Saturday 22 July 2017

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : امید کی ایک کرن

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : امید کی ایک کرن
ڈاکٹر سلیم خان
  ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب نریندر مودی سے اونچی آواز اروند کیجریوال کی ہوا کرتی تھی لیکن  دہلی کے بلدیاتی انتخاب کے بعد انہیں سانپ سونگھ گیا ہے یا اگر وہ کچھ بولتے بھی ہیں تو ذرائع ابلاغ کو اسے شائع نہیں کرتا۔ بغض مودی میں مسلمانوں نے  اروندکیجریوال کی پرزور حمایت کی لیکن کمار وشواس کا وشواس پراپت کرنے کی خاطر انہوں نے امانت اللہ کو برخواست کرکے امانت میں خیانت کی۔  ایسا لگتا ہے کہ کیجریوال کو بالآخر اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں نے ایکایک ایسا کارنامہ انجام دے دیا جس کے لیے مسلمانانِ دہلی ان کے ممنون ہوں گے۔ دہلی کی صوبائی حکومت نے معروف قائدو دانشورڈاکٹر ظفر الاسلام خان کادہلی اقلیتی کمیشن کے  چیئر مین کی حیثیت  سے تقرر کردیا ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ وطن عزیز کے اندر اقلیتیں شدید ترین آزمائش سے دوچارہیں ڈاکٹر ظفرالاسلام جیسے نڈرو بیباک شخص کا اس اہم عہدے پر فائز ہوجانا ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔  ان شاء اللہ یہ ید بیضاء  ملت کے اندر پھیلنے والی مایوسی کی تاریکی کو دور کرے گا اور عصائے موسیٰ کی مانند عصر حاضر کے بہت سارے سانپ نما رسیوں کو نگل جائیگا ۔ مجلس مشاورت کی  مختلف ذمہ داریوں پر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان بڑی جرأتمندی کے ساتھ ملت کے مسائل کو حل کرنے کی قابل قدر سعی  کرچکے ہیں  نیز  کشمیر جیسے نازک مسئلے پر بھی  بغیر کسی دباو کے  ملی گزٹ  میں مسلسل ۱۷ سالوں تک کمال حق گوئی کا مظاہرہ  کیا  ۔  امید ہے کہ اب وہ کام زیادہ مؤثر انداز میں ہوگا۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام  خان  کی ملی سرگرمیوں سے تو لوگ واقف ہیں لیکن ان کے علم و تجربہ سے عوام کی واقفیت کم ہے  اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کا تفصیلی تعارف سامنے آئے۔ ان کے تعلیمی سفر کی ابتداء جنوب کے شہر عمرآباد میں واقع جامعہ دارالسلام سے ہوئی وہاں ایک سال فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اعظم گڈھ کے مدرسۃ الاصلاح میں داخل ہوئے اورتین سال کے بعد ندوۃ العلماء میں پہنچ گئے ۔  اس طرح ملک کے تین مختلف النوع مدارس سے ہوتے ہوئے آپ نے لکھنو یونیورسٹی  سے عالمیت کے امتحان میں پہلا مقام حاصل کیا۔  اس کے بعد مصر کے جامعۃ الازہر اورامریکن یونیورسٹی قاہرہ کی اسکالر شپ کے امتحان میں کامیابی حاصل کی  اور الازہر میں  کلیۃ اصول الدین میں سات سال تعلیم حاصل کی ۔ جامعہ ازہر سے فراغت  کے بعد آپ نے قاہرہ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ایم اے کیا اورقاہرہ ریڈیو میں بحیثیت اردو اناؤنسر کام کیا ۔ اس دوران انہوں نے مصر کےمشاہیر علماء اور دانشوروں سے استفادہ کیانیز لیبیا میں ۶ سال  تک مترجم و ایڈیٹرکی ذمہ داریاں بھی اداکیں ۔
  علم و فضل کی تڑپ  ڈاکٹرصاحب کو لیبیا سےبرطانیہ لے گئی جہاں مانچسٹر یونیورسٹی میں انہوں نے پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا۔ انگلستان میں اچھی ملازمت اور تعلیمی سلسلے کے باوجود  اپنے وطن میں مسلمانوں کے مسائل ان  کو ہندوستان کھینچ  لائے۔  ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے اس  مختصر تعارف کی ضرورت  اس لیے پیش آئی کہ وہ ایک نہایت منکسرالمزاج انسان ہیں ۔  ان کو کسی نے اپنی تعریف و توصیف کرتے کراتے نہیں دیکھا۔ نوجوان نسل کیلئے ڈاکٹر اسلام کی زندگی کے نشیب و فراز کا علم اس لیے ضروری ہےتا کہ انہیں پتہ چلے ایک مفکر و مدبر کا شخصی ارتقاء کس طرح ہوتا ہے ؟   اس نئے عہدے پر فائز ہونے  کے بعد بردباری کے ساتھ آپ نے فرمایا ’’یہ بڑی ذمہ داری ہے  وہاں پڑی فائلوں کوبغیر دیکھے ابھی کوئی دعوٰی کرنا قبل ازوقت ہوگا ۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھاوں‘‘۔  ڈاکٹر ظفرالاسلام  خان کا تقرر ویسے تو دہلی اقلیتی کمیشن کے صدر کی حیثیت سے ہوا ہےلیکن  قوی امید ہے کہ  دیگر صوبوں اور قومی کمیشن   کے سربراہان سے ان کا ربط ضبط  اس  دور پرفتن میں تمام اقلیتوں کے لیے خیروبرکت کا باعث ہو گا ۔ ہماری  دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو  ۔

