۔ میگھالیہ میں امیت شاہ کی آمد کے موقع پر ان کا استقبال بیف پارٹی کے ساتھ کیا گیا اور بی جے پی کے مقامی ذمہ دار  کہلور سنگھ لنگڈوہ  نے پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا بڑے جانور کا گوشت قبائلیوں کی غذا ہے ۔ یہ علاقائی معاملہ ہے اور اسے روکا نہیں جاسکتا۔ مظاہرین نے اس دن بند کا اعلان کیا اور اس طرح کی پابندی کو قبائلی مخالف جبرو استبداد قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا ۔ بی جے پی سنگھی ترجمان  رام مادھو نے اس موقع پر اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا تھا بڑے  جانورکے ذبیحہ پر پابندی کی خبر محض افواہ ہے جو غلط فہمی کا سبب بنی ۔ ہم ملک کی مختلف تہذیبوں اور مذاہب کا احترام کرتے ہیں ۔ اس موقع پر وزیر مملکت برائے داخلہ امور کرن رجیجو نے یہ کہہ کر بی جے پی کو پریشانی میں ڈال دیا تھا کہ وہ بھی بڑے جانور کا گوشت کھاتے ہیں ۔
 محمد اخلاق  کی شہادت کے بعد سنگھ پریوار کی مخالفت میں جو آتش فشاں پھٹا اس سے ان کی برسوں کی محنت سے پھیلائی ہوئی غلط فہمی روئی کے گالوں کی مانند اڑ گئی کہ ہندو بڑے جانور کا گوشت نہیں کھاتے۔  کئی دلت رہنماوں  نے علی الاعلان کہا کہ وہ بڑے جانور کا گوشت کھاتے ہیں ۔ کیرالا کے ہندووں نے محمد اخلاق کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کی خاطربڑے جانور کی بریانی کھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر ہمت ہے تو آو ہمیں قتل کرو۔اس کے علاوہ لالو یادو  نے اعتراف کیا کہ ہندو بھی بیف کھاتا ہے۔ شوبھا ڈے  نے چیلنج کیا میں نے ابھی ابھی بیف کھایا آو اور مجھے مارڈالو۔ جسٹس مارکنڈے کا ٹجو نے وارانسی ہندو یونیورسٹی کے اندر برملا کہا گائے بھی ایک جانور ہے وہ کسی کی ماں کیسے ہو سکتی ہے ۔ میرا جی چاہے تو میں بیف کھاوں گا مجھے کون روک سکتا ہے؟
 سوامی ناتھن انکلیسریانے تو ہندو صحیفوں کا حوالہ دے کر لکھا کہ میں براہمن ہوں  میرے آبا و اجداد بڑے جانور کا گوشت کھاتے تھے اور میں بھی کھاتا ہوں یہ میرا حق ہے۔ ان بیانات سے سنگھ پریوار کے دعویٰ کی قلعی کھل گئی اور اس کا کھوکھلا پن بے نقاب ہو گیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کروڈوں روپئے پھونک کر وزیراعظم نے ساری دنیا میں  ملک کا جو تاثر قائم کیا تھا وہ  اس ایک حملہ  سے ہوا ہوگیا اور ساری محنت اکارت گئی ۔ اس مرتبہ امریکی دورے کے دوران تو غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے وزیراعظم  کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی مگر محمد اخلاق پر ہونے والے تشدد کی خوب جم کر مذمت ہوئی اور سارے کئے کرائے پر پانی پھر گیا ۔ صدر اوبامہ نے وزیراعظم کے کسی کارنامہ کی تعریف و توصیف نہیں کی مگر دادری کے واقعہ پر اپنی ناراضگی کا برملا اظہار ضرور کردیا۔
گاندھی جی نے تو یہ بھی کہا تھا کہ  اگر مسلمانوں کے ہاتھوں ہندو گائے کو ذبح ہونے سے نہیں روک پاتے تو وہ کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوتےلیکن اگر وہ گائے کو بچانے کی خاطر مسلمانوں سے لڑتے ہیں تو سنگین گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ  گاندھی کے بھکت ہیں یا گوڈسے کے کہ گاندھی  جی نے جس کام کیلئے مسلمانوں سے لڑنے کی اجازت تک نہیں دی تھی  اس کیلئے قتل و غا رتگری کرتے  ہیں۔ مجرمین کو بچانے کیلئے طرح طرح کی احمقانہ منطق پیش کرنے والے ۔ مقتول پر گائے ذبح کرنے کا مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ کرنے والے۔ اسے اتفاقی حادثہ قرار دینے والے۔ اخلاق  کے بیٹے دانش کے زخموں سے پتہ چلانے والے کہ ملزم قتل کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔اخلاق کی موت کا سبب دانش  کی موت کے  صدمے کو قرار دینے والے۔ ملزمین پر عمداً کے بجائے سہواً قتل کا مقدمہ درج کرنے سفارش کرنے والے؟ گرفتار شدگان کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہا نی  کرنے والے۔گائے کے ساتھ عقیدت  کے باعث اشتعا ل انگیزی کو حق بجانب ٹھہرانے والے اور گائے کا گوشت کھانے والوں کو اسی انجام کی دھمکی دینے والے مودی جی کے بھکت  تو ہوسکتے ہیں گاندھی جی کے پیروکارنہیں ہوسکتے۔ اس گاندھی جینتی کا یہی پیغام ہے جس  کی بہت خوب منظر کشی  منظر بھوپالی نے اس طرح کی ہے  ؎
گاندھی جی اب دیکھ لیں  آ کر اپنا  ہندوستان کیسے کیسے آپ کے چیلے  ہوگئے   بے ایمان
  مکاری ہے، عیّاری ہے  ، اس یُگ  کی  پہچان گاندھی جی اب دیکھ لیں آ کر اپنا ہندوستان