Wednesday 26 August 2015

ہاردک مل گیا مودی کو بھی مہسانے سے

 گجرات زلزلوں کی سرزمین ہے ۔ گاندھی کے اس دیس میں تقریباً ۳۰ سال تک(۳ سال کے استثناء کے ساتھ) کانگریس کی حکومت رہی ۔ ابتدائی دس سال اس نے پٹیل برادری کی خوب ناز برداری کی لیکن اس کے بعد شتریوں ، ہریجنوں ،ادیباسیوں اور مسلمانوں کو ملاکر اپنا ووٹ بنک قائم کیا۔ اس کے خلاف پٹیل برادری نے ؁۱۹۸۱ میں نونرمان نام کی زبردست تحریک چلائی اور کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔ یہ تحریک بظاہر ریزویشن کے خلاف تھی لیکن اس کے نتیجے میں  حکومت جنتا پریوار کی چمن بھائی پٹیل کے ہاتھوں میں آگئی جب وہ ابن الوقتی اور بدعنوانی کے دلدل میں جادھنسےتو پٹیل برادری نے بی جے پی کا رخ کیا اورکیشو بھائی پٹیل کے سر پر اقتدار کا تاج رکھ دیا۔ کیشو بھائی کو بھوج کا زلزلہ لے ڈوبا اور نریندر مودی کے بھاگ کھل گئے   انہوں نے فرقہ واریت کی آگ کو ایسے ہوا دی کہ پٹیل سماج ذات پات کا فرق بھلا کر ان کا ہمنوا بن گیا ۔ یہ جادو گزشتہ سال تک سر چڑ ھ کے بولتا رہا ۔
مودی جی کو اس خطرے کا اندازہ تھا اس لئے وہ دہلی جاتے ہوئے آنندی بین پٹیل کو وزیراعلیٰ کی کرسی سونپ گئے تاکہ  پٹیل برادری بھی خوش رہے اور اپنی کرم بھومی  پر ان کی سیاسی پکڑ بھی بنی رہے لیکن ہاردک پٹیل نے ۵۰ دن کے اندر نریندر مودی کے۵۰ سال کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ اپنے دورِ اقتدار میں بھی مودی  جی ۹ لاکھ لوگوں کی کوئی  ریلی نہیں کرسکے جبکہ  ہاردک پٹیل نے ان کے گڑھ احمدآباد میں یہ کارنامہ  کر دکھایا۔ اس پٹیل برادری نے جو نیویارک سے لے کر دبئی تک مودی کی تال پر کتھک کرتی تھی دن دہاڑے ان کو تارے دکھلا دئیے۔ اکتوبر میں  جب مودی  جی امریکہ جائیں گے تو پٹیل سماج کالے جھنڈوں کے ساتھ انکا استقبال کرے گا۔ گجراتی زبان میں ہاردک کے معنی ٰ ’دل سے ‘ کے ہوتے ہیں اور ہاردک نے اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے احمدآباد کے جلسے میں مودی جی کو ایسی ہاردک خواری کی کہ نتیش  اور لالو تو کجاکیجریوال اور راہل گاندھی بھی پیچھےر ہ گئے۔
مختلف ا قسام کے زہر کو ملا کر اگر مرکب بنا یا جائے تو اس کا تریاق مشکل ہوجاتا ہے ۔۲۲ سالہ  ہاردک پٹیل ایک ایسا ہی ایک چھلاوہ ہے جس کے آگے مودی جی بے بس ہیں اور اس سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کررہے ہیں تشدد سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا۔ امن قائم رکھیں۔ مودی جی کے منھ سے یہ اپدیش اچھے نہیں لگتےاس لئے کہ تشدد سے خود انہوں نے جتنا فائدہ اٹھایا ہے شاید ہی کسی اور نے اٹھایا ہوگا۔ہاردک  کے والد بی جے پی کے رکن ہیں۔ وہ خود کسی زمانے میں  کانگریس سیوادل میں تھا ۔ وہاں سے بغاوت کرکے اس نےولبھ بھائی پٹیل سیوا دل قائم کرلی۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں وہ کیجریوال کی عآپ کا ہمنوا بن گیا اور اب ریزرویش کی حمایت میں ایک عوامی تحریک برپا کرکے مودی جی کو چیلنج کردیا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو ؁۲۰۱۷ کے اندر گجرات میں کمل نہیں کھلے گا ۔ ہاردک نے کہا تو نہیں لیکن اس بات کا امکان ہے کہ آئندہ انتخاب میں گجرات کے اندر بھی دہلی کی طرح جھاڑو چلے گا اور بی جے پی کا سپڑا صاف ہو جائیگا۔ اس لئے کہ ہاردک  کے بقول پٹیل سماج حکومت بنانا توجانتا ہے مگرسرکار گرانا بھی جانتا ہے۔
گزشتہ دوماہ سے جاری اس احتجاج میں ۸۰ مظاہرے ہوئے لیکن سب کے سب پرامن تھے۔ احمدآباد میں آنے کے بعدہاردک کو حراست میں لیا گیا اور اسی کے ساتھ یہ پر تشدد ہوگیا ہے۔ حکومت نے اقدام کیوں کیا اس کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔  آتش زنی  کے بعد لا ٹھی چارج ہوا اور کرفیو لگا دیا گیا۔ اس سے قبل ہاردک پٹیل کو بہلانے پھسلانے کیلئے وزراء کی ایک مجلس سے بات چیت کیلئے بلایا گیا  اور مظاہرہ رد کرنے کی اپیل کی گئی مگر وہ اس جھانسے میں نہیں آیا۔ اس کے بعد پولس نے اس سے کہا کہ وہ ڈی ایم کو اپنا میمورنڈم دے کر مظاہرہ ختم کرے ۔ ہاردک جب ڈی ایم کے دفتر کی جانب چلا تو ۶۰ ہزار لوگ اس کے ساتھ ہولیے۔ انتظامیہ کو توقع تھی کہ ہاردک میمورنڈم دینے کے بعد اپنے گھر جاکر سوجائیگا لیکن ہاردک وہیں دھرنے پر بیٹھ گیا اور ایک ایسا مطالبہ کرڈالا جس نے سرکار کی نیند اڑا دی۔ اس نے کہا کہ وزیراعلی ٰ آنندی بین پٹیل خود ۴۸ گھنٹے کے اندر آکر میمورنڈم وصول کریں ورنہ وہ غیر میعادی بھوک ہڑتال پر چلا جائے گا۔ آنندی بین اسے اپنے پاس بلانے کے بجائے ڈی ایم کے پاس روانہ  کرنے کی غلطی تو پہلے ہی کرچکی تھیں  اب ایک نئے جال میں پھنس گئیں۔ میمورنڈم لینے کیلئے جانے سے ناک کٹتی تھی اور نہیں جانے کے نتیجے میں تشدد کا خطرہ تھا۔
نریندرمودی کے اشارے پر چلنے والی آنندی بین نے وہی کیا جس کی توقع تھی ۔ انہوں نے مصالحت کے بجائے مزاحمت کا راستہ چنا اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی ۔یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے کہ ۵۰ دنوں تک پرامن چلنے والا احتجاج اچانک پرتشدد کیسے ہوگیا؟ کوئی بعید نہیں کے یہ  اسے بدنام کرکے اس پر پولس ایکشن کو جائز قرار دینے کی سازش کا نتیجہ ہو۔ برما کے مسلمانوں کی خاطر  ممبئی میں ہونے والے مسلمانوں  کے مظاہرے کو بدنام کرنے کیلئے مٹھی بھر شرپسندوں  کی مدد سے جو کھیل کانگریس نے کھیلا وہ بی جے پی بھی کھیل سکتی۔مہاراشٹر میں کانگریس مسلمانوں کی اسی طرح احسانمندتھی جیسے کہ گجرات میں بی جے پی والے پٹیل سماج کے ہیں اور جس سیاست میں احسان فراموشی نہ ہو اسے جمہوری کہلانے کاحق ہی نہیں ہے۔ اب یہ حال ہے کہ ہاردک حراست میں ہے۔ بڑودہ اور احمدآباد میں انٹر نیٹ تو کجا فون لائن تک بند ہے ۔
 گجرات پھر ایک بار جل اٹھا ہے۔  یہ آگ کہاں تک پھیلے گی یہ کوئی نہیں جانتا۔ گجرات  کی راجدھانی سمیت ۱۲ سے زیادہ شہر تشدد کا شکار ہیں ۔ ۱۲۵ گاڑیوں کے جلائے جانے کی خبر ہے۔ ۱۶ پولس تھانوں کو آگ لگائی جاچکی ہے۔ مہسانہ  ضلع جہاں سےمودی ، امیت شاہ اور آنندی بین   کا تعلق ہے سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ یہاں پر وزیر مملکت امورِ داخلہ رجنی پٹیل کے گھر کو لوگوں نے پھونک دیا اور کئی وزراء کے گھر اور دفاتر جل کر راکھ ہوچکے ہیں۔ مودی کے حلقۂ انتخاب بڑودہ کے بی جے پی رکن اسمبلی اور رکن پارلیمان دونوں کو جلا کر ان کو آئینہ دکھلا دیا گیا ہے۔   گاندھی نگر سمیت کئی شہروں میں  کلکٹر اور ایس پی کے دفتر کو آگ لگا دی گئی ہے۔ ان مقامات پر آگ زنی سے قبل آگ بجھانے والے دستوں کے دفاتر کو بھیڑ نے گھیر لیا تاکہ وہ اپنا کام نہ کرسکیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی جی کی فراہم کردہ تربیت کا استعمال پٹیل سماجبڑی خوش اسلوبی کے ساتھ خود ان کی حکومت کے خلاف کررہا ہے۔ کئی شہروں میں ریل گاڑی کی پٹریوں کو اکھاڑ دیا گیا ہے۔ پٹیل نوجوان ہاردک کے اس دعویٰ کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں کہ اگر ہمیں اپنا حق نہیں دیا گیا تو ہم اسے چھین لیں گے۔  ہاردک نے یہ بھی کہا کہ ہم گاندھی اور پٹیل کے وارث ہیں لیکن اگر بھگت سنگھ بن گئے تو راون کی لنکا کو آگ لگا دیں گے  اور سچ تو یہ ہے مودی جی بھی راون کی مانند بے یارومددگار اپنی لنکا کو جلتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔  
 ہاردک کے مطابق پٹیلوں کی آبادی گجرات میں تو دو کروڈ سے کم ہے مگر ملک بھر میں وہ ۲۷ کروڈ ہیں ۔ اس  کے مطابق ایوانِ پارلیمان میں ۱۷۰ارکان کا تعلق پٹیل سماج سے ہے۔ اس نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ نائیڈو اور نتیش بھی پٹیل ہیں ۔این ڈی اے کے اندر فی الحال پٹیلوں کی دو سیاسی جماعتیں اپنا دل اورراشٹریہ سمتا پارٹی شامل ہیں لیکن اس نے ان کا حوالہ نہیں دیا۔  اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے ہاردک پٹیل اپنےمہا کرانتی مظاہرے میں بندوق کے ساتھ آیا تھا اور اس نے اعلان کیا کہ  اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کیلئے نوجوان سڑکوں پر آجائے اور پھر اسے اپنے حقوق نہ ملیں تو ان میں سے کچھ نکسلوادی اور کچھ دہشت گرد بن جائیں گے۔  نکسلواد اور دہشت گردی کو اس طرح ببانگ دہل وجۂ جواز فراہم کرنے کیلئےہاردک پٹیل مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ بابری مسجد سے لے کر گجرات کے فسادات تک ہر دہشت گردی کوسنگھ پریوار عوامی جذبات  کا بےساختہ  اظہار قرار دے کر جائز قراردیتا رہاہے  لیکن اب ہاردک پٹیل نے کانٹے سے کانٹا نکالا ہے۔