Thursday 16 March 2017

عادت سے مجبور

عادت سے مجبور
ڈاکٹر سلیم خان
کسی شہر میں ایک امیت  نام کاگرہ کٹ رہتا تھا ۔ اس کے ماموں کی بڑی  دوکان  اور چھوٹی بیٹی تھی ۔  اچانک ماموں کا انتقال ہوگیا ۔ رشتے داروں نے بیٹی کی شادی  امیت سے کردی تاکہ کاروبار اور بیٹی دونوں کو سنبھالا مل   جائے ۔ اس طرح  بن بلائےایک پاکٹ مارکے اچھے دن آگئے    وہ گرہ کٹ سے  دوکاندار بن گیا۔ ایک دن  امیت کےصحافی  دوست ارنب نے دیکھا کہ لوگ ریلوے پلیٹ فارم پر اسے گالیاں بک رہے ہیں۔اس پر تھوک رہے ہیں  اور وہ بڑی بے حیائی سے مسکرا رہا ہے۔ ارنب نے پوچھا اس بیچارے کوکیوں برا بھلا کہہ رہےہو؟ لوگوں نے جواب دیا ۔ یہ پاکٹ مار ہے اس نے ٹرین میں ابھی ابھی ان  دوبھائیوں کی جیب پر ہاتھ صاف کی ہے۔ ارنب نے دیکھا جن کی جیب کٹی ہے وہ کافی مسکین لوگ ہیں ۔
ارنب بولا ارے بھائی یہ تو اب بازار کی سب سے بڑی دوکان کا مالک ہے۔ اس کے پاس بہت مال و دولت ہے یہ بھلا ایسی اوچھی حرکت کیوں کرسکتا ہے؟ مجمع بھڑک گیا اس نے کہا تم اس کی وکالت نہ کرو۔ یہ رنگے ہاتھ پکڑا گیا ہے۔ ارنب نے کسی طرح  سمجھا بجھا کر معاملہ رفع دفع کیا  اور اپنے دوست سے پوچھا یار اب تومیری طرح تو  بھی خوشحال ہوچکا ہے۔ یہ  پرانا دھندہ چھوڑ کیوں نہیں دیتا؟ گرہ کٹ بولا کیا کروں یار عادت سے مجبور ہوں ۔ جب بھی کسی کی جیب میں نوٹ محسوس کرتا ہوں میرے ہاتھ میں کھجلی ہونے لگتی ہے۔ ارنب بولا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب تیری حیثیت بدل گئی  میں نے کس قدر محنت و مشقت کرکے تیری شبیہ سدھاری ہے۔ لوگ  تیرا شمار شرفاء میں کرنے لگے ہیں ۔اپنی عزت کا نہ سہی ، میری  محنت کا  تو کچھ خیال کیا کر؟
امیت نے جواب دیا یار تو بھی عجیب آدمی ہے ۔ ایک بار محنت کرتا ہے اور اس کا معاوضہ وصول کرلینے کے بعد پھر اضافی مطالبہ کرتا ہے     ۔ ہمارا حساب بے باک ہوچکا ہے ۔ارنب نے تائید کی جی ہاں میں جانتا ہوں لیکن یہ بتا کہ تیرے پاس اس قدر دھن دولت پہلے ہی سے موجود ہے پھر تو نے یہ ذلیل حرکت کیوں کی؟ پاکٹ مار بولا تو کون سا فقیر ہے ؟ تیرے پاس بھی تو کوئی کمی نہیں ہے اس کے باوجود تو نے میری پردہ پوشی  کیوں کی ؟ ارنب خود اپنے دام میں پھنس چکا تھا ۔ وہ بات بنانے کیلئے ہنس کر بولا یار میں کیا کروں یہ میرا پیشہ ہے میں صحافی  جو ہوں ۔ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہوں ؟ تو نےشہنواز زیدی کا  وہ شعر  نہیں سنا  کہ ؎
ہر ایک چیز اگر تیرے اختیار میں ہے تو میں نے ہونے دیا ، جو ہوا میں کیا کرتا
امیت یہ سن کر خوش ہوگیا اور بولا یا ر ایک بات بولوں میں شاعروں کو بے وقوف سمجھتا تھا لیکن یہ شہنواز زیدی تو بڑا سمجھدار لگتا ہے ۔ کیا تو مجھ کو اس سے ملاسکتا ہے؟ ارنب نے سوال کیا ،   کیوں تو اس سے مل کر کیا کرے گا؟ ارے بھائی کبھی کبھار شعر شاعری سے دل بہلا لیا کروں گا۔ میں گرہ کٹ ہوں تو کیا ہوا؟ آخر میں بھی تو ایک انسان ہوں ۔ ارنب کیلئے یہ عجیب انکشاف تھا کیونکہ وہ گرہ کٹ کو شاعر تو کجاانسان بھی نہیں سمجھتا تھا۔ اچھا  مجھے تیری شاعری کی دلچسپی  کا پتہ نہیں تھا؟۰۰ ابھی تجھے پتہ ہی کیا ہے ۔ یہ شعر سننے کے بعد مجھے وہ  شعر یاد آگیا ؎
کروں گا کیا جو سیاست میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
ارنب نے چونک کر پوچھا  یار تیری تجارت میں یہ سیاست کہاں سے آگئی ؟ گرہ کٹ ہنس کر بولا تو نے پکڑا تو سہی مگر غلط پکڑا ۔احمق شعراء  آج بھی تجارت یا سیاست چھوڑ کر محبت کے پھیرے میں پڑے رہتے ہیں حالانکہ  اس کلیگ میں صحافت کی طرح سیاست بھی ایک تجارت ہے ۔گرہ کٹ کی منطق پر ارنب کے چودہ طبق رو شن ہوگئے ۔ وہ بولاکیا مطلب ؟کیاآج کل  گرہ کٹ اور سیاستداں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔امیت بولا فرق  توہے مگراتنا   کہ ایک  تو کبھی کبھارپکڑا  بھی جاتا ہے مگر دوسرے پر الزام تک نہیں آتا ۔ کیوں جانتے ہو ؟   ۰۰۰۰ نہیں جانتا۰۰۰۰۰۰ تو سنو  بقول قاصر ؎
چرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے اور اس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا

Thursday 2 March 2017

دوہزار کا نوٹ

دوہزار کا نوٹ
ڈاکٹر سلیم خان
ظہر کی نماز کے بعدامام صاحب نے اعلان کیا سیڑھی  پر ایک دوہزار کا نوٹ ملا ہے جن صاحب کا ہو نشانی بتا کر لے جائے۔ مؤذن  صاحب چونک پڑے انہوں نے امام صاحب کے کان میں کہا مولانا سارے نوٹ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔اس پر نشانی کہاں سے لائی جائے؟ امام صاحب سمجھ گئے بانگی صاحب کی نیت خراب ہورہی ہے۔ انہوں پھر اعلان کیا جس کسی کا ہوبغیر نشانی بتائے لے جائے۔ سنت و نوافل کے بعد امام صاحب تسبیح و تحلیل میں مصروف تھے کہ دو لوگ ان کے پاس پہنچ گئے۔ امام صاحب نے پوچھا کیا بات ہے ۔ دونوں ایک ساتھ  بولے وہ دو۰۰۰۰۰۰۰۰۔
لیکن وہ ایک ایک ہزار کی دو نہیں بلکہ دوہزار کی ایک نوٹ ہے اور آپ دو لوگ ؟؟؟؟
ان میں سے ایک حاجی بغلول نے کہا آپ اسے شیخ   اسماعیل کو دے دیجئے۔ ۰۰۰۰۰۰۰کیوں؟ اسے کیوں دے دوں ؟
اب آپ قسم کھانے کیلئے کہیں گے ۔ یہ بے دھڑک جھوٹی قسم کھا جائےگا۔ میں نہیں چاہتا کہ دوہزار کیلئے ایک مسلمان بھائی جہنم میں جائے  ۔
امام صاحب  نےحاجی بغلول  کو نوٹ تھما  دیا ۔ بغلول چلے گئے لیکن اسماعیل وہیں کھڑا رہا۔امام صاحب نے پوچھا تو کیوں کھڑا ہے؟
صاحب وہ نوٹ میرا تھا ۔ داود خان سے میں  ادھار لے کر مسجد میں آیا تو مجھ سے گر گیا آپ داود خان سے تصدیق کرکے میری تلاشی  لے لیں۔
تو نے کہا کیوں نہیں؟  گونگا بہرہ بن کر کھڑا رہا ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰کہتا کیسے آپ نے موقع ہی نہیں دیا۔ اسماعیل کی بات درست تھی۔
اچھا تو  داود کو بلالا۰۰۰۰۰۰۰صاحب آپ اس سے فون پر پوچھ لیں ۔ یہ کہہ کر اسماعیل نے فون لگا دیا۔جیسے ہی امام صاحب نے  فون پر اسماعیل  کا نام لیا داود بولا  وہ آپ کے پاس بھی قرض لینے تو نہیں پہنچ گیا ؟ میں نے  ابھی کچھ دیر قبل اس کو دوہزارکا نوٹ دیا ہے۔
اسماعیل اپنی ساری جیبیں الٹ چکا تھا ۔ ان میں ایک پھوٹی کوڑی  بھی نہیں تھی۔  امام صاحب بولے اب میں کیا کرسکتا ہوں ۔ دھوکہ ہوگیا معافی چاہتا ہوں۔
عصر کی نماز میں حاجی بغلول  خوددوہزار کا نوٹ لے کر آئے اور امام صاحب کو پکڑا دیا۔
 امام صاحب نے وہ نوٹ شیخ اسماعیل کو دے دیا اور حاجی صاحب سے کہا صرف دوہزار کیلئے آپ نے۰۰۰۰۰۰۰۰
حاجی بغلول بولے وہ نوٹ میرا ہی تھا مگر اسماعیل نے مجھے دھمکی دی کہ اس کے پاس  دو گواہ ہیں ایک داود  خاں اور دوسرے امام صاحب۰۰۰۰۰ تو۰۰۰۰؟
