Thursday 11 August 2016

گل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھل جانے کے بعد


ڈاکٹر سلیم خان
اذکارِمسنونہ میں اگر قلب و ذہن بھی رطب اللسان ہو تو معرفت کےنئے باب کھلتے ہیں۔ مثلاً  زینے سے نیچے اترنے  کی دعا ہے سبحان اللہ  اور اوپر چڑھتےوقت اللہ اکبر کی تلقین ہے۔ آج کل لفٹ کے اندر یا باہر بھی یہ دعائیں لکھی ہوتی ہیں جنہیں ہم لوگ  بے ساختہ پڑھ لیتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا یہ عمل باعثِ اجر و ثواب ہے لیکن اگر غور و خوض بھی اس میں شامل ہوجائےتو  خیر وبرکت میں بیش بہا اضافہ ہوسکتا ہے۔  بظاہر نیچے اترتے وقت سبحان اللہ کہنے یا اوپر جاتے وقت اللہ اکبرکا ورد بے ربط سا لگتا ہے لیکن اگر اس اتار چڑھاو کو زندگی کے نشیب و فراز پر پھیلا دیا جائے اور اس دوران کی نفسیاتی کیفیت سے اسے جوڑ دیا جائے تو معنیٰ و مفہوم کی کئی جہتیں منکشف ہوتی ہے۔
اس جہانِ متحرک میں سکون کے علاوہ سب کچھ ہے۔ ہر شئے تغیر پذیر ہے اورتبدیلیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ  بے تکان جاری و ساری ہے۔ حالات زندگی بدلتےرہتے ہیں اور تبدیلی کی رفتاربھی  یکساں نہیں رہتی ۔ لیکن  جب وہ تندو تیز ہوتی ہے تو اپنی موجودگی کا شدت سے احساس دلاتی ہےاور جب ماند پڑجاتی ہے تو گمان ہوتا ہے کہ گویا سب کچھ ٹھہر گیا ہے حالانکہ یہ محض خوش گمانی ہے۔ وقت  کی گھڑی میں چلنے والے کانٹے کبھی نہیں رکتے۔ حضرت ِ انسان  کو مشیت کبھی  سیکنڈ کے کانٹے پر سوار کردیتی ہے تو وہ ایک منٹ میں اپنا چکر پورا کرلیتا لیکن جب اسے منٹ کے کانٹے پر سوار کردیا جاتا ہے تو اسے ایک گھنٹے میں اپنا طواف مکمل کرنا پڑتا ہے اور گھنٹے والے کانٹے سے لٹکے ہوئے فردِ بشر کو اسی دائرے کی تکمیل میں بارہ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ سارےجھولے اور ان پر سوار شائقین اپنی اپنی رفتار سے اس وقت تک محوِ گردش رہتے جب تک کہ ان کی کوک یا بیٹری ختم نہیں  ہوجاتی ۔
نشیب و فراز سفر حیات کا جزوِ لاینفک ہے۔جب انسان نیچے کو جارہا ہوتا ہے تو اس کے اندر حزن و ملال  کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ یہ کیفیت جب مایوسی میں بدلتی ہے تو انسان کے اندر احساس جرم جنم لیتا ہے ۔ وہ اپنی ناکامی کیلئےاپنے آپ ذمہ دارٹھہرا کر خود کو کوسنے  لگتا ہے ۔ یہ حالت اس کے قوتِ عمل کو سلب  کرتی ہے وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے اور خود اپنی نظر میں گر جاتا ہے۔ ایسے میں اگر اس کی زبان پر سبحان اللہ کا ذکر جاری ہوتووہ اسے یاد دلاتا ہے کہ تمام عیوب سے پاک اور قابلِ ستائش ذات تو صرف صرف اور رب کائنات کی ہے۔ یہ احساس مایوسی کو خود اعتمادی بدل دیتا ہے ۔ اللہ پر توکل کرکے  نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا اس کیلئے سہل تر ہوجاتاہے۔
حالات کےتبدیلی انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتی ہے۔ جب وہ اونچائی کی جانب رواں دواں  ہوتاہے ۔یکے بعد دیگرے کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں تو اس کے اندر کبر و غرور کا امکان پیدا ہوجاتا ہے ۔ نادان سمجھنا ہے کہ جو کچھ بھی وقوع پذیر ہورہا ہے وہ اس صرف  اورصرف  اس کی صلاحیتوں اور قوت بازو کا نتیجہ ہے ۔ اس میں کسی نادیدہ  ہستی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ ایسے میں وہ نہ صرف اپنے آپ سے بلکہ خدا کی ذات سے بھی غافل ہوجاتا ہے ۔کامیابی کی بلند منزلوں پر وہ احساسِ برتری کا شکار ہوکر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا  ہےایسے میں کلمۂ اللہ اکبر کاورداسے یاددلاتا ہے کہ بڑا تو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے ۔اس کے آگے تیری کوئی حیثیت نہیں۔’’برتری زیبا تو بس اس ذات بے ہمتا  کوہے‘‘  اس لئے کسی کواپنے سے کم تر نہ سمجھ۔
 حیاتِ زندگانی میں  جب  خوشی و مسرت ہاتھ آجائے تو دعا سکھائی گئی ’’سبحان اللہ ، اللہ اکبر ‘‘ یعنی نشیب و فراز کی متضاد کیفیتوں کو ایک دوسرے میں ضم کردیا گیا۔عروج وکامیابی کے لمحات میں اللہ کی پاکی اور تکبیر و توصیف کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ زوال و پستی  میں اپنے خالق و مالک کوکوئی نہیں بھولتا بلکہ زیادہ ہی یاد کرتا ہے۔ غفلت کی آندھی تو  بلندی  کی سہیلی ہےاسی لئے  افتخار راغب خبردار کرتے ہیں  ؎
خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے گل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھل جانے کے بعد

No comments:

Post a Comment