Thursday 13 October 2016

دھرم کرم


ڈاکٹرسلیم خان
سیٹھ دھرم داس حسب معمول اپنے پوتے چرنو کے ساتھ چہل قدمی کیلئے نکل رہے تھے کے دروازے کے پاس بیٹے سیٹھ کرم داس  عرف کرموکو کھڑا  پایا۔ سیٹھ کرم داس پر دھن دولت کا ایساجنون سوار تھا کہ  کبھی اپنے اہل خانہ کے لئے فرصت ہی نہیں نکلتی تھی ۔ اسے منتظر دیکھ کر سیٹھ دھرم داس کو حیرت ہوئی ۔ وہ سمجھ گئے کہ آج ضرور کوئی کام خاص ہے۔ اپنے بیٹے کی رگ رگ سے واقف  جوتھےمگر سوال نہیں کیا ۔ جانتے تھے کہ کرمو بہت جلد ازخود مطلب پر آجائیگا۔
کرم داس نے پوچھا بابا اتنی صبح صبح یہ دادا اور پوتا کہاں جارہے ہیں؟
دھرم داس سے قبل چرنو بول پڑا بابا ہم لوگ تو ہر روز اس وقت نیچے ترائی میں باغ کی سیر کیلئے جاتے ہیں آپ ہی نہیں آتے ۔
دھرم داس نے کہا بیٹے تیرا بابا بہت مصروف آدمی ہے ۔ اس کے پاس ان فضول کے کاموں کیلئے وقت نہیں ہے ۔
کرم داس نے تائید کی اور بولا جی ہاں بابا نہ جانے وقت کی برکت کہاں چلی گئی کام ہے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔
دھرم داس بولے جی ہاں بیٹے اور عمر ہے کہ ختم ہوتی چلی جارہی ہے  ۔
 یہ تین نفری قافلہ جب آگے ایک موڑ پر پہنچا تو کرم داس بولا بابا آپ لوگ نیچے باغ میں کیوں جاتے ہیں اوپر پہاڑی کی جانب کیوں نہیں جاتے؟
دھرم داس مسکرا کر بولے بیٹے بلندیاں تم جیسے جوانوں کیلئے ہیں ۔ ہم جیسے کمزوروں کی عافیت نشیب کا باغ ہے اوپر کی جانب میں خود تو کسی طرح جا بھی سکتا ہوں لیکن یہ چرنو نہیں چڑھ سکتا اور اب میرے بازووں میں اتنی سکت نہیں کہ اسے اٹھا کر چل سکوں ۔
کرم داس بولا لیکن میرے بازو ابھی مضبوط ہیں ۔ جس طرح آپ مجھے اٹھا کر لیجایا کرتے تھے میں اسے لے گود میں لے لیتا ہوں ۔ چرنو کیلئے یہ  انکشاف تھا۔ اسے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ بچوں کو گود میں لے کر بھی سیر کرائی جاتی ہے ۔   اب وہ تینوں  بلندیوں کیا جانب رواں دواں تھا ۔  کافی دیر بعد ایک پہاڑی کے سرے پر پہنچ کر کرم داس نے چرنو کو نیچے اتاردیا اورکہا بیٹے اب تم کھیلو لیکن ذرا سنبھال کر بہت دور نہ نکل  جانا آگے خطرہ  میرا مطلب کھائی ہے ۔
چرنو نے کوبہت اچھا لگ رہا تھا اس نے اس مقام بلندسے دنیا کو کبھی نہیں دیکھا تھا  ۔ کرم  داس آگے کی جانب اشارہ کرے  بولا بابایہ ساری زمین جو آپ نے فروخت کردی تھی میں نے  واپس خرید لی ہے ۔ اب تو آپ خوش ہیں ۔
دھرم داس نے کہا بیٹے اگر مجھ کو اس زمین جائیداد سے محبت ہوتی تو میں اسے بیچتا ہی کیوں ؟ مجھےتو اپنے کرم یوگی بیٹے کرم داس  پرناز ہے۔
کرم داس کی سمجھ میں بات نہیں ہے  وہ بولا بابا تو بتائیے کہ میں ایسا کیا کروں جو آپ خوش ہوجائیں ۔
چرنو بول پڑا ۔ داداجی نے تو بات کہہ دی لیکن آپ نہیں سمجھے بابا۔ جب آپ مجھےبھی اپنی طرح سیٹھ چرن داس بنادیں گے تب وہ خوش ہوجائیں گے۔
دھرم داس بولے اس ننھے چرنو  کی زبان سے  تو ایسی حکمت کی بات  ادا ہوگئی کہ  جی چاہتا ہے اس کے چرن چھو لوں ۔
کرم داس آگے بڑھا اور سیٹھ دھرم داس کے چرن چھو کر بولا بابا آشیرواد دیجئے ۔
دھرم داس بولے بیٹے سدا سکھی رہو اور وہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا جو ابھی ابھی تم نے چرنو کو کی تھی ۔
کرم داس نے حیرت سے پوچھا آپ کس نصیحت کی بات کررہے ہیں بابا؟
دھرم داس مسکرا کر بولےبھول گئے ۔ ابھی تو تم نے کہا تھابیٹے کھیلو مگر سنبھال کے، دیکھو بہت  دورنہ  نکل جانا ،آگے خطرہ ہے۔

No comments:

Post a Comment