 میں ڈر گیا   برسوں کی کمائی عزت کیلئے دو ہزار قربان کردئیے۔ امام صاحب بولے یہ تو خطرناک لوگ ہیں انہوں نے آپ کے ساتھ مجھے بھی دھوکہ دیا۔
مغرب میں امام صاحب نے حدیث سنائی :   میں بھی ایک انسان ہوں۔ اس لیے جب میرے یہاں کوئی جھگڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ  ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ وہ سچا ہے۔ اور اس طرح میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں، لیکن اگر میں اس کو کسی مسلمان کا حق دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا اس کو دلا رہا ہوں، وہ لے لے یا چھوڑ دے۔ حدیث کو سن کر شیخ اسماعیل آگے آیا اور بولا میری آنکھ کھل گئی  اور دوہزار کا نوٹ لوٹا دیا۔
امام صاحب نے حاجی بغلول کو نوٹ دیا تو وہ بولے یہ بڑے مکار لوگ ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ پھر  کسی  سازش میں پھنسا  نہ دیں۰۰۰۰۰ اس لئے میں نہیں لیتا۔
امام صاحب نے پوچھا مگر میں اس کا کیا کروں؟۰۰۰۰۰۰۰۰جو مرضی کریں   خود رکھ لیں۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰میں کیسے رکھ سکتا ہوں؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اگر کوئی نہ آتا تو کیا کرتے؟  ۰۰۰۰۰۰۰اس رات امام صاحب سو نہیں سکے ۔ کبھی شیخ اسماعیل کبھی  نوٹ تو کبھی حاجی بغلول رات بھر انہیں ستاتے رہے۔
 صبح تک امام صاحب نے اپنے آپ کو سمجھا لیا ۔ وہ بازار گئے تو کسی کے پاس دوہزار کا خودرہ نہیں تھا ۔ ایک دوکان والے نے مشورہ دیا بنک چلے جائیں وہاں کھل جائیگا اس کے بعد جو چاہیں خریدیں۔  امام صاحب بنک میں پہنچے۔ کاونٹر کلرک نے نوٹ کی  جانچ  پڑتال کے بعد  منیجر صاحب کے پاس بھیج دیا۔
منیجر نے پوچھا یہ نوٹ کہاں سے ملی ؟ امام صاحب سمجھ گئے کوئی گڑ بڑ ہے۔ وہ  بولے کیوں؟۰۰۰۰۰۰۰اس لئے کہ نقلی ہے اور ہمیں ہدایت ہے کہ ہر نقلی  نوٹ لانے والے کو پکڑا دیا جائے۰۰۰۰کیوں؟ ۰۰۰۰اس لئے کہ وہ آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہے  ۔ پاکستان  جعلی نوٹ چھاپ   رہا۔امام صاحب کا منہ لٹک گیا۔
 اسی وقت فون کی گھنٹی بجی ۔ حاجی بغلول نے سوال کیوں !   امام صاحب جیل پہنچے یا نہیں ؟ ۰۰۰۰۰منیجر نےامام صاحب سے پوچھااس کو کیسے پتہ چلا؟۰۰۰۰۰۰
امام صاحب  نےپوری کہانی سنا دی۔ منیجر بولا آپ گھر جائیے میں تینوں کو جیل بھجواتا ہوں ۔ ان پر پوٹا لگے گا اور حاجی بغلول کودو گواہوں کے ساتھ بلوابھیجا۔