ہاردک  پٹیل کے مطالبات کو منظور کرلینا بی جے پی کیلئے بہت آسان نہیں ہے۔ گجرات میں سرگرمِ عمل شتریہ ٹھاکور سینا نے اس مطالبے کی مذمت ہوئے کہا کہ اگر پٹیل ۱۲ فیصد ہیں تو ہم ۷۸ فیصد ہیں اگر حکومت نے پٹیلوں کو ایک فیصد ریزرویشن بھی دیا تو ؁۲۰۱۷ دور کی بات ہے ہم اسی سال حکومت کو اکھاڑ دیں گے۔  حکومت کی نیت پر شک کرتے ہوئے الپیش ٹھاکور نے کہا ممکن ہے حکومت اس بہانے سے ریزرویشن ختم کرنا چاہتی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا  کہ ان عمومی ذات (یعنی نام نہاد اعلیٰ ذات) کے لوگوں نے مسلمانوں کو ہمارا دشمن بنا کر پیش کیا اور پسماندہ سماج کو ان سے لڑا دیا لیکن اب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ مسلمان بھی پسماندہ ہیں۔ وہ ہم میں سے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ  ہمارے اصل دشمن وہ لوگ ہیں جو ہم سے اپنا ریزرویشن کا حق چھین لینا چاہتے ہیں ۔
 ہاردک پٹیل ایک حقیقت پسند نوجوان ہے ۔ اسے پتہ ہے کہ ریزرویش کے خلاف چلنے والی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی اس لئے کہ ہندومعاشرے کی بنیاد ذات پات پر ہے اورتمام سیاسی جماعتیں ذات پات کی سیاست کھیلتی ہیں ۔ ایسے میں دوسروں کو ریزرویشن سے محروم کرنے کیلئے ہاتھ پیر مارنے کے بجائے خود بھی اس سے فائدہ اٹھانا بہتر متبادل ہے۔ پٹیل برادی کی جانب سے ریزرویشن کے مطالبے نے مودی جی کے گجرات ماڈل کی قلعی کھول دی ہے۔ اگر پٹیل بھی پسماندہ ہیں تو آخر گجرات میں ترقی کس نے کی ہے؟ کیا صرف اڈانی ، امبانی ، ٹاٹا اور برلا کی خوشحالی پورے گجرات کے ترقی یافتہ ہونے کی علامت ہے۔ پٹیل سماج اگر واقعی میں خوشحال ہوتا تو اس تحریک کو ایسی پذیرائی نہیں ملتی ۔ یہ تو اندر ہی اندر پکنے والے آتش فشاں کا اچانک پھٹ جانا ہے۔ اس لاوے کو طویل عرصے تک  پروپگنڈا کے فریب سے مودی جی نے ڈھانپے رکھا ۔
پٹیل بنیادی طور پر کاشتکار لوگ ہیں ۔ ان لوگوں نے زراعت سے جو کچھ کمایا اسے چھوٹے اور اوسط درجے کی صنعتوں میں لگایا لیکن مودی جی کے ترقی پذیر گجرات نے جب اپنی توجہات بڑی بڑی صنعتوں کی جانب مرکوز کردی تو یہ لوگ نظر انداز ہوگئے۔ ریزرو بنک کے اعدادو شمار کے مطابق گجرات کے چھوٹے اور اوسط درجے کی کل دولاکھ ۶۱ ہزار اکائیوں میں سے ۴۸ ہزار بیمار ہیں ۔ اس کے باوجود مودی جی کو بہار تو بیمارو نظر آتا ہے گجرات نہیں۔ ان صنعتوں میں ۲۱ لاکھ لوگ ملازمت کرتے ہیں جن میں بڑی تعداد پٹیل برادی کی ہے اور ان میں سے اکثر بے روزگار ہو چکے ہیں ۔  سورت میں ہیروں کا کاروبار پٹیل برادی کے ہاتھ میں ہے لیکن پچھلے ۶ ماہ سے وہاں مندی چھائی ہوئی ہے اس لئے تقریبا ً ۱۵۰ کارخانے بند ہوگئے جس کے سبب ۱۰ ہزار لوگوں کو ملازمت گنوانی  پڑی۔  سورت میں ہاردک پٹیل کی ریلی میں جو ۵ لاکھ افراد شریک ہوئے تھے اس کے پیچھے یہی عوامل کارفرما تھے۔ ہاردک کے مطابق اب تک گجرات میں ۶۰۰۰ ہزار کسان خودکشی کرچکے ہیں مگر اب اگر ایک بھی کسان مرے گا تو سارا ملک اس کی قیمت چکائےگا۔ یہ زمینی صورتحال  ہےجس نے پٹیل سماج کو سڑکوں پر اترنے کیلئے مجبور کردیا ہے۔
سیلفی ماسٹرمودی جی اور ان  کےبھکتوں کو کریڈٹ لینے کا خبط سوار ہے اس لئے گزشتہ ہفتے تک کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ آنندی بین پٹیل کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی خاطر یہ مودی  کی سازش ہے۔ اگر آنندی بین بھی شیوراج چوہان یا وجئے راجے سندھیا کی طرح مضبوط رہنما ہوتیں جنھوں نے دو مرتبہ اپنے بل بوتے پر غیر معمولی انتخابی کامیابی درج کروائی تو یہ بات معقول لگتی لیکن آنندی بین  کے نامزد کئے جانے تک  کسی ان کا نام بھی نہیں سنا تھا اور پھراس گجرات میں جہاں مودی جی  نےاپنے وفادارایک سے ایک خطرناک پولس افسر کو جیل سے نکال کر اہم عہدوں فائز کررکھا ہے نیز سنجیو بھٹ جیسے افسران کو ٹھکانے لگا دیا ہے کسی بھی رہنما کوہرین پنڈیا کے انجام سے دوچار کردینا کوئی مشکل  کام نہیں ہے۔  پہلے کم ازکم سی بی آئی کی تفتیش میں کچھ حقائق سامنے آجاتے تھے لیکن اب تو اس کا امکان بھی مفقود ہوچکا ہے اس لئے آنندی بین کو گھر بھیجنے کیلئےکسی تحریک کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ  ایک ہلکا سا اشارہ کافی ہے۔
کائنات ہستی میں گمراہ انسان پرجب  مشیت کی نوازشیں ہوتی ہیں تو اس کے اندر جذبۂ  تشکرکے بجائے کبر ونخوت  جنم لیتا ہے۔ حکمرانوں  کا ظلم طغیان جب اپنی حدوں سے گزر جاتا ہے تو مشیت اپنے انوکھے انداز میں اس سے انتقام لیتی ہے۔ اپنے دور کے سب بڑے بت ساز و بت پرست کے گہوارے میں عالمِ انسانیت کا سب سے بڑا بت شکن ابراہیم ؑ  خلیل اللہ پیدا ہوتے ہیں ۔ فرعون کی فرعونیت کے خاتمے کیلئے اٹھنے والے موسیؑ کلیم اللہ کی پرورش کا انتظام فرعون کے محل میں کردیا جاتا ہے۔ شاید ایسا ہی کچھ ہمارے ملک میں ہونے جارہا ہے مودی جی کا توڑ پیدا کرنے میں جب ساری ریاستیں ناکام ہوگئیں تو خود ان کے اپنے گجرات میں ہاردک پٹیل نے جنم لیا اور ان کے گورکھ دھندے کو ملیا میٹ کردیا ۔  یہی بات قرآنِ عظیم میں کچھ اس طرح سے بیان ہوئی ہے کہ ’’ اور اگر خدا ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفاع نہ کرے تو زمین تباہ و برباد ہو جائے۔ مگر خدا تمام جہانوں پر بڑا لطف و کرم کرنے والا ہے۔ ‘‘(البقرہ ۲۵۱)




Tuesday 18 August 2015

उदय से पतन की अनोखा साल

राष्ट्रीय राजनीति की द्रष्टी से इस असाधारण वर्ष को दो भागों में विभाजित किया जा सकता है। इसका पहला हिस्सा पिछले स्वतंत्रता दिवस से लेकर इस साल गणतंत्र दिवस तक था और दूसरा गणतंत्र दिवस से लेकर तो स्वतंत्रता दिवस तक की अवधि है। इस दौरान देश की जनता ने प्रधानमंत्री का उदय और पतन दोनों देख लिया है और लोगों को पता चल गया कि जो जिस तेजी के साथ ऊपर जाता है उसी गति से नीचे भी आ जाता है।
उन्नति पर्व की शुरुआत चुनाव परिणाम की घोषणा से हुई। खुद भाजपा को इस बात की उम्मीद नहीं थी कि उसे अपने बल पर बहुमत मिल जाएगा। पहली बार एक ऐसी पार्टी को यह सम्मान मिला जो उसके सपने में भी नहीं था। पतन की शुरुआत दिल्ली के चुनावी नतीजों से हुई। भारत के इतिहास में किसी नवजात पार्टी को ऐसी जीत नहीं मिली थी।  संसद में पिछले सप्ताह सुषमा स्वराज ने तो स्वीकार कर लिया कि वह अपयश पर्व से गुजर रही हैं। हो सकता है स्वतंत्रता दिवस के भाषण में प्रधानमंत्री भी घोषणा कर दें कि फिलहाल उनके सितारे भी गर्दिश में हैं।
चुनाव से पहले मोदी जी के सर्मथक उनके जो गुण खूब बढ़ा-चढ़ाकर पेश कर रहे थे, उचित मालूम होता कि उन्हीं के आधार पर प्रधानमंत्री की वार्षिक प्रदर्शन की समीक्षा की जाए। वह विशेषताएं और गुण निम्नलिखित थे:
• विकास पुरूष,
• उद्योग व्यापार मित्र,
• भ्रष्टाचार से मुक्त,
• हिंदू राष्ट्रवादी और
• कार्यकुशल
कार्यकौशल्य: स्वतंत्रता दिवस के अवसर पर पिछले साल मोदी जी ने क्या कहा था यह तो शायद ही किसी को याद हो इसलिए कि खुद मोदी जी ने भी कहने के बाद उन बातों को भुला दिया था मगर '' स्वच्छ भारत '' का नारा भला कौन भूल सकता है? मोदी जी ने खुले में शौच की मजबूरी को इतना खोलकर बयान किया था सारा देश शर्मसार हो गया और दुनिया भर का ध्यान उस ओर आकर्षित हो गया। संयुक्त राष्ट्र के आंकड़े भी सामने आ गए कि खुले में शौच करने वाली आधी जनसंख्या भारत में रहती है।
ढाई महीने बाद गांधी जयंती के अवसर पर बड़े गाजे-बाजे के साथ '' स्वच्छ भारत '' नामक अभियान शुरू किया गया। टीवी पर सुंदर दिखने वाले रंगीन कचरे को साफ करके रास्तों पर फैलाया गया ताकि मंत्री जी को दुर्गंध न आए और फिर मीडिया के सामने उसे साफ करने का नाटक किया गया। इस अभियान के विज्ञापन में 94 करोड रुपये खर्च भी हुए लेकिन दस महीने बाद भाजपा की ही केंद्र सरकार के शहरी विकास मंत्रालय ने 476 शहरों की समीक्षा कर के जो खुलासे किए इसे पढ़ कर मोदी सरकार को इस्तीफा दे देना चाहिए।
