Friday 16 September 2016

ڈوبتے سفینہ کو بائے بائے کرتے ہیں (سیاسی طنز

ڈوبتے سفینہ کو بائے بائے کرتے ہیں (سیاسی طنزو مزاح)
اتر پردیش کے میں سماجوادی پارٹی کے اندر مہابھارت چھڑی ہوئی ہے ۔ ایک طرف اکھلیش  ارجن کا مکٹ سجائے دریودھن نما شیوپال کی جڑ کاٹ رہے ہیں اور دوسری جانب نابیناملائم دھرت راشٹرکی عینک لگا کر فوج کی کمان دریودھن کو تھما رہے ہیں ۔ مسلمان حیرت سےسائیکل کی ہوا  دیکھ رہے ہیں اور حسرت  بھری نگاہوں سے ہاتھی کے دم خم کا اندازہ لگارہے ہیں  ۔ کانگریس کے پنجےنے کمل کی کھاٹ  کھڑی رکھی ہے ایسے میں ان سب جماعتوں کیلئے ایک بہت بری خبر آرایس ایس کے خیمے سے آئی ۔
نوبھارت ٹائمز کے مطابق سنگھ نےاپنی ذیلی تنظیموں  کو ماحول خراب کرنے والی سرگرمیوں سے احتراز کرنے کی تلقین کی ہے۔وی ایچ پی کی جانب ہندووں کی ہجرت کی  وجوہات معلوم کرنےکیلئے کیا جانے والا جائزہ روک دیا گیا ہے اور ہندو جاگرن نے لو جہاد مہم کو انتخاب تک معطل کردی  ہے۔  اس لئے کہ سنگھ کے خیال میں کٹر ّ ہندوتوا کا الزام بی جے پی کی کامیابی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔اس خبر کو پڑھ کر مسلمانوں نے تو وقتی طور پر چین کا سانس لیا مگر مسلمانوں کی ہمدرد سیاسی جماعتوں کی نیند اڑ گئی اس لئے کہ اب نہ تو مسلمانوں کا جذباتی استحصال ممکن ہوگا اور نہ روشن خیال ہندووں کو آرایس ایس کا اصلی  چہرہ دکھلا کر اپنے قریب کیا جاسکے گا ۔ سنگھ پریوار کی اس آتم گیان (معرفت) پر سوشیل میڈیا میں گونجنے والا گیت صادق آتا ہے؎  
چائے چائے کرتےتھے، گائے گائے کرتے ہیں دیکھ کر الیکشن کو ، ہائے ہائے کرتے ہیں
اس سے قبل کہ اس من پریورتن کو اپنی امن و انسانیت  مہم سے جوڑ کرہم  اپنی پیٹھ تھپتھپاتے  سامنا نامی اخبار میں  چھپی سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی دہلی میں کی جانے والی تقریر نے منظر بدل دیا ۔ بھاگوت نے کہا ایودھیا میں رام مندر بن کے رہے گا ۔ یہ کام صرف گھٹیا سیاست کے باعث ہی ٹلا ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ رام مندر کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور ہندو ومسلم  تنازعات بھی مذہبی نوعیت کے نہیں بلکہ سیاست کے سبب ہیں۔ اس اجلاس میں رام جنم بھومی نیاس کے صدر رام ولاس ویدانتی اور آچاریہ دھرمیندر مہاراج موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں ایودھیا کے اندر وشودھرمی سری رام مانوتا بھون  کی تجویز بھی منظور کی گئی لیکن اس کی مخالفت کرکےبھاگوت نےواضح  کردیاکہ جس گھناونی سیاست کا انہوں نے ذکر کیا تھا وہ کون کررہا ہے۔شایدانٹرنیٹ کے دور میں بھی بھاگوت جی  کو یہ خوش فہمی ہے کہ دہلی کی اشتعال انگیزی کااثر اتر پردیش کے انتخاب پر نہیں ہوگا۔
اس میں شک نہیں کہ بہار میں بی جے پی کو ہرانے سہرہ بنیادی طور پر بھاگوت جی کے ریزرویشن والے بیان کو جاتا ہے اس لئےان سے امیدکی جاتی  ہے کہ وہ سنگھ پریوار پر لگی پابندی کو خود ہی پامال کرکے اپنے مخالفین کی کامیابی میں تعاون  کریں گے ۔ شری بھاگوت  چونکہ بہت آرزو مند قسم کے سرسنگھ چالک  ہیں اس لئے انہیں اپنے آپ کو قابو میں رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ دوہفتہ قبل بھی انہوں نے لکھنومیں سویم سیوکوں سے کہا تھا کہ ہندوتوا کسی سے نفرت اور مخالفت نہیں بلکہ سب سے محبت، سب پر اعتماد اور اپنائیت ہے لیکن اس کے بعد ہی انہوں نے ہندوتوا کے قیام کی خاطر مہابھارت کیلئے تیار رہنے کا اعلان بھی کردیا اور اس کی تائید میں  ساری تاریخی   جنگوں کی مثالیں پیش کر دیں گویا عوام اور اپنے کارکنان  کو کنفیوژ کرنے کی بھرپور کوشش کر ڈالی لیکن اس بار کوئی جھانسے میں آتا دکھائی  نہیں دیتا ۔عوام تو  زبان حال سے یہی کہہ رہے ہیں کہ  اب اگر آپ لوٹ الٹے لٹک جائیں  تب بھی  ؎
ووٹ ہم نہیں دیں گے،  ہوچکا بہت ناٹک جاو راستہ ناپو، بائے بائے کرتے ہیں

No comments:

Post a Comment