Thursday 8 September 2016

وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ


ڈاکٹر سلیم خان
بیج اور پھل کا تعلق بھی مرغی اور انڈے جیسا ہے ۔اس  امرکا فیصلہ نہایت مشکل ہے کہ ان میں کون پہلے آیا؟ جب لوگ لاجواب ہوجاتے ہیں تو ٹالنے کیلئے کہہ دیا جاتاہے مرغا سب سے پہلے آیا۔ گمان غالب یہ ہے کہ اولین  مرغے  کی دائیں پسلی سے مرغی  وجود میں آئی  ہوگی اور پھراس نے  انڈوں اور چوزوں سے جہانِ رنگ و بو رونق بخشی  یہاں تک کہ علامہ اقبال کو اعتراف کرنا پڑا ’’وجود زن سے تصویر ِ کائنات میں رنگ‘‘۔ بیج اور پھل کابھی یہی معاملہ ہے کہ ان کے درمیان مرغے کی مانند  درخت پایاجاتا ہے۔ بیج سے پیڑ ، پیڑ سے پھل اور پھل میں بیج اس طرح مرغی سے انڈا اور انڈے سے مرغی والا لامتناہی سلسلہ جاری و ساری  رہتا ہے ۔ ممکن ہے اذنِ کن سے شجر پہلے وجود میں آیا ہو اور اس مبارک و مفید سلسلے کی ابتداء ہوگئی ہو ۔ والله أعلم بالصواب وإليه المرجع والمآب۔
ہندوستان بھر میں گزشتہ دنوں بڑے زور و شور سے امن و انسانیت مہم کا اہتمام کیا گیا جس کا ایک مقصد سدبھاونا منچ کا قیام بھی تھا ۔ مہم اور منچ کا تعلق بھی بیج اور پھل کا ساہے اور ان کے درمیان تحریک سایہ دار شجرکی مانند ہیں ۔ مہم کے بیج سے نکلنے والے درخت  میں پھل کے علاوہ پھول ، پتے، شاخیں ، تنا ، سایہ اور بہت کچھ تھا ۔ہر مہم عارضی ہوتی  ہےلیکن منچ یعنی  پھل کواپنے بیج کے سبب دوام حاصل  ہوجاتاہے ۔ کچھ مقامات پر یہ پھل پک چکے ہیں یعنی سدبھاونا منچ قائم ہوچکا ہے اور کچھ مقامات پر یہ تیاری کے مراحل میں ہے ۔ ممکن ہےجلد ہی دیگر مقامات پر بھی سدبھاونا منچ کا پھل اپنی خوشبو اور ذائقہ لٹائے  نیز اس کے بیجوں  سےوجود میں آنے والے نئے اشجار کے بارآور ہونے سےخزاں رسیدہ  چمن میں بادِ بہاری چل پڑے۔
اس موقع پر مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے ۔ابوظبی کی خلیفہ مسجد کے سامنے ایک درخت کے نیچے میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا ۔ ایسے میں عزیزم حسرت خان نے سوال کیا سلیم جانتے ہو یہ کون سا درخت ہے؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے حیاتیات کے مضمون میں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرلیا ۔ حسرت خان نے بتایا کہ یہ زیتون کا درخت ہے ۔ جب وہ عراق کے اندر شام کی سرحد کے پاس زیر ملازمت تھے  تو دیکھتے تھے کہ موسم بہار کے آتے ہی  زیتون کے گھٹنوں اونچے پودے پھلوں سے لد جایا کرتے تھے  مگر ایک یہ ہے کہ سر سے اونچاہوگیا ہے مگر برسوں سے یوں ہی کھڑا ہے ۔ موسم  کےآنے جانے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ یہ بے ثمر کا بے ثمر ہی رہتا ہے۔
حسرت بھائی کا  تبصرہ سن کر ایک  دانشور دوست نے کہا ’’  بھائی پھل کیلئے موسم  اور آب و ہوا کی  بڑی اہمیت ہے ۔ بلاد الشام کی بہار یہاں کا رخ نہیں کرتی اس لئے یہ خوشنما درخت سایہ تو  دیتے ہیں مگر پھلدار نہیں ہوتے‘‘۔ اس جواب کو سن کر ایک عالم فاضل دوست گویا ہوا ۔’’  بیج کا درخت بن جانا اور درختوں میں پھلوں کا لگنا یہ سب اذنِ الٰہی پر موقوف ہے۔ مشیتِ ایزدی کے ایک اشارے سے خزاں کا موسم بہار میں بدل جاتا ہے اور گلستان و بوستان لہلہانے لگتے ہیں ۔ یہ تبدیلی  باغبان مرضی سے نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ اس کیلئے  وہ عنداللہ مسئول بھی نہیں ہے ۔مالی کی ذمہ داری  تو  بس زمین کو نرم کرکے صحیح وقت پر بیج کا بودینا ہے۔ پھل کا لگنا نہ لگنا اللہ کی مرضی پرمنحصر ہے۔ مہم چلاکر جن لوگوں نے زمین کو نرم کیا اور امن انسانیت کے بیج کو بونے کی ذمہ داری اخلاص کے ساتھ اداکی  وہ اپنے فرض منصبی سے سبکدوش ہوگئے ۔ اب آگے ان کی دعائیں اور اللہ کی مرضی ۔

No comments:

Post a Comment