सफाई में सबसे अच्छा प्रदर्शन करने वाले 100 शहरों में से 39 का संबंध दक्षिण भारत से है जहां किसी राज्य में भाजपा सत्ता में नहीं है। दूसरा स्थान पूर्वी राज्यों का है वह भी अब तक कमल के साए से वंचित है। पश्चिम और उत्तर जहां भाजपा की राज्य सरकारें हैं क्रमशः तीसरे और चौथे स्तर पर हैं। दस बेहतरीन शहरों की अगर बात की जाए तो नवी मुंबई के अलावा एक भी शहर ऐसे राज्य में नहीं है जहां भाजपा सत्तासीन हो। सबसे खराब प्रदर्शन करने वाले दस शहरों पर नजर डालें तो पता चलता है 8 भाजपा की सरकार वाले राज्यों में हैं। वाराणसी जो मोदी जी का अपना चुनावी क्षेत्र है 418 वें स्थान पर है। यह कार्यकुशलता है या चराग तले अंधेरा।
हिंदू राष्ट्रवाद: हमारे देश में बुद्धिजीवियों की एक बहुत बड़ी संख्या ऐसी भी है जिसके लिये किसी नेता का हिंदू राष्ट्रवादी होना अवगुण नहीं है। मोदी जी के सत्ता में आते ही हिंदू राष्ट्रवादियों के हौसले बुलंद हो गए। जबानें बेलगाम हो गईं। किसी ने कहा सारे भारतीय हिंदू हैं। किसी ने रामज़ादे और हरामज़ादे का अंतर बताना शुरू कर दिया। कोई लव जिहाद के खिलाफ प्रतिबद्ध हो गया तो किसी ने घर वापसी का अभियान छेड़ दिया। सांप्रदायिक दंगों और मस्जिदों के साथ चर्च पर भी होने वाले हमलों में वृध्दि हो गई लेकिन विश्व व्यापी आलोचना के पश्चात मोदी जी ने साक्षी महाराज को कुछ इस तरह डांटा कि वह रोपड़े।
इस प्रकार सारे महारथियों को स्पष्ट संदेश मिल गया। आरएसएस ने अपने इतिहास में पहली बार मुसलमानों के लिए इफ्तार पार्टी का आयोजन शुरू कर दिया और अब तो उलेमा की बैठकें भी होने लगी हैं। भले ही इसका कोइ खास फायदा ना हो मगर कम से कम लव जिहाद और घर-वापसी के कारण जो वातावरण खराब हो रहा था उस पर रोक लगी। अब तो हाल यह है कि जंतर-मंतर पर दलित इस्लाम स्वीकार करते हैं, लेकिन संघ परिवार प्रतीकात्मक विरोध से आगे नहीं जा पाता। सीमा पार से होने वाले आतंकवादी हमलों में भी किसी की जबान नहीं खुलती। क्या यही हिंदू राष्ट्रवाद है।
भ्रष्टाचार का खात्मा: मोदी जी ने अपनी सरकार की पहली वर्षगांठ के अवसर पर छत्तीसगढ़ में जनता से सवाल किया था। इस वर्ष के दौरान क्या आप लोगों ने कोई घोटाला सुना? प्रधानमंत्री को नहीं पता था कि खुद छत्तीस गढ में डेढ़ लाख करोड का चावल घोटाला उबल रहा है। उसके बाद तो भ्रष्टाचार का ज्वालामुखी फट पड़ा महाराष्ट्र में चिक्की का घोटाला, हरियाणा में जमीन का घोटाला और मध्य प्रदेश की व्यापम भ्रष्टाचार सामने आते चले गए। व्यापम घोटाले को दबाने के लिए शिवराज सिंह चौहान ने जो कार्यप्रणाली अपनाई उस पर सोशल मीडिया में यह चुटकुला प्रसिध्द हो गया कि '' हमारे यहां यम राज के बदले शिवराज आता है।'' जिस किसी ने जबान खोलने का साहस किया उसका गला घोंट दिया गया और अब 70 से अधिक छात्र राष्ट्रपति से आत्मदाह की अनुमति मांग रहे हैं। इस तरह '' न खाऊँगा और न खाने दूंगा '' वाले नारे की धज्जियां उड़ गईं।
इस एक साल में आने वाला सबसे बड़ा परिवर्तन '' नामो से लामो '' तक की यात्रा है। एक साल पहले चारों ओर नामो का बोलबाला था। हर कोई यह जानना चाहता था कि  मोदी किस मुद्दे पर क्या कह रहे हैं और उनकी हर ऊटपटांग बात मीडिया पर छा जाती थी लेकिन अब मोदी जी मौन धारण किए हुए हैं। चुनावी सभाओं में रटी रटाए भाषण या विदेश में लिखे हुए वक्तव्य के अलावा वह चुप्पी साधे रहते हैं। चुनावी सभाओं के भाषणों का भी यह हाल है कि बिहार के गया शहर में उनके भाषण का मिनटों में नीतीश कुमार ने ऐसा पोस्टमार्टम किया कि मीडिया में मोदी के बजाय नीतीश का बोलबाला हो गया।
इसके विपरीत ललित मोदी का यह हाल है कि अगर वह कोई मामूली सा ट्वीट भी करे तो मीडिया पर छा जाता है और लोग इस की बात को प्रधानमंत्री के मन की बात ज्यादा महत्व देते हैं। सुषमा के तुफ़ैल अपने खिलाफ वारंट के बावजूद वह ऑस्ट्रेलिया में आईसीसी के प्रतिसर्पधी नई प्रणाली स्थापित करने की घोषणा कर रहा है और सारी दुनिया उसकी ओर आकर्षित है। ललित मोदी विवाद ने मोदी सरकार का अभूतपूर्व अपमान किया है। विदेश मंत्री सुषमा स्वराज इसके चक्रव्यूह में आए दिन फंसती जा रही हैं। वह जब भी कुछ बोलती हैं उनकी परेशानी बढ़ जाती है।
अभी हाल में उन्होंने संसद में कहा कि किसी कैंसर पीडित महिला की मदद करना अगर अपराध है तो वह उसकी दोषी हैं। इसके बाद वह बोलीं कि मैं ने यह सहयोग मौखिक किया है अगर किसी के पास मेरे खिलाफ सबूत हो तो प्रदान करे। राहुल ने सुषमा के बयान को उन्हीं पर उलट दिया और कहा कि यदि सुषमा मानवीय आधार पर किसी की मदद करना चाहती थीं तो ऐसा चोरी चुपके क्यों किया गया? अपने कार्यालय से उन्होंने पत्र क्यों नहीं लिखवाया? यह पर्दादारी उनके खिलाफ साक्ष है और उन्हें राष्ट्र को यह बताना होगा कि इस मामले में उन्होंने ललित मोदी से कितनी राशि रिश्वत के रूप में ली है?
सोनिया ने तो उसे नाटक बाजी बताकर खारिज कर दिया लेकिन मोदी जी की चोंच अभी तक इस गंभीर मामले में नहीं खुली इसलिए कपिल सिब्बल जैसे लोगों ने मोदी जी को ''भ्रष्ट्राचारों का चौकीदार '' के उपनाम से नवाज दिया है। मोदी जी ने बिहार के अंदर सिंधिया और चौहान की प्रशंसा तक कर डाली जिनके खिलाफ अनगिनत सबूत सामने आ चुके हैं।
नामो से लामो के परस्पर संबंध के बारे में बहुत ज्यादा तथ्य अभी पर्दे के पीछे हैं लेकिन कांग्रेस का आरोप है मोदी जी के चहीते गौतम अडानी के ललित मोदी से करीबी संबंध हैं। यह उस समय बने जब वह मुख्यमंत्री के रूप में गुजरात क्रिकेट एसोसिएशन के अध्यक्ष थे। मोदी ने बाद में यह पद अपने दाहिने हाथ अमित शाह के हवाले किया और उनके जमाने में ललित मोदी के साथ संबंध खूब फले फूले। ललित मोदी के मामले में मोदी जी चुप्पी का एक कारण यह भी हो सकता है कि जिस दिन वह मुंह खोलेंगे चारों ओर से आरोपों का एक ज्वालामुखी फट पड़ेगा जो उनके साफ सुथरे दामन का पोल खोल देगा।
भ्रष्टाचार के खिलाफ मोदी जी के धर्म युध्द की कलई भाजपा पूर्व उपाध्यक्ष राम जेठमलानी ने खोल दी। भ्रष्टाचार पर लगाम लगाने की खातिर मुख्य सतर्कता आयुक्त के रूप श्री वी के चौधरी की सिफारिश के खिलाफ जेठमलानी ने राष्ट्रपति प्रणव मुखर्जी को पत्र लिखकर प्रार्थना की कि वह इससे परहेज करें इसलिए कि यह नामांकन राष्ट्र के लिए एक बहुत बड़ी आपदा बनेगा । राम जेठमलानी ने वी के चौधरी पर आरोप लगाया कि वह न केवल भ्रष्ट हैं बल्कि आपराधिक गतिविधियों में लिप्त हैं। राष्ट्रविरोधी तत्वों के साथ अपने संबंधों के कारण वह बच निकलते हैं।
मोदी जी अगर इस तरह के आदमी की मदद से भ्रष्टाचार को समाप्त करना चाहते हैं उनके इरादे संदिग्ध हो जाते है। राम जेठमलानी ने प्रधानमंत्री को पत्र लिखकर बताया कि '' उनके मन में प्रधानमंत्री के प्रति हर रोज गिरता सम्मान अब पूर्णत: समाप्त हो गया और वह न्यायालय व जनता की अदालत में लडेंगे। '' यह वही राम जेठमलानी हैं जिन्होंने सब से पहले प्रधानमंत्री के उम्मीदवार के रूप में नरेंद्र मोदी का समर्थन किया था।
उद्योग मित्र: मोदी जी ने अपने पहले 6 महीने के अंदर गौतम अडानी और मुकेश अंबानी के वारे न्यारे कर दिये और 'मैक इन इंडिया' का नारा बुलंद करके सारी दुनिया के उद्योगपतियों को भारत में आकर निवेश के लिये आमंत्रित किया लेकिन लोग इस कागजी शेर के झांसे में नहीं आए। इस दौरान उन्होंने भूमि अधिग्रहण का नया क़ानून बना कर किसानों की जमीनों पर कब्जा करने की नाकाम कोशिश की मगर राहुल के आरोप '' सूट बूट वाली सरकार '' ने प्रधानमंत्री की चूलें हिलादीं।
जब मोदी जी को दिल्ली और बंगाल के चुनावी परिणाम से यह आभास हुआ कि गरीब जनता के अंदर उन की छवि खासी बिगड़ चुकी है तो उन्होंने हड़बड़ाहट में जो कदम उठाए इससे देश के पूंजीपति भी नाराज हो गए और मोदी जी की हालत न खुदा ही मिला न विसाले सनम की सी हो गई। मोदी जी क्षमताओं के प्रशंसक राहुल बजाज ने अपने हालिया बयान में उनका जो बाजा बजाया है वह अपनी मिसाल आप है।
राहुल बजाज के पिता बहुत बड़े गांधीवादी थे लेकिन उनके विचार में तत्कालीन कांग्रेस पार्टी गांधीजी तो दूर नेहरू जी वाली भी नहीं है। राहुल बजाज ने भ्रष्टाचार से बचने के लिए कभी भी सरकार के साथ व्यापार नहीं किया इसलिए वह निडर विचार व्यक्त करने के लिए प्रसिध्द हैं। राहुल बजाज ने गुजरात दंगों के बाद मोदी जी की आलोचना जरूर की थी लेकिन बाद में वह मोदी जी के प्रशंसकों की सूची में शामिल हो गए थे।