Thursday 23 February 2017

دل ہے کہ مانتا نہیں

دل ہے کہ مانتا نہیں
ڈاکٹر سلیم خان
شہر کے سب سے بڑے ہارٹ سرجن ڈاکٹر چندربھان کا  سب سے ہونہار طالبعلم ا ٓفتاب عالم تھا ۔یکساں شخصیت کے حامل استاد و شاگرد فارغ اوقات میں  مختلف موضوعات پر باہم گفتگو وشنید کیا کرتے تھے ۔  استاد دل کو محض پمپ اور شاگرد افکارواحساس کا مرجع و منبع سمجھتا تھا ۔
ایک روز جراحی سے فارغ ہوکر آپریش تھیٹر سے متصل کمرے میں  چندربھان نے  کہا آفتاب  تم  نےدل کو بلا وجہ  دماغ کے اوصاف سے  متصف  کردیا ہے۔دل محض ایک پمپ ہے سوچنے سمجھنے کے سارے کام دماغ کرتا ہے۔ تم دل کے بجائے اپنے دماغ سے پوچھو تو وہ میری   تائید کرے گا ۔
آفتاب بولا جی ہاں جناب میرا دماغ آپ  کے دلائل کی تائید کرتا ہے۔
چندربھان نے خوش ہوکر کہا بہت خوب تو پھر کیا مسئلہ ہے؟
سر  لیکن  دل ہے کہ مانتا  نہیں ۔
ارے بیٹے دراصل دل کاکام اقرار یا انکار کرنےکا نہیں ہے ؟ دماغ  نےمان لیا تو سمجھو کہ تم نے مان لیا ۔
سر لیکن کیا کبھی  آپ کے اندر  سے بیک وقت دو مختلف و متضاد آوازیں نہیں آتیں ؟
یہ تو ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن وہ دونوں آوازیں دماغ سے آتی ہیں ۔
تو کیا دماغ اپنے آپ سے اختلاف کرتا ہے؟ اور  اگر ہاں تووہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟
میں نہیں جانتا کہ دماغ ایسا کیوں کرتا ہے ۔ میں نیوروسرجن نہیں  ماہر قلب ہوں ۔
سر میں بھی  دل کا ڈاکٹرہوں اس لئےجانتا ہوں کہ   دماغ اپنے آپ سے نہیں  بلکہ دل  اس سے اختلاف کرتا ہے۔
دل کاکام سارے جسم خون پہنچانا ہے اور تم   نہ جانےکتنے آپریشن  کر چکے ہو۔ کیا تم نے کبھی اس کو کچھ اور کرتے دیکھا ہے؟
لیکن سر ایک عضو ایک سے زیادہ کام بھی تو کرسکتا ہے اور کیا اس کے ہرکام کا نظر آنا ضروری ہے۔
کج بحثی سے نالاں چندربھان  نے موضوع بدلتے ہوئے کہا  کل ہی میرے پاس ایک نئی (animation) سی ڈی آئی ہے جو دل کی ساری  کارکردگی پر بہترین روشنی ڈالتی۔  میں وہ  تم کو دینا چاہتا تھا ۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب نےآواز لگا ئی ’’رامو میرے ٹیبل سے وہ سی ڈی لے آ‘‘۔
رامو دوڑ کر   صاحب کے کمرے میں پہنچا سیڑھی  دور پڑی تھی۔ سوچا صاحب نے تو میزپر کہا تھا ! پھردماغ سےوہ  سوال جھٹک کر سیڑھی لے آیا۔
چندربھان نے رامو کی سیڑھی کے ساتھ دیکھ کر کہا یہ کیا اٹھالایا؟
رامو بولا صاحب سیڑھی !وہ میز پر کیسے چڑھ سکتی ہے۔ ایک کنارے کھڑی تھی سو لے آیا۔
اوئے بیوقوف میں نے تجھے ٹیبل پر پڑی گول کمپیوٹر کی سی ڈی لانے کیلئے کہا تھا ۔
اوہو وہ چمکدار دائرہ نما طشتری جو کمپیوٹر میں بنی کھڑکی کے اندر گھومتی نظر آتی ہے۔
جی ہاں وہی۔ لیکن وہ صرف گھومتی نہیں  ہے بلکہ میں جوکچھ کمپیوٹر کے پردے پر دیکھتا ہوں وہ اس میں لکھا ہوتا ہے۔
بے یقینی کے عالم میں رامو سی ڈی لاتے ہوئےالٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا  ۔ اس پرتو کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہے۔ صاحب !کچھ بھی بولتے ہیں ۔
رامو کی حیرانی اس کے چہرے سے عیاں تھی  ڈاکٹرچندربھان اسے   بھانپ کربولے دیکھوآفتاب یہ سی ڈی پر لکھی تحریر پڑھنے کی سعی کرتا ہے۔
سر عجیب معاملہ ہے کہ جو کچھ آپ سی ڈی کے متعلق کہتے ہیں میں دل کی بارے میں  کہتا ہوں لیکن نہ رامو مانتا ہے  اورنہ آپ مانتے ہیں ۔
ڈاکٹر چندربھان کا دماغ سی ڈی کی مانند گھومنے لگا۔ ان کا  قلب گواہی دے رہا  تھا کہ آفتاب کی بات درست ہے۔