अभी हाल में एनडीटीवी से बातचीत करते हुए राहुल बजाज ने कहा कि 30 साल के बाद भारत की जनता ने किसी दल को स्पष्ट बहुमत प्रदान किया और 27 मई के दिन लोगों को एक सम्राट प्राप्त हुवा। यह एक ऐतिहासिक सफलता थी। मैं सरकार के खिलाफ नहीं हूँ, लेकिन तथ्य यह है कि सरकार की चमक मांद पड़ती जा रही है। राहुल ने यहां तक कह दिया कि '' यह नरेंद्र मोदी की सरकार नहीं है '' यह वाक्य दरअसल उद्योग और धंदे के क्षेत्र में मोदी सरकार के प्रति पाई जाने वाली गंभीर निराशा का प्रतीक है।
देश के व्यापारी और उद्योगपति वर्ग ने नई सरकार के साथ जो उम्मीदें बांध रखी थीं वह सपने चकनाचूर हो चुके हैं। उन्नति और विकास का प्रतीक समझे जाने वाले नरेंद्र मोदी पर गिरावट और पिछड़ेपन का ग्रहण लग चुका है। वैसे यह तो होना ही था मगर यह सब इतनी जल्दी हो जाएगा इसकी कल्पना मोदी जी के बड़े से बडे दुश्मन को भी नहीं थी।
यह क्यों हो रहा है इसके कई कारण हैं लेकिन स्वतंत्रता दिवस के सुखद अवसर पर एक दिलचस्प उदाहरण देखें। नरेंद्र मोदी की उन सभी गुणों के अलावा जिनका ऊपर उल्लेख किया गया बहुत सारी खामियां भी हैं मसलन अगर आप दुनिया के सबसे बड़े अपराधी को खोजने के लिए गूगल बाबा की मदद लें तो वह मोदी जी की तस्वीर दिखला देते हैं और यदि इस साइट पर सब से भोंदू प्रधानमंत्री टाइप करें तब भी गूगल बाबा मोदी की ओर इशारा कर देते हैं। न जाने उन्हें हमारे प्रधानमंत्री से कौन सा बैर है। ख़ैर ये सभी गुण और दोष जगजाहिर हैं परंतु कभी किसी ने यह नहीं सुना कि मोदी जी किताबें भी लिखते हैं, बल्कि उन्हें किताबें पढ़ने का शौक है यह बात भी अखबारों की शोभा नहीं बनी लेकिन अब अचानक यह खुलासा भी हो गया है कि अमित शाह साहब दिल्ली में मोदी की तीन पुस्तकों का विमोचन करने वाले हैं। इस समारोह की अध्यक्षता राजनाथ सिंह करेंगे।
पुस्तक का शीर्षक भी कम दिलचस्प नहीं है मसलन सामाजिक सद्भाव सद्भावना। मोदी जी को चाहिए था कि अगर वह किसी को अपने नाम से किताब लिखने के लिए कहते तो कम से कम विषय तो उनके व्यक्तित्व के अनुरूप होता। अब कहां सद्भावना और कहा नरेंद्र मोदी, यह तो मानो चोर की दाढ़ी में तिनका वाली बात हो गई। दूसरी पुस्तक का नाम ज्योति पुंज है जो ऐसे लोगों की जीवनी है जिनसे उन्हें प्रेरणा मिली। किताबें लिखवा कर श्रद्धांजलि अर्पित करना बहुत आसान है लेकिन आडवाणी और जोशी को 'मार्गदर्शक' बनाकर उन्होंने जिस तरह '' बाहर का रास्ता दिखा दिया '' वह जगज़ाहिर है। उनके व्यव्हार से मार्ग दर्शक का असली अर्थ '' राह देखने वाला '' या '' रास्ता नापने वाला '' स्पष्ट हो गया है।
तीसरी किताब काव्य संग्रह है। कल युग की इससे बड़ी विडंबना और क्या होगी कि जो व्यक्ति लिखा हुआ भाषण पढ़ने में भी गलतियाँ करता हो वह किताबें लिख रहा है। वैसे मोदी जी अगर इस स्वतंत्रता दिवस के भाषण में घोषणा फरमादें कि अब वह राजनीति को अलविदा कहकर लेखन पाठन के लिए अपना जीवन समर्पित कर देंगे तो यह स्वयं उनके  और समाज के हित में एक बहुत शुभ निर्णय होगा। मोदी जी की पुस्पकों के समाचार की  संचार माध्यम ने जैसी अनदेखी की उस से पता चलता है कि अब देश वासियों ने उन्हें गंभीरता से लेना छोड दिया है इस लिये शायद ही कोई उन के स्वतंत्रता दिवस के भाषण को गंभीरता पूर्वक सुनेगा वैसे भी राहुल गांधी ने डरपोक प्रधान मंत्री कह कर मोदी जी की हवा निकाल दी है।⁠⁠[8/18/2015, 

राजा हो या रंक यहाँ तो सब हैं चौकीदार

रानी झांसी की नगरी में 25 अक्टूबर  2013 को प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी ने घोषणा की थी '' मुझे प्रधानमंत्री नहीं चौकीदार बनाइये'' लेकिन जब जनता ने उन्हें यह जिम्मेदारी सौंप दी तो 15 अगस्त  2014 को उन्होंने घोषणा की कि '' मैं प्रधानमंत्री नहीं प्रधान सेवक हूँ। ख़ैर प्रधान सेवक ने राजनाथ सिंह को राष्ट्र का चौकीदार बना कर उन्हें गृह मंत्रालय का कलमदान सौंप दिया। राजनाथ सिंह ने किरण रजेजो को अपना राज्यमंत्री बना लिया इस तरह देश की सुरक्षा के लिए एक त्रिमूर्ती अस्तित्व में आ गई। अब यह देखना है कि गुरदासपूर में जब आतंकवादी हमला हुआ तो इस त्रिमूर्ती ने अपनी जिम्मेदारियों को किस तरह निभाई?
सुबह 5 बजे हमला हुआ और 5 घंटे बाद महा चौकीदार यह कहकर मध्यप्रदेश के नीमच शहर रवाना हो गए कि '' हालात काबू में हैं। मैं ने मुख्यमंत्री पंजाब से बात कर ली है और आवश्यक आदेश दे दिए हैं। '' हालात किसके नियंत्रण में हैं? मुख्यमंत्री से क्या बात हुई? और किसको क्या आदेश दीये? इस बाबत उन्होंने कुछ नहीं बताया मगर पाकिस्तान के रवैये पर आश्चर्य व्यक्त करते हुए कहा कि समझ में नहीं आता कि वह क्या चाहता है? हम दोस्ती का हाथ बढ़ाते हैं वह आतंकवाद फैलाता है। हम पहल नहीं करेंगे लेकिन कड़ा जवाब देंगे। उनके सहयोगी किरण ने केवल यह सूचना दी कि आतंकवादियों ने किसी को बंधक नहीं बनाया है।
प्रधान सेवक ने चौकीदार के दिल्ली से निकल जाने के बाद स्थिति का जायजा लेने के लिए एक बैठक बुलवाई। इस बैठक में पंजाब से चुनाव लड़कर हारने वाले अरुण जेटली मौजूद थे। उनके अलावा रक्षा मंत्री मनोहर परिकर और संसदीय मामलों के मंत्री वेंकैया नायडू शरीक थे। यह कहा गया कि इस बैठक के बाद वित्त मंत्री अरुण जेटली पत्रकारों से बातचीत करेंगे लेकिन वह संवाददाता सम्मेलन हुआ ही नहीं। मनोहर परिकर पिछले दिनों कसम खा चुके हैं कि वह 6 महीने तक कुछ नहीं बोलेंगे क्योंकि उनकी हर बात का गलत मतलब निकाल लिया जाता है इसलिए वे भी चुप रहे। वेंकैया नायडू बेचारे जो कहते हैं वह खुद उनकी समझ में नहीं आता इसलिए उन्होंने भी चूप्पी साध ली और मोदी जी तो हैं ही मौनी बाबा।
उक्त बैठक में राजनाथ तो इसलिए शरीक नहीं हो सके कि वह दिल्ली से बाहर थे लेकिन किरण रजेजो दिल्ली ही में मौजूद थे फिर भी उन्हें बुलाना जरूरी नहीं समझा गया यह आपसी विश्वास की कमी का प्रतीक है। इस हमले के लगभग 24 घंटे बाद प्रधान सेवक ने संसदीय बोर्ड की बैठक में इसे कायरतापूर्ण हमला करार देते निंदा की और पंजाब पुलिस की प्रशंसा की। गृह मंत्री ने संसदीय बोर्ड की बैठक में इस अभियान की लंबाई का यह कारण बताया कि वे कम से कम एक आतंकवादी को जिंदा गिरफ्तार करना चाहते थे ताकि उनकी वास्तविकता प्रकट हो सके। गृह मंत्री की इस दलील को स्वीकार कर लिया जाए तो यह भी मानना पड़ेगा कि वे इस उद्देश्य में विफल हुए क्योंकि तीनों आतंकवादी मारे गए और सारे रहस्य दफन हो गए। अब उनके बारे में जो कुछ कहा जा रहा है वह सब अटकलें संदेह के दायरे में आती हैं।
चौकीदार नीमच में जब सीमा सुरक्षा बल के लोगों को नसीहत कर रहे थे प्रधान सेवक मौन बैठे थे कि अचानक पूर्व राष्ट्रपति अब्दुल कलाम के मौत की खबर आ गई और मीडिया का ध्यान गुरदासपुर से हट गया। प्रधानमंत्री ने पूर्व राष्ट्रपति को श्रद्धांजलि अर्पित करने में कोई देरी नहीं की और दिल्ली में उनके पार्थिव शरीर का इंतजार करने लगे। यह बात समझ में नहीं आती कि इस कार्य में सरकार को 17 घंटे का समय क्यों लगा? अब प्रधान सेवक तमिलनाडु में जाकर पूर्व राष्ट्रपति के अंतिम संस्कार में भाग लेने की तैयारी कर रहे हैं लेकिन अभी तक सेवकों, भक्तों और चौकीदारों में से किसी ने पंजाब जाने के इरादा व्यक्त नहीं किया जबकि कांग्रेसी प्रतिनिधि मंडल वहां पहुंच गया।
 बांग्लादेश के अंदर तो प्रधान जी ने पाकिस्तान को बड़ी धमकी दी थी आतंकवाद को बिल्कुल भी बर्दाश्त नहीं करने की घोषणा की था। बर्मा में जाकर सैन्य कार्रवाई के बाद भी बड़े-बड़े दावे किए गए थे लेकिन अब जबकि कुछ कर दिखाने का मौका आया तो सभी गूंगे हो गए और सब के हाथ पैर ढीले हो गए। विपक्ष तो दूर राष्ट्रीय जनतांत्रिक गठबंधन में शामिल अकाली दल और खुद भाजपा के सांसद अहलूवालिया तक सदन संसद में बहस की मांग करते रहे मगर वेंकैया नायडू इस राष्ट्रीय मुद्दे पर राजनीति न करने की दुहाई देने से आगे नहीं जा सके। न कोई बयान, न बहस और न प्रस्ताव रष्ट्र आश्चर्य से देखता रहा कि आखिर हो क्या रहा है? भाजपा के एसएस अहलूवालिया एक जमाने में कांग्रेस के अंदर थे। उन्हें पता ऐसे मौके पर सरकार प्रस्ताव लाए तो वह सर्वसम्मति से पास हो जाएगा लेकिन भाजपा वालों को कुछ सुझाई ही नहीं दिया।