Friday 10 February 2017

کیا ؟ کیوںَ ؟؟اور کیسے؟؟؟

ڈاکٹر سلیم خان
ایک مہم جو دوست نے سوال کیا کہ عوام کو اپنے کام میں شامل کرنے کیلئے کیا کیا جائے؟ اگر کوئی اور ہمیں اپنے کام میں شامل کرنا چاہےتو تین بنیادی سوالات کا واضح ہم اس سے طلب کریں گے۔ انہیں سولات کا  اطمینان بخش جواب  ہمیں بھی دینا ہوگا۔ پہلا سوال   کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے ؟  دوسرا  وہ کیوں کر رہا ہے؟؟ اور تیسرا کیسے کرےگا؟؟؟ پہلا سوال عقل پر دستک دیتا ہے  اس لئے اگر تجویز گنجلک ہو تو سر کے اوپر سے نکل جاتی ہے اور  دماغ  کو  مطمئن  نہ کرسکےتو کان سے آر پار نکل جاتی ہے۔ دماغ ظاہر پرست ہے اس لئے معقول دلائل سے قائل    ہوجاتا ہے  لیکن دل کا معاملہ مختلف ہے وہ مخاطب کے اندر جھانک کر یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ کام کیوں کیا جارہا ہے؟ اس کے پس پشت کون سے اغراض ومقاصد  کارفرما ہیں ؟ اگر قلب کے اندر اخلاص موجود ہوتووہ فوراً آمادہ ہوجاتا ہے لیکن اگر وہاں مفاد یا   سازش کی بو سونگھتا ہے تو  دلبرداشتہ ہوکر لوٹ جاتا ہے۔ اب کو ئی بڑی سے بڑی لفاظی اسے  آمادۂ کار نہیں کرسکتی ۔ لاکھ کوشش کے باوجود  بھی شرح صدر ہوگا نہیں  ہوگا۔
دل اور دماغ  کاکسی کام کیلئے تیار ہوجانالازمی تو ہے لیکن  کافی نہیں ہے۔مہماتی سرگرمیوں میں ہاتھ اور پیر کی پیشقدمی  ناگزیر  ہے۔  دست وبازو اپنی شمولیت سے قبل تیسرے سوال یعنی کیسے کی تفصیل جاننا چاہتے تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ   قابلِ عمل بھی ہے یا نہیں؟  وہ طریقۂ         کار کی روشنی میں اپنے آپ کو ٹٹولتے ہیں کہ کیا  مہم میں شرکت  ان کے بس میں  ہے؟     اس تیسرےرکاوٹ  کو کامیابی سے عبور کرنے کے بعدہی  کوئی فرد مہم  کا حصہ بن سکتا ہے۔ ورنہ دعا کرنے کا وعدہ کرکے ٹرخا دیتا ہے یا نیک خواہشات کے ساتھ معذرت چاہ لیتا ہے ۔
منشیات کے خلاف مہم کی عملی مثال سے  معاملہ کوسمجھاجاسکتاہے ۔ پہلا سوال کہ کس نشےکی بیخ کنی کی جائیگی ؟ اس جواب ہوکہ چرس اور پتہ چلے کہ محلے میں لوگ چرس کا نشہ ہی نہیں کرتا تو معاملہ ابتداء میں ہی ٹائیں ٹائیں فش ہوجائیگا لیکن اگر تحریک  شراب کے خلاف ہو نیز محلہ شرابیوں سے بھرا پڑا ہے تو دماغ قائل ہوجائیگا ۔ اب دوسرا سوال کہ  یہ سب کیوں کیا جارہا ہے؟ اس کا مقصد اگر انتخاب میں کامیابی ہو تو مشکل ہوسکتی ہے اس لئے کہ جس پارٹی کیلئے ووٹ کی توقع کی جارہی ہوسکتا  ہے مخاطب اس کے نظریہ سے اتفاق نہ کرتا ہو  یا اس کے رہنماوں سے بدظن ہےتوتب بھی بات بگڑ جائیگی ۔ اگر معاملہ معاشرے کی اصلاح اور رضائے الٰہی  کا حصول ہوتو انسان  یہ سوچ کر بہ آسانی تیاع ہوجاتا  ہے کہ میرے بچے اس برائی سے محفوظ رہیں گے اور مجھے ثواب بھی ملے گا۔اب آخری سوال یہ کہ سرگرمی کیا ہوگی؟ اس کے جواب  میں بتایا جائےکہ سائیکل مورچہ نکلے گا۔ اس پر مخاطب معذرت کرسکتا ہے کہ  اس کے پاس نہ سائیکل ہے اورنہ  وہ چلاناجانتا ہے اس لئے خواہش کے باوجود شریک ہونے سے قاصر ہے۔ اب اگر اسے بتایا جائے سائیکلوں کے پیچھے  لاریوں کا بھی اہتما م کیا گیا تو قوی امکان ہے کہ  مخاطب شرکت کے لئے تیار ہوجائے  ورنہ  صرف آرزو اور تمناکے سہارےتو مہم سر نہیں ہوتی ۔

Thursday 2 February 2017

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
ڈاکٹر سلیم خان
صدر براک اوبامہ نے ۲۰۰۹؁ میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے کہا تھا ’’ ہمارا مسائل میں گھرا ہونا اظہر من الشمس ہے۔ہماری قوم تشدد اور نفرت کے جال سے برسرِ جنگ ہے۔ہماری معیشت چند لوگوں کی لالچ اور غیر ذمہ داری کے سبب بے حدکمزور ہوگئی ہے لیکن  اس میں مشکل فیصلے کرنے اور قوم کو نئے زمانے کیلئے  تیار کرنے میں ہماری اجتماعی ناکامی کا بھی  حصہ ہے۔ گھر گئے ، ملازمتیں سمٹیں اور تجارت لڑھک گئی ۔ ہماری طبی  سہولیات بے حد مہنگی ہیں ، ہماری تعلیم گاہیں ناکامیوں سے اٹی پڑی ہیں۔ جس طرح ہم توانائی کا استعمال کررہے ہیں وہ ہنہ صرف حریفوں کو فائدہ پہنچارہا ہے بلکہ  کرۂ ارض کیلئے خطرہ بن رہا ہے۔ یہ علامات اعدادوشمار پر منحصر ہیں۔ہمارا اعتماد ٹوٹا ہے اورا مریکی انحطاط کا اندیشہ بڑھا ہے۔ نسل نو کی نظریں جھکی ہوئی ہیں ۔  آج میں یہ اعلان کرتا  ہوں کہ آزمائشیں حقیقی ہیں۔ وہ بہت زیادہ اور سنجیدہ نوعیت کی ہیں۔ وہ بہت آسانی سے مختصر سے عرصے میں نہیں نمٹیں گی۔ لیکن جان لو کہ یہ امریکہ ہے اور ہم ان پر قابو پاجائیں گے ۔
امریکی نظام سیاست کسی صدر کو ۸ سال سے زیادہ کی مہلت نہیں دیتا کبھی کبھار تو چار سال بعد ہی رسی کھینچ لیتا ہے ۔براک اوبامہ کو پورا موقع ملا مگرجاتے ہوئے انہیں شکاگو کی  الواداعی تقریر میں اعتراف کرنا پڑا کہ ’’آپ کہہ سکتے  ہیں کہ میں  ایک لاغر بطخ صدر ہوں اس لئے کوئی میری ہدایات پر کان نہیں دھرتا۔ ‘‘ اس لطیفے کے بعد وہ بولے ’’جی  ہاں ہماری ترقی غیر مساوی ہے۔جمہوریت کا عمل ہمیشہ مشکل، پیچیدہ اور خون آلود ہوتا ہے  ۔ ہم ہر دو قدم کے بعد ایک قدم پیچھے چلے جاتے ہیں  لیکن امریکہ کی اونچی چھلانگ ہماری پیش رفت ہے۔  یہ ہمارے آبا واجداد  کی   وسعت  القلبی ہے جو کسی ایک طبقے کے بجائے سب کو اپنے گلے لگا  لیتی ہے‘‘۔  سچ تو یہ  ہے کہ اوبامہ  کے یہ الفاظ اپنے معنیٰ گنوا بیٹھے ہیں ان کا خواب ڈونالڈ ٹرمپ کی نئی پابندیاں اور دیوارمیں چن دیا گیا ہے۔ امریکہ دو کے بعد ایک نہیں ہزار قدم پیچھے جاچکا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ جب اوبامہ نے کہا آئندہ دس دنوں میں دنیا جمہوریت کی ایک بڑی کامیابی کا مشاہدہ کرے گی تو عوام نے کہا ’نہیں‘ ْ۔
اپنی کامیابیاں گنانے کے بعد اوبامہ نے اعتراف کیا تمام ترقی کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ یہ کافی نہیں ہے۔ ہماری معیشت اس لئے ترقی نہیں کرتی کہ مٹھی بھر لوگ متوسط  اور غریب طبقات کے بل بوتے پر خوشحال ہوجاتے ہیں ۔اس کے علاوہ ہمارے جمہوری اقدار کو عدم مساوات کا گھنُ کھا رہا ہے۔  ایک فیصد اعلیٰ طبقہ دولت کے بڑے حصے پر قابض ہوگیا ہے نیز شہروں اور دیہاتوں کےلوگ پچھڑ گئے ہیں۔ صنعتوں سے نکالے جانے والے مزدور، اسپتال اور ہوٹلوں کی خادمائوں کیلئے گھر چلانا مشکل ہوگیا ہے۔ انہیں یقین ہوتا جارہا ہے کہ ان کے خلاف شکنجہ کسا جاچکا ہے۔ ان کی حکومت صرف طاقتور کے مفاد کا تحفظ کرتی ہے ۔ یہ ہماری سیاست میں   مزیدمایوسی اورتفاوت کا سامان ہے۔
اوبامہ کی  مایوس کن رخصتی کا سبب جاننے کیلئے گذشتہ چوتھائی صدی  میں امریکی جمہوری انحطاط پر ایک نگاہ  ڈال لیناکافی  ہے ۔       ۱۹۹۱؁میں طالبان کے ذریعہ سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد امریکہ ساری دنیا کی واحد عظیم ترین طاقت بن گیا لیکن ۱۹۹۲ ؁ کے انتخابات میں جارج بش اپنی دوسری میقات کا انتخاب نہیں جیت سکے یہ ایسا ہی تھا جیسے کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد ونسٹن چرچل برطانوی انتخاب ہار گئے۔جارج بش کو انتخابی شکست دینے والا ڈیموکریٹ رہنما بل کلنٹن نہایت ذہین وذکی مگر عیاش انسان تھا ۔ اس کی  بدکرداری نے  قصر ابیض کا منہ کالا کردیا ۔ مونیکا لیونسکی کے رسواکن  انکشاف  کے بعد اگر کلنٹن کو ہٹا دیا جاتا تو امریکی جمہوریت کا  وقار بحال ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عوام نے ڈیموکریٹس کو سزادینے کیلئےجارج بش کے بد دماغ بیٹے جارج ڈبلیوبش کو اقتدار سونپ دیا ۔جارج ڈبلیوبش عراق پر عمومی تباہی کے اسلحہ کا بہتان تراش   کر دوسری میقات کےانتخاب تو جیت گیا مگر بغدادسے جوتا کھاکر رخصت ہوا ۔ اس کی حماقتوں سے بیزار عوام نے پڑھے لکھے ذی فہم اوبامہ  کو اقتدار پر فائز کیا لیکن وہ  بھی  ناکام رہے۔مایوس و بیزارامریکی عوام نے بالآخر بل  کلنٹن اورجارج  بش کےزہریلے مرکب(  کند ذہن اور بدکردار) ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر بنا کر اقبال کی پیشن گوئی سچ ثابت کردی؎
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دوکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا

Thursday 26 January 2017

طائف کی گھاٹی

طائف کی گھاٹی
ڈاکٹر سلیم خان
ایک ماہ کے اندرواشنگٹن کے اویجنلک سینٹر میں پھرسے کرسمس کا سماں  لوٹ آیا ۔مرکزی   ہال میں بہت سارے لوگ ٹرمپ کی حلف برداری سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ باہر لان میں زبردست پارٹی کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں گوشت کو آگ پر رکھا اور شراب کو برف سے  ڈھانپا جارہاتھا  کہ اچانک قرآن مجید کی تلاوت شروع ہوگئی ۔  یہ منظر دیکھ کر شدت پسندمسیحی قائد ڈیوڈ  کے تن بدن میں آگ لگ گئی  اور جب ان آیات کا انگریزی میں ترجمہ بھی پیش ہونے لگا تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔  اس نے فوراً ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کیا اورکھڑا ہوکر اپنی گرجدار آواز میں جشن  کی منسوخی کا اعلان کردیا ۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا لیکن کوئی کچھ نہ بولا مجمع خاموشی کے ساتھ چھٹنے لگا ۔
دس منٹ بعد ہال میں ڈیوڈ اور اس کے چند خاص حواری رہ گئے تھے ۔ ایک خوفناک سناٹے نے سب کو نگل رکھا تھا کہ ڈیوڈ پھر گویا ہوا ۔ وہ فریبی  ہے۔ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ      بھی دھوکے باز نکلے گا چلو اچھا ہوا کہ بلی بہت جلد تھیلے سے باہر آگئی ۔ ان منافق  سیاستدانوں نے ہمیشہ ہی ہمیں بے وقوف بناکر ہمارا  جذباتی استحصال کیا ہے۔ ہم انہیں  قرار واقعی سزا دیں گے۔ ڈیوڈ کے خاموش ہوتے ہی اس کا دست راست مائیکل بولا ڈیوڈ ابھی تم جوان ہو لیکن اس طرح سے فریب کھاتے کھاتے اور اس طرح کی دھمکیاں سنتے سنتے میں بوڑھا ہوچکا ہوں ۔ ہماری یادداشت بہت کم ہوتی ہے  مجھے یقین ہے کہ آئندہ انتخاب سے قبل اس واقعہ کو بھلا کر پھر سے ۰۰۰۰۰ڈیوڈ درمیان میں بول پڑا آپ ہمیشہ مایوسی اور بددلی کی باتیں کرتے ہیں۔  میری رائے ہے کہ اب آپ کو کسی بزرگ خانہ میں بھرتی ہوکر دنیوی معاملات سے کنارہ کش ہوجانا چاہئے۔
انٹن نے نے کہا لیکن ڈیوڈ تم نے تواس کے بجائے اپنے ہی ارکان کی خوشیوں پر پانی پھیردیا۔ ان لوگوں نے شام کی دعوت کیلئے جو تعاون دیا تھا اس پر مٹی ڈال دی اب جو یہ تیاری ہوچکی ہے اسے کوڑے دان میں ڈال دیں یا قریب کے مسلم یتیم خانے میں  خیرات کردیں ؟وہ کمبخت بھی نہ خنزیر کے کباب کو ہاتھ لگائیں گے اور نہ شراب کے قریب پھٹکیں گے۔ ڈیوڈ بولا اچھا یاد دلایا اب ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا۔ چلو اسلامک سینٹر چلتے ہیں ۔ کہاں ہے ہمارا میگا فون  اور پوسٹر جو ہم نے پچھلے ہفتہ تبلیغ کیلئے استعمال کئے تھے ۔ انہیں نکالو، ہم  اسلامی مرکز کے باہر جاکر مظاہرہ کریں گے۔ مائیکل بولا لیکن وہ تو دعوت کیلئے تیار کئے گئے تھے ۔ ڈیوڈ نے کہا ایک ہی بات ہے۔ اسی کے ساتھ یہ پانچ سات نفری قافلہ اسلامی مرکز پہنچ گیا اور اس کے دروازے پر کھڑے ہوکرڈیوڈ نے اسلام اور مسلمانوں کو میگافون پر جی بھر کے برا بھلا کہا۔  
اسلامی مرکز کے لوگ جو ٹرمپ کی حلف برداری میں قرآن مجید اور اس کے ترجمہ پر خوش ہوکر اس کی تقریر کے منتظر تھے اچانک برپا ہونے والے اس ہنگامہ سے چونک پڑے۔ مرکز کے نائب ذمہ دار عمیراحمد نے کھڑکی سے ڈیوڈ کو دیکھا تو سمجھ گئے کہ ’ہنگامہ ہے کیوں برپا‘ ۔ وہ بورڈ روم سے نکل کر لائبریری میں آئے جہاں بہت سارے لوگ مطالعہ میں غرق تھے۔ ان میں کچھ باہر کے شور شرابے سے پریشان بھی ہوگئے تھے۔ عمیرنے اعلان کیا آپ اطمینان سے اپنا کام کریں ۔ یہ ٹرافک جام ہے! تھوڑی دیر میں کھل جائیگا اور ہارن کی یہ آوازیں  بھی تھم جائیں گی۔ اس کے بعد وہ ورزش گاہ میں گئے اور نوجوانوں کو اطمینان سے اپنا کام جاری رکھنے کی تلقین کرکے واپس لوٹ آئے۔
بورڈ روم میں پرجوش سلمان نے مشورہ دیا خوش قسمتی سے آج مرکز میں بہت لوگ ہیں کیوں نہ ان  کمبختوں کا دماغ درست کردیا جائے تاکہ  دوبارہ یہاں کا رخ  کرنے کی جرأت نہ  کریں ۔ مرکزکے صدر عامر نےکہا اس طرح ہم ان کے آلۂ کار بن جائیں گے۔ذرائع ابلاغ نام نہاد  پرامن عیسائی داعیوں کی ہمدردی میں آنسو بہاکر اسلام کے خلاف محاذ کھول دے گا۔ ہم ان کے تھکنے کا انتظار کریں گے۔ اورپھر پڑوس کےکافی ہاوس سے ٹھنڈا پانی اور گرم کافی پلا کر انہیں روانہ کردیں گے۔ واپسی سے قبل ان سب  کا فون نمبر لے لیاجائیگا تاکہ فرداً فرداً ہر ایک کو اسلام کی دعوت پہنچائی جاسکے۔ یہ  بدر کا میدان  نہیں طائف کی گھاٹی ہے ۔ ان شاء اللہ  ان کی آنے والی نسلیں مشرف  بہ اسلام ہوں گی۔