भाजपा ने इस बार जो कमजोरी दिखाई वह उसकी पुरानी बीमारी है। कर्नल (रि) भारत भूषण वत्स का बयान इस तथ्य की पुष्टि करता है। 14 साल पहले संसद पर हमले के बाद पाकिस्तान पर हमला करने के लिए उन्हें वहां रवाना किया गया था। उन्होंने कहा कि1999  से लेकर 2006 तक अपनी पंजाब में तैनाती के दौरान 9 महीने तक वह उसी दीना नगर में थे। पाकिस्तान को सबक सिखाने के लिए ऑपरेशन प्राक्रम के तहत मीज़ाइलस को एयर कंडीशनिंग से निकाल टैंक पर लगा दिया गया था। इस समय पाकिस्तान की सेना अफगानिस्तान की सीमा पर प्रतिबद्ध थी इसके बावजूद 9 महीने के इंतजार के बाद सेना को वापस बुला लिया गया और सारा मामला टाएँ टाएँ फिश हो गया जबकि लोह पुरूष  आडवाणी जी गृहमंत्री थे। उसी युग में नेपाल से भारती विमान का अपहरण हुवा जहाज को चंडीगढ़ में ईंधन के लिए उतरना पड़ा। ऐसे में विमान को अपने कब्जे में लेने का सर्वण अवसर हाथ आ गया था लेकिन भाजपा में निर्णय की कमी आड़े आ गई और वह तेल लेकर कंधार रवाना हो गया। इस तरह अपहरण कार अपने लक्ष्य में सफल हो गए।
भारत भूषण ने बताया कि आतंकवादी जम्मू कश्मीर के हीरा नगर से 85 किलोमीटर की दूरी तय करके हथियार सहित दीना नगर पहुंचे जबकि इस बीच 5 चेक पोस्ट आते हैं इसलिए यह खुफिया एजेंसियों की त्रुटि की ओर इशारा है। दीना नगर पठानकोट और गुरूदासपुर के बीच 30 किमी के समान दूरी पर स्थित है और इन दोनों स्थानों पर सैन्य केंद्र हैं। इसके बावजूद वहां पहुंचकर पांच स्थानों पर रेलवे पटरी पर बम रख देना खासा निराशाजनक काम है। वात्स के अनुसार अगर यह कश्मीरी हैं तो इसका मतलब यह होगा कि कश्मीरी लड़ाके अब अपने राज्य से बाहर भी हाथ पैर फैलाने लगे हैं और अगर यह खालिस्तानी हैं मानो 20 साल पहले की समस्या का फिर उभरना खतरा की घंटी है।
इस हमले से 2 दिन पहले 26 जुलाई को दिल्ली में कारगिल की जीत का जश्न मनाया गया। प्रधानमंत्री ने भी युद्ध में अपने प्राण भेंट करने वाले सैनिकों को श्रद्धांजलि दी। संयोग से कारगिल का मामला भी भाजपा के शासन काल का है। इन यादों को ताजा करते हुए कारगिल युद्ध में वीरचक्र विजेता एयर वाइस मार्शल (रि) अदित्य विक्रम पैठिया ने कहा कि घुसपैठ की खबर भी चरवाहों से मिली जबकि उन लोगों ने भारतीय चौकियों पर पाकिस्तानी लड़ाके देखे और फिर जब पटरोलिंग की गई तो पता चला कि इस क्षेत्र में बड़े पैमाने पर घुसपैठ हो चुकी है। इसके थल और वायु सेना की मदद से अपना क्षेत्र तो वापस ले लिया गया, इसका जश्न भी मनाया गया। चुनाव में इसका फायदा उठाने की कोशिश भी की गई मगर इस महान त्रुटी से कोई सबक नहीं लिया गया वरना गुरदासपुर दीना नगर की यह घटना नहीं घटती ।
इसमें शक नहीं कि सारे सरकारी संस्था और मीडिया इस हमले के लिए पाकिस्तान को दोषी ठहरा रहा है लेकिन यह भी तथ्य है कि कुछ सप्ताह पहले जम्मू में तीस साल पहले होने वाले ऑपरेशन ब्लू स्टार की सालगिरह मनाने वाले पोस्टर्स सामने आए थे और जब सुरक्षाबलों ने उन्हें हटाने की कोशिश की तो उस पर हंगामा भी हुआ। भाजपा नेता और पूर्व गृह सचिव आरके सिंह के अनुसार आईएसआई ने यह निर्णय कर लिया है कि सिख आतंकवाद को पुनर्जीवित किया जाए। ऑपरेशन ब्लू स्टार का नेतृत्व करने वाले सेवानिवृत्त लेफ्टिनेंट जनरल के एस बराड़ ने गुरदासपुर के हमले के लिए आईएसआई के साथ पंजाब की राज्य सरकार को भी दोषी ठहराया है। उन्होंने राज्य सरकार की आलोचना करते हुए कहा पंजाब सरकार खालिस्तानी आतंकवादियों के साथ नरमी बरत रही है और अपने वोट बैंक की खातिर उन्हें रिहा कर रही है जिसके कारण यह स्थिति पैदा हुई है। बराड़ ने सुरक्षाबलों पर काबू पाने में देरी की आलोचना की और आतंकवादियों को जिंदा गिरफ्तार करने में विफलता का आरोप लगाते हुए कहा कि एक अच्छा मौका गंवा दिया गया है। उनके अनुसार इस तरह के हमलों को रोकने के लिए गुप्त सूचना प्रणाली को पुर्नसंपादित करने की आवश्यकता है।
 यह दिलचस्प स्थिति है कि वर्तमान में पंजाब में अकाली दल की सरकार है और वह भाजपा की सहयोगी है इसके बावजूद पंजाब के मुख्यमंत्री प्रकाश सिंह बादल ने इस हमले की सारी जिम्मेदारी केंद्र सरकार पर डाल दी और यह भूल गए कि यह उनकी बहू वहरसमरीत इसमें मंत्री है. बादल का कहना है कि आतंकवाद किसी राज्य की नहीं बल्कि राष्ट्रीय समस्या है और केंद्र सरकार इसे रोकने में नाकाम रही है। यह खुफिया एजेंसियों की बड़ी नाकामी है। उन्होंने यह भी कहा कि राष्ट्रीय समस्या होने के कारण इसका समाधान राष्ट्रीय नीति के अनुरूप होना चाहिए। अकाली दल सांसद चंदू माजरा ने केंद्र सरकार पर निशाना साधते हुए कहा कि यह कहना गलत है कि हमें इसकी जानकारी दी गई थी। अकाली दल मांग करती रही कि इस प्रशन पर संसद में गंभीरता के साथ चर्चा हो मगर केंद्र सरकार पर हमला जारी है का बहाना करके मुंह चुराती रही।
अकाली दल ने वैसे तो केंद्र सरकार पर तरह तरह के आरोप लगाए मगर तथ्य यह है कि वह खुद गंभीर आरोपों के घेरे में फंसी हुई है। यह हमला लगभग 12 घंटे चला मुंबई में ताज और ओबरॉय के बाद यह सबसे लंबे समय का हमला था। मुंबई की विश्वप्रसिद्ध पुलिस केवल घेराबंदी करके रात भर दिल्ली से आने वाली स्पेशल टास्क फोर्स का इंतजार करती रही इस के विपरीत गुरदासपुर में कुछ घंटों के अंदर सेना और विशेष दस्ता पहुंच गया लेकिन पंजाब सरकार ने उसे रखवाली में लगा दिया और कमान अपने हाथ में रखी। टीवी पर सारी दुनिया ने देखा कि पुलिस के पास बुलेट प्रूफ जाकेट और लोहे की टोपी तक नहीं थी और वह गैर पेशेवर तरीके से वे पारंपरिक हथियार से लड़ रही थी। सुना है विशेष दस्ते का इस्राएल ने प्रशिक्षित किया है यदि यही वह प्रशिक्षण है तो इसके बिना ही पंजाब पुलिस बेहतर थी। सेना के अनुसार यह दो ढाई घंटे का काम था जिस पर 12 घंटे खर्च किए गए।
दोपहर बारह बजे जब पुलिस अधिकारी दलबीर सिंह को गोली लगी तो ढाई बजे स्पेशल टास्क फोर्स की मदद ली गईं जिसने 4 बजकर 35 मिनट पर तीनों आतंकवादियों के मौत की घोषणा की और उसके बाद पंजाब पुलिस जिंदाबाद के नारे लगाए गए । पंजाब के अकालियों ने जिस तरह केंद्रीय सुरक्षा बल पर अविश्वास व्यक्त किया है अगर कोई और राजनीतिक दल करता तो भाजपा वाले आसमान सिर पर उठा लेते लेकिन अब क्या किया जाए कि होंठ और दांत दोनों ही अपने हैं। यदि जम्मू कश्मीर सरकार में भाजपा शामिल न होती तो यह कह दिया जाता है कि अगर हम होते तो उन्हें प्रवेश ही नहीं करने देते लेकिन जम्मू में भाजपा का प्रभाव जब से बढ़ा हैं वहां कई हमले हुए हैं। सरकार बनाने के बाद चार महीने पूर्व कठुआ और साम्बा में इसी तरह के दो हमले हो चुके हैं।
यह मीडिया का युग है यहाँ 24 घंटे टेलीविजन वालों को खबर प्रसारित करनी पड़ती हैं और ऑनलाइन अखबार को हर आधे घंटे के अंदर शीर्षक बदलना पड़ता है इसलिए यदि सरकार यह कहकर चुप हो जाए कि वह हमले के उन्मूलन पर ही बोलेगी तब भी टीवी वाले किसी न किसी को विश्लेषक के रूप में खड़ा कर देते हैं और वह आधी अधूरी जानकारी के आधार पर ऊटपटांग अटकलें में लगता रहता है। उसका सर्वश्रेष्ठ प्रदर्शन गुरदासपुर हमले के दौरान हुआ। दोपहर तक हमलावरों की संख्या 4 बताई जाती रही और उनके बीच एक महिला आतंकवादी का अनुमान भी किया जाता रहा लेकिन अचानक शाम में पता चला वह केवल 3 थे और महिला गायब हो गई।
प्रारंभ से ही यह घोषणा कर दी गई कि हमलावरों का संबंध सीमा पार नरवोल गांव है। बाद में पता चला कि नक्शे पर सीमा की दूसरी ओर निकटतम गांव नरवोल है इसलिए शायद हवा में यह तीर छोड़ दिया गया। यह बताया गया कि वह सुबह प्रवेश करके आए हैं,  बाद में जीपीएस से पता चला कि वह 21 तारीख को आए थे और फिर इसे बंद कर दिया गया था लेकिन इसके बाद भी उनके जीपीएस की मदद से यात्रा का सारा विवरण बरामद होता रहा और बताया गया कि वह 12 किलोमीटर पैदल आए थे। इतना हथियार और गोला बारूद लेकर 12 किलोमीटर चलना, यह तो कोई जिन भूत ही कर सकता है। यह बात बताई गई कि वह अमरनाथ यात्रियों को मारने के लिए कठुआ जाने वाले थे लेकिन अचानक घबरा कर पुलिस थाने में घुस गए। आजकल तो आम नागरिक भी पुलिस थाने में जाने से घबराता है तो आतंकवादियों यह गलती कैसे की। बाद में पता चला उनके जीपीएस में पुलिस थाने का विवर्ण मौजूद था और वह जानबूझकर वहें आए थे इसके साथ यह खुलासा भी हो गया कि वह किस-किस को मौत के घाट उतारना चाहते थे। दिन भर खबरों का बाजार गर्म रहा, जो एक दूसरे का खंडन करते रहे।
आतंकवादियों के पास जो हथियार मिला इसके बारे में पहले बताया गया वे चीनी है बाद में कहा गया उस पर बनाने वाले देश के निशान मटा दये गए हैं। इस दौरान एक अद्भुत खुलासा यह हुआ कि पटरी पर लगाए गएबम के पास रात के अंधेरे में इस्तेमाल किया जाने वाला चश्मा भी मिला जो केवल अमेरिकी सैन्य उपयोग करते हैं और जिन्हें खुले बाजार से खरीदा नहीं जा सकता। बाद में उस का यह कारण यह बताया गया कि अफगान मुजाहिदीन उन्हें अमेरिकियों से लूट लेते हैं इसलिए संभव है यह हमलाआवर अफगानीयों के साथ हों। लेकिन किसी ने यह नहीं कहा कि इस हमले का कुप्रभाव हिन्द पाक बातचीत पर होगा जो अमेरिका के हित में है।
गुरदासपुर हमले के दौरान जो कुप्रबंधन और अनुशासनहीनता सामने आई इसे छिपाने के लिये डॉक्टर अब्दुल कलाम के निधन और याकूब मेमन की फांसी का भरपूर उपयोग किया गया लेकिन इसके बावजूद आम आदमी पार्टी के नेता संजय सिंह का वह बयान शत प्रतिशत सही मालूम होता है जिसमें उन्होंने कहा कि प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी सबसे असफल प्रधानमंत्री साबित हुए हैं। उनके पहले साल में पाकिस्तान ने 58 और चीन ने 38 बार सीमा का उल्लंघन  किया। शायद उनका 56 इंच का सीना पिचक गया है। गुरदासपुर का हमला, अरुणाचल प्रदेश में घुसपैठ, कश्मीरमें पाकिस्तानी और आईएसआई के ध्वज का स्पंदन और ललित गेट व व्यापम जैसे मुद्दों पर वह चुप्पी साधे हुए हैं बस रेडियो पर मन की बात कर देते हैं। लेकिन इस तरह की चौकीदारी आख़िर कितने दिन चलेगी जिसमें सेंध उत्तर में गुरदासपुर में लगती है तो चौकीदार दक्षिण में रामेश्वरम की ओर भागता है। मोदी जी को चाहिए वह राजेंद्रकिशन का यह गीत याद रखें
यह दुनिया (कुर्सी) नहीं जागीर किसी की
राजा हो या रंक यहाँ तो सब हैं चौकीदार
कुछ तो आकर चले गए कुछ जाने को तैयार
खबरदार खबरदार खबरदार⁠⁠[8/13/2015, 

स्वतंत्रता दिवस: टीम विराट कोहली और टीम सम्राट मोदी का निराशाजनक प्रदर्शन

प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी को उनकी नित नई शब्दावली के लिए याद किया जाएगा। पिछली बार उन्होंने लाल किले से ''मेक इन इंडिया '' का नारा उछाला था ताकि अंतरताष्ट्रीय निवेशक भारत आकर अपना उत्पादन करें। इस नारे से देश की भोली-भाली जनता तो मूर्ख बन गई लेकिन शातिर निवेशकों उसके झांसे में नहीं आए। इस बार उन्होंने जनता को कंफ्यूज करने के लिये टीम इंडिया की शब्दावली तैयार कर दी और कहा कि भारत के 125 करोड लोग टीम इंडिया हैं। हम जैसे लोग इस नारे को सुनकर सोचने लगे कि अगर हम टीम इंडिया हैं वे जो श्रीलंका में टेस्ट मैच खेल रहे हैं वे कौन हैं? सुविधा के लिए उसे टीम विराट कोहली कह लीजिए। एक और सवाल पैदा हुआ कि अगर जनता टीम विशाल भारत है तो सरकार क्या है? चूंकि सरकार के मुखिया मोदी जी हैं इसलिए उसे टीम सम्राट मोदी कह लीजिए।
मोदी जी ने जब टीम इंडिया का नारा लगाया तो इस से सबसे अधिक खुशी विराट कोहली और उसके साथी खिलाड़ियों को हुई होगी जो सुबह में उठकर अभ्यास करने के बजाय मोदी जी का भाषण सुन रहे थे और भाषण भी ऐसी कि समाप्त होने नाम न लेता था। इतनी देर में तो ट्वेंटी ट्वेंटी मैच की एक पारी समाप्त हो जाती। मोदी जी ने अपने भाषण में एक और नारा उछाला '' स्टैंड अप एंड स्टार्ट आप'' जिस का अर्थ है '' खड़े हो जाइये और शुरू हो जाइये '' विराट कोहली ने सोचा मोदी जी की आधी नसीहत पर तो हम मे पहले ही अमल कर लिया और पहली पारी में ऐसे जमकर खड़े हुए कि श्रीलंका के 183 के जवाब में 375 का विशाल स्कोर खड़ा कर दिया और फिर श्रीलंका को 367 पर ढेर भी कर दिया।
स्वतंत्रता दिवस के दिन विराट कोहली की टीम को सिर्फ 153 रन बनाने थे और 9 विकेट उसके हाथ में थे। जिस टीम ने पहली पारी में 375 बनाए हूँ इसके लिए 176 रन बनाकर मैच जीत लेना कोई बड़ी बात नहीं थी। लेकिन बुरा हो मोदी जी के भाषण जो उन्हों ने खड़े होने के बाद शुरू हो जाने की नसीहत कर डाली और मनोबल बढ़ाने के लिए यह भी कह दिया था कि कई लाख शौचालय बनाकर हम ने साबित कर दिया कि हम जो चाहें कर सकते हैं । विराट कोहली बेचारा भूल गया कि सरकारी खर्च से स्कूलों में शौचालयों का निर्माण और श्री लंका के मैदान में क्रिकेट मैच में सफलता दो अलग अलग बातें हैं। मोदी जी की सलाह का  अनुसर्ण करते हुए भारतीय बल्लेबाजों ने आओ देखा न ताओ बस शुरू हो गए कि जैसे मोदी जी शुरू हो जाते हैं और बल्ला उठा उठाकर मारने लगे।
 विराट कोहली को प्रधानमंत्री का भाषण सुनकर यह खुशफहमी हो गई थी कि अब रनों की ऐसी बरसात होगी कि देखते देखते जन धन योजना की तरह करोडों बैंक खाते खुल जाएंगे। वही हुआ खाते तो खुले लेकिन उनमें कोई राशि नहीं आई। बल्लेबाज बड़े उत्साह के साथ मैदान में जाते थे और बहुत जल्दी कोई खास रन अपने खाते में जमा किए बिना लौट आते थे। खुद विराट कोहली जिसने पहली पारी में 103 रन बनाए थे सम्राट मोदी की सलाह पर चलते हुए 3 रन बनाकर लौट आया। इस तरह प्रधानमंत्री की सलाह के कारण जीती हुई बाजी पलट गई। पूरी टीम 112 के मामूली स्कोर पर सिमट गई । स्वतंत्रता दिवस के अवसर पर टीम सम्राट मोदी की तरह टीम विराट कोहली ने भी टीम इंडिया यानी देश वासियों को निराश करके स्वतंत्रता समारोह का मज़ा किरकिरा कर दिया।
राजनीति में जब लोग अव्वल तो अपनी कमजोरी स्वीकार नहीं करते और अगर करते भी हैं तो दूसरों को दोषी ठहराकर अपना पल्ला झाड़ लेते हैं मगर क्रिकेट में ऐसा नहीं होता वहाँ विफलता की समीक्षा की जाती है, कारण खोजे जाते हैं और दोषियों की पहचान भी की जाती इस प्रकार क्रिकेट अपनी सारी खराबियों के बावजूद राजनीति से अधिक गंभीर खेल है। टीम विराट कोहली की विफलता के कारण यह था कि ट्वेंटी ट्वेंटी मैच खेल खेल कर हमारे खिलाड़ी टेस्ट मैच खेलने की कला भूल गए हैं। ट्वेंटी ट्वेंटी मैच में कलात्मक कौशल्य और समझ बूझ का कोई खास महत्व नहीं होता बल्कि जैसे मन में आए बल्ला घुमाओ भाग्य से टीम जीत जाती है लेकिन टेस्ट मैच 5 दिन का खेल होता है इसमें संभलकर खेलना पड़ता है और सूझबूझ रखने वाले बीच में बाजी पलट देते हैं जैसा कि श्रीलंका ने पहली पारी में पिछडने और दूसरी पारी में 5 विकेट गंवाने के बावजूद खुद को संभाला और भारत के सामने 175 का लक्ष्य रखने के बाद अपनी असाधारण गेंदबाजी से मैच जीत लिया।
क्रिकेट की अगर राजनीति से तुलना की जाए तो यों समझ लीजिए कि 5 या 6 महीने चलने वाला चुनावी अभियान ट्वेंटी ट्वेंटी जैसा है। इसमें राजनीतिक दल खूब उठापटक करते हैं। नारेबाजी से लेकर हुल्लड़ बाजी तक सब वैध हो जाता है। ऊटपटांग वादे किए जाते हैं जो मन में आए कह दिया जाता है जैसे अच्छे दिन आने ही वाले हैं, 56 इंच की छाती, कालेधन की वापसी, मांस के निर्यात पर प्रतिबंध आदि। इस धोबी पछाड़ में सट्टा भी खूब लगता है तथा किसी न किसी की लॉटरी लग जाती है। लेकिन सरकार चलाना टेस्ट मैच जैसा है जहां सूझबूझ की जरूरत पड़ती है। केवल खोखले वादों से काम नहीं चलता बल्कि लोग उपलब्धि देखना चाहते हैं और तब जाकर दूध का दूध पानी का पानी होता है।
विराट कोहली और सम्राट मोदी दोनों ही ट्वेंटी ट्वेंटी के महारथी हैं इसलिये टेस्ट मैच में अभी तक अपनी पहली जीत दर्ज कराने के लिए तरस रहे हैं फिर भी इन दोनों में एक स्पष्ट अंतर यह है कि विराट कोहली ने हार की जिम्मेदारी बड़े विशाल ह्रदय से स्वीकार कर ली। उसने साफ शब्दों में कहा कि इस हार के लिए हम खुद के अलावा किसी और को जिम्मेदार नहीं ठहरा सकते। उसका कहना था कि पहले 5 विकेट लेने के बाद हम इसका फायदा उठाने से चूक गए। मोदी जी की भी यही समस्या है चुनाव में स्पष्ट बहुमत हासिल करने के बाद वह संसद में इसका फायदा न उठा सके। भाजपा और कांग्रेस के सदस्यों की संख्या में वैसा ही अंतर है जैसा कि भारत और श्रीलंका के पहली पारी के रनों का अंतर था बल्कि इससे भी कहीं अधिक। इसके बावजूद पूरे मानसून सत्र पर पानी फिर गया और टीम मोदी का कप्तान बाढ़ग्रस्त सदन में कदम रखने का साहस नहीं कर सका।
इसके विपरीत चुनाव परिणाम के बाद कांग्रेस की हालत श्रीलंका की दूसरी पारी जैसी थी। एक तो पहली पारी में 192 रन की लीड और ऊपर से 95 के तुच्छ स्कोर पर 5 मुख्य बल्लेबाजों का आउट होकर लौट आना। इसके बावजूद दिनेश चांडीमल का निरीश नहीं हुआ बल्कि उसने नाबाद 162 का निजी स्कोर कर के श्रीलंका को 362 रन पर पहुंचा दिया। पिछले संसदीय सत्र में राहुल गांधी ने बिल्कुल दिनेश चांडीमल की तरह मोदी जी के महंगे कोट की धज्जियां उड़ा कर उनकी सरकार को सूट बूट वाली सरकार घोषित कर दिया। राहुल ने मोदी जी को सलाह दी कि अगर विदेश यात्रा से फुर्सत मिले तो आत्महत्या करने वाले किसानों की भी खबर ले लिया करें। सरकार को हवा के रुख में परिवर्तन को समझ कर पर्याप्त तैयारी करनी चाहिये थी लेकिन टीम सम्राट मोदी भी टीम विराट कोहली की तरह मुंगेरीलाल का हसीन सपनों में मस्त रही।
इस मानसून सत्र में सदन के अंदर कांग्रेस के नेता मल्लिकार्जुन खरगे ने ललित मोदी के मुद्दे पर रंगना हेराथ के समान हल्ला बोल दिया जिस ने 7 विकेट लेकर टीम विराट को धूल चटा दी। विराट कोहली ने जिस तरह बिगड़ती स्थिति पर काबू पाने के लिए पांचवें नंबर पर हरभजन को भेज दिया उसी तरह सुमित्रा महाजन ने कांग्रेस के 25 सांसदों को 5 दिनों के लिए निलंबित कर दिया लेकिन वह पांसा भी उल्टा पड़ा। अन्य दल जो कांग्रेस के साथ आने में संकोच कर रहे थे वह भी विरोध प्रदर्शन में शामिल होने पर मजबूर हो गए। हरभजन को उस अवसर पर मैदान में उतारना कप्तान की सबसे बड़ी नादानी थी वह बेचारा केवल एक रन बनाकर आउट हो गया और इसी के साथ पूरी टीम का मनोबल टूट गया। यही दुर्घटना भाजपा के साथ भी हुई।
सम्राट मोदी को चाहिए कि वह विराट कोहली के हार स्वीकार को गिरह से बांध कर रख लें। विराट ने स्वीकार किया कि हम अपनी रणनीति पर नहीं चल पाए। ऐसे दबाव की स्थिति में सोच स्पष्ट होनी चाहिए। यही औसत दर्जे की टीमों और खिलाड़ियों से अलग करता है। उसने कहा कि हम ने आज की हार से यही सबक सीखा कि 170 जैसे मामूली लक्ष्य से कोई खास फर्क नहीं पड़ता मगर कन्फ्यूजन से पड़ता है। मानसिक शक्ति बहुत महत्वपूर्ण है जिस की कमी महसूस हुई। कोहली ने विस्तार में जाते हुए कहा जब विरोधी टीम फार्म में हो तो उसे एक ओवर में 3 या 4 बाउंड्री लगाने देना मूर्खता थी। हमें समझदारी से काम लेना चाहिए था। कोहली ने जिस नासमझी का प्रदर्शन खेल के मैदान में किया वही गलती मोदी सरकार ने संसद में की। विपक्ष ने खूब चौके छक्के लगाएा और सरकार को मुंह की खानी पड़ी। कोहली ने तो सबक सीख लिया है और यदि वह सुधार कर ले तो अगले मैच में अपनी हार को जीत में बदल सकता है लेकिन मोदी जी के यहां अभी तक इसकी संभावना नजर नहीं आती।
ललित मोदी के बिना क्रिकेट वैसा ही है जैसे नरेंद्र मोदी के बिना राजनीति। ललित मोदी ने स्वतंत्रता दिवस पर इंडिया टुडे के राजदीप सरदेसाई से बातचीत करते हुए कहा कि उस पर कोई आरोप नहीं है। उसको कोई सम्मन नहीं मिला। उसने इंटरपोल से पता किया उसके खिलाफ कोई रेड कॉर्नर वारंट नहीं है। वह तो महज अंडरवर्ल्ड के डर से वापस नहीं आ रहा है। यह सब कहने के बाद वह बोला कि भारत में एक क्रिकेट माफिया सक्रिय है। श्रीनिवासन और राजीव शुक्ला के अलावा अरुण जेटली भी माफिया में शामिल हैं। यह दावा अगर सही है कि अरुण जेटली माफिया का हिस्सा है तो उन्हें वित्त मंत्री का सबसे महत्वपूर्ण कलमदान सौंपने वाला अपने आप इस माफिया का प्रमुख हो जाता है।
कोहली की तरह मोदी भी इस बार स्वतंत्रता दिवस समारोह को यादगार बना सकते थे। 15 अगस्त  2015 को अगर प्रधानमंत्री '' एक पद एक पेंशन''  की घोषणा कर देते तो वह बहुत बडी उपलब्धी होती लेकिन अफसोस कि उन्होंने यह सुनहरा मौका गंवा दिया। जंतर-मंतर पर दो महिनों से प्रदर्शन करने वाले पूर्व सैनिकों को इस बार प्रधानमंत्री से बड़ी उम्मीद थीं। इन लोगों ने अपने धरना स्थल पर विशाल टीवी लगवा रखा था ताकि प्रधानमंत्री की घोषणा सुनकर जश्न मनाएं। यदि मंजूरी न सही तारीख की घोषणा भी हो जाती तो जंतर मंतर का धरना जशन में बदल जाता लेकिन जब प्रदर्शनकारियों को अंदाज़ा हो गया कि प्रधानमंत्री उनके साथ फिर से दगा बाजी कर रहे हैं तो उन्होंने मोदी के भाषण की समाप्ति से पहले ही टीवी बंद कर दिया। सच तो यह है कि इस बार अपने  लंबे और संवेदहीन भाषण से प्रधान मेत्री ने न केवल पूर्व सैनिकों को बल्कि पूरे राष्ट्र को निराश किया।
इस बार जंतर मंतर पर प्रदर्शन कर रहे पूर्व सैनिकों को आश्चर्य पहला झटका उस समय लगा जब दिल्ली पुलिस ने 14 अगस्त को उनका तम्बू बल पूर्वक हटाने की कोशिश की। इस दौरान एक 84 वर्षीय पूर्व सैनिक की शर्ट भी फट गई। इसके बाद किरण रजेजो ने हस्तक्षेप कर के पुलिस को रोका। इस अपमानजनक व्यवहार के बावजूद वे बेचारे आशावादी थे मगर प्रधानमंत्री ने फिर से वही कहा जो 17 महीने पहले कह चुके थे कि सैद्धांतीक रूप में वे सहमत हैं। बातचीत चल रही है। बहुत जल्दी फैसला हो जाएगा। कसी बात को सैद्धांतीक रूप से स्वीकार करने का बाद लागू न करना बलकि अवधि तक निर्धारित न करना इस बात का संकेत है कि या तो घोषणाकर्ता अपनी कमजोरी के कारण सत्ताधारी होकर भी निर्णय लेने की सक्षमता नहीं रखता या पाखंडी है। मोदी जी के बारे में दोनों ही बातें आंशिक रूप से सही हो सकती हैं। वित्त मंत्रालय उनकी सुन कर नहीं देता और वह जनता को बहलाने रहते हैं। प्रदर्शनकारियों ने यहां तक कहा हमें यह कहने में शर्म आती है कि वे झूठे हैं और उनके नियत ठीक नहीं है।
मोदी जी की कमजोरी संसद के मानसून सत्र में खुलकर सामने आ गई। बीस दिनों के हंगामों में वह एक मिनट के लिए भी वहाँ नहीं फटके और राहुल गांधी को यह कहने का मौका मिल गया कि हम तो समझते थे कि जिस ने हमें हराया है उसमें दम है लेकिन अब पता चल गया है कि दम नहीं है। हम सोच रहे थे कि 44 सांसदों के साथ हम क्या करेंगे लेकिन हमने उन्हें डरा दिया है, प्रधानमंत्री डरपोक है। खुद भाजपा ने भी सत्ताधारी होने के बावजूद विरोध प्रदर्शन करके यह साबित कर दिया कि वह कमजोर है वरना जिसके पास सत्ता की बागडोर हो वह भला जुलूस क्यों और किसके खिलाफ निकाले?  आमतौर पर अपने छीने गए अधिकारों को प्राप्त करने के लिए विरोध प्रदर्शन किया जाता है। जो सरकार खुद अपने अधिकारों की रक्षा में असमर्थ है वह भला दूसरों को क्या सुरक्षा प्रदान करेगी।
प्रधानमंत्री ने भारत की जनता को जो आधुनिक उपनाम '' टीम इंडिया '' से नवाज़ा है जो टीम विराट कोहली से अधिक गंभीर समस्याओं से त्रस्त है। इस का अन्दाज़ा स्वतंत्रता दिवस से दो दिन पहले मेरठ के अंदर घटने वाली एक घटना से किया जा सकता है। 35 वर्षीय सैनिक वेद मित्रा चौधरी जब दूध की दुकान में गया तो देखा कुछ आवारा युवक दुकान के मालिक की बेटी को छेड़ रहे हैं। चौधरी ने हस्तक्षेप किया तो आकाश नामक लड़के ने अपने साथियों को बुलाया और वे सब लाठी डंडे के साथ वेद मित्रा पर टूट पड़े। स्वतंत्रता दिवस के दिन सैन्य अस्पताल में लांस नायक वेद मित्रा चौधरी ने दम तोड़ दिया। इस मामले में 8 लोगों के खिलाफ नामजद शिकायत दर्ज हुई उसके बावजूद पोलिस ने मात्र आकाश, संजू और रितेश को गिरफ्तार किया।
इस घटना का सबसे दुखद पहलू यह है कि इसमें अपराधियों के बजाय गवाह भयभीत हैं। दुकान के मालिक का कहना है इसे जवाबी हमले का डर है। अभी तक पुलिस सुरक्षा प्रदान नहीं की गई है। पुलिस ने इस दावे को खारिज करते हुए कहा कि वह स्वतंत्रता दिवस के प्रावधान में व्यस्त है। सवाल यह उठता है कि वह कौन सी आजादी है कि जिस को सुरक्षा प्रदान की जा रही है? वह स्वतंत्रता जिस में अपने पिता को चाय देने के लिए दुकान में आने वाली बेटी के साथ खुलेआम छेड़ छाड की जाती है? इसे रोकने वाले सैनिक हत्या हो जाती है? मरने वाले सैनिक के पत्नी और बच्चों से कोई नेता मिलने नहीं जाता? क्या इन गंभीर समस्याओं को टीम मोदी केवल '' स्टैंड अप और स्टार्ट अप '' के खोखले नारों से हल करेगी या उस पर कोई ठोस उपाय भी करेगी? एक सवाल यह भी है कि कहीं इस भ्रष्ट और कमज़ोर टीम मोदी से ऐसी अपेक्षा करना गलत तो नहीं है?

یوم آزادی:ٹیم وراٹ کوہلی اور ٹیم سمراٹ مودی کا مایوس کن مظاہرہ



وزیراعظم نریندر مودی کو ان کے نت نئے اصطلاحات کیلئے یاد کیا جائیگا۔ گزشتہ مرتبہ  انہوں نے لال قلعہ سے’’میک ان انڈیا‘‘ کا نعرہ اچھالا تھا تاکہ بین الاقومی سرمایہ کار ہندوستان آکر اپنی مصنوعات یہاں بنائیں ۔  اس نعرے کو سن کر ملک کے بھولے بھالے عوام تو بے وقوف بن گئے لیکن شاطر سرمایہ کار اس کے جھانسے میں نہیں آئے۔ اس مرتبہ انہوں نے عوام کو کنفیوژ کرنے کی خاطر ٹیم انڈیا کی نئی اصطلاح وضع فرمادی  اور کہا کہ ہندوستان کے ۱۲۵ کروڈ لوگ ٹیم انڈیا ہیں  ۔ ہم جیسے لوگ اس نعرے کو سن کر سوچنے لگے کہ اگر ہم ٹیم انڈیا ہیں تو وہ جو سری لنکا میں ٹسٹ میچ کھیل رہے ہیں وہ کون ہیں ؟ سہولت کیلئے اسے ٹیم وراٹ کوہلی کہہ لیجئے ۔ ایک اور سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر عوام ٹیم وشال  انڈیا ہے تو حکومت کیا ہے؟ چونکہ حکومت کے سربراہ مودی جی ہیں اس لئے اسے ٹیم سمراٹ مودی کہہ لیجئے ۔
مودی جی نے جب ٹیم انڈیا کا نعرہ لگایا تو اس سے سب سے زیادہ خوشی یقینا ً وارٹ کوہلی اور اس کے ساتھی کھلاڑیوں کو ہوئی ہوگی جو صبح صبح اٹھ کر پریکٹس کرنے کے بجائے مودی جی تقریر سن رہے تھے اور تقریر بھی ایسی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی ۔  اتنی دیر میں تو ٹونٹی ٹونٹی میچ کی ایک اننگ ختم ہوجاتی۔ مودی جی نے اپنی تقریر میں ایک اور نعرہ اچھالا ’’اسٹینٖڈ اپ اینڈ اسٹارٹ اپ‘‘جس کے معنی ٰ ہوں ’’کھڑے ہوجائیے اور شروع ہوجائیے‘‘۔ وراٹ کوہلی نے سوچا مودی جی کی نصف نصیحت پر تو ہم نے ان کے ارشاد فرمانے سے قبل ہی عمل کرلیا  اور پہلی اننگز میں ایسے جم کر کھڑے ہوئے کہ  سری لنکا کے ۱۸۳ کے جواب میں ۳۷۵  کا زبردست اسکور کھڑا کردیا  اور دوبارہ سری لنکا کو ۳۶۷ پرڈھیر بھی کردیا۔
یوم آزادی کے دن وراٹ کوہلی کی ٹیم کو صرف ۱۵۳ رن بنانے تھے اور ۹ وکٹ اس کے ہاتھ میں تھے۔ جس ٹیم نے پہلی اننگز میں ۳۷۵ بنائے ہوں  اس کیلئے ۱۷۶ رن بنا کر میچ جیت لینا کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔ لیکن برا ہو مودی جی کی تقریر کا جس میں انہوں نے کھڑے ہونے کے بعد شروع ہو جا نے  کی نصیحت کرڈالی  تھی اور حوصلہ بڑھانے کیلئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ کئی لاکھ بیت الخلاء بنا کر ہم نے ثابت کردیا کہ ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں ۔ وراٹ کوہلی بیچارہ بھول گیا کہ سرکاری خرچ سے اسکولوں میں  بیت الخلاء کی تعمیر اورسری لنکا کے میدان میں  کرکٹ کے میچ میں کامیابی دو مختلف چیزیں ہیں ۔ مودی جی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ہندوستانی بلے بازوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بس شروع ہوگئے کہ جیسے مودی جی شروع ہوجاتے ہیں  اور بلہ اٹھا اٹھا کر مارنے لگے ۔
 وراٹ کوہلی تو وزیر اعظم کی تقریر سن کر  اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگیا تھا کہ  اب رنوں کی ایسی برسات ہوگی کہ دیکھتے دیکھتے  جن دھن یو جنا کی طرح کروڈوں بنک کھاتے کھل جائیں گے ۔ وہی ہوا کھاتے تو کھلے لیکن ان میں کوئی  رقم نہیں آئی۔ بلے باز  یکے بعد دیگرے بڑے جوش کے ساتھ میدان میں جاتے تھے اور بہت جلد کوئی خاص رن اپنے کھاتے میں جمع کئے بغیر لوٹ آتے تھے ۔ خود وراٹ کوہلی جس نے پہلی اننگز میں ۱۰۳ رنز بنائے تھے   سمراٹ مودی کے مشورے پر چلتے ہوئے ۳ رنز بنا کرلوٹ آیا ۔ اس طرح وزیراعظم  کی نصیحت پر عمل کرنے کے نتیجے میں جیتی ہوئی بازی الٹ گئی۔ پوری ٹیم ۱۱۲ کے معمولی سے اسکور پر سمٹ گئی اورٹیم وراٹ کوہلی  شکست ِ فاش سے دوچار ہوگئی۔ یوم آزادی کے موقع پر ٹیم سمراٹ مودی کی مانند ٹیم وراٹ کوہلی نے بھی ٹیم انڈیا یعنی ملک کے ۱۲۵ کروڈ لوگوں کو مایوس کرکےجشنِ آزادی مزہ کرِکرِاکر دیا ۔
سیاست میں چونکہ لوگ اول تو اپنی کمزوری کو تسلیم نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراکر اپنا پلہّ جھاڑ لیتے ہیں مگر کرکٹ میں ایسا نہیں ہوتا وہاں ناکامی کا جائزہ لیا جاتا ہے ، وجوہات تلاش کی جاتی ہیں اور ذمہ داروں کی نشاندہی بھی کی جاتی اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے کرکٹ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود سیاست سے زیادہ سنجیدہ کھیل ہے۔ ٹیم وراٹ کوہلی کی ناکامی کی وجہ یہ سامنے آئی کہ ٹونٹی ٹونٹی کے میچ کھیل کھیل کر ہمارے کھلاڑی ٹسٹ میچ کھیلنے کا فن بھول گئے ہیں ۔ ٹونٹی ٹونٹی میچ میں فنی مہارت یاحکمت عملی کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی بلکہ جیسے من میں آئے بلہ گھماؤ تقدیر سے ٹیم ہار یا جیت جاتی ہے لیکن ٹسٹ میچ چونکہ ۵ دن کا کھیل ہوتا اس میں سنبھل کر کھیلنا پڑتا ہے اور سوجھ بوجھ رکھنے والے درمیان میں بازی الٹ دیتے ہیں جیسا کہ سری لنکا نے پہلی اننگز کی لیڈ اور دوسری اننگز میں ۵ وکٹ گنوانے کے باوجود اپنے آپ کو سنبھالااور ہندوستان کے سامنے ۱۷۵ کا ایک ہدف رکھنے کے بعد اپنی غیر معمولی بالنگ سے میچ جیت لیا۔
کرکٹ کا اگر سیاست کے کھیل سے موازنہ کیا جائے تو یوں سمجھ لیجئے کہ تقریباً۵  یا ۶ ماہ  چلنے والی انتخابی مہم ٹونٹی ٹونٹی کامیچ ہے  ۔اس میں سیاسی جماعتیں خوب اٹھا پٹخ کرتی ہیں۔ نعرے بازی سے لے کر ہلڑ بازی تک سب جائز ہوجاتا ہے۔ اوٹ پٹانگ وعدے کئے جاتے ہیں جو من میں آئے کہہ دیا جاتا ہے مثلاً اچھے دن آنے ہی والے ہیں اور ۵۶ انچ کی چھاتی ، کالےدھن  کی واپسی، بیف کی برآمد پر پابندی وغیرہ  وغیرہ۔  اس دھوبی پچھاڑ میں سٹہ ّ بھی خوب لگتا ہے نیز کسی نہ کسی ایرے غیرے نتھو خیرے  کی لاٹری بھی  لگ جاتی ہے ۔ لیکن حکومت چلانا ٹسٹ میچ جیسا ہے جہاں سوجھ بوجھ کی ضرورت پڑتی ہے ۔ صرف کھوکھلے نعروں سے کام نہیں چلتا بلکہ لوگ نتائج دیکھنا چاہتے ہیں اور تب جاکر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔
وراٹ کوہلی اور سمراٹ مودی دونوں ہی ٹونٹی ٹونٹی کے مہارتھی ہیں لیکن ٹسٹ میچ میں ابھی تک اپنی پہلی کامیابی درج کرانے کیلئے ترس رہے ہیں اس کے باوجود ان دونوں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ وراٹ کوہلی نے شکست کے بعد بڑی کشادہ دلی کے ساتھ اس کی ذمہ داری قبول کرلی ۔ اس نے صاف الفاظ میں اعتراف کر لیا کہ اس شکست کیلئے ہم اپنے آپ کے سوا کسی اور کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے ۔ اس کا کہنا تھا کہ پہلے ۵ وکٹ لینے کے بعد ہم اس کا فائدہ اٹھانے سے چوک گئے۔ مودی جی کا بھی یہی مسئلہ ہے انتخاب میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد وہ ایوان ِ پارلیمان میں اس کا فائدہ نہ اٹھا  سکے۔ بی جے پی اور کانگریس کے ارکان کی تعداد میں ویسا ہی فرق ہے جیسا کہ بھارت اور سری لنکا کے پہلی اننگز کے رنوں کا فرق تھا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ۔ اس کے باوجود پورے مانسون سیشن پر پانی پھر گیا اور ٹیم کاخوفزدہ  کپتان سیلاب زدہ ایوان میں قدم رکھنے کی جرأت نہ کرسکا۔ 
اس کے برعکس انتخابی نتائج کے بعد کانگریس کی حالت سری لنکا کی دوسری اننگز سےمماثل تھی۔ ایک تو پہلی اننگز میں۱۹۲ رنز کی لیڈ  اور اوپر سے ۹۵ کے حقیر اسکور پر ۵ اہم بلے بازوں کا آوٹ ہو کر لوٹ آنا ۔ اس کے باوجود دنیش چاندی مل کا حوصلہ پست نہیں ہوا بلکہ اس نے ناٹ آوٹ ۱۶۲  کاذاتی اسکور  کرکےسری لنکا کو۳۶۲ رنز پر پہنچا دیا۔ گزشتہ پارلیمانی سیشن میں راہل گاندھی نے بالکل دنیش چاندی مل کی طرح مودی جی کے مہنگے کوٹ کی دھجیاں اڑا دیں اور ان کی حکومت کو سوٹ بوٹ والی سرکار قرار دے دیا۔ راہل نے مودی جی کو مشورہ دیا کہ اگرانہیں بیرونِ ملک دوروں سے فرصت ملے تو خودکشی کرنے والے کسانوں کی خبر گیری بھی کرلیا کریں ۔  حکومت کو چاہئے تھا کہ ہوا کے رخ کی تبدیلی کو سمجھتی اور خاطر خواہ تیاری کرتی لیکن ٹیم سمراٹ مودی بھی ٹیم وراٹ کوہلی کی طرح خوش فہمیوں کا شکار تھی ۔
اس مانسون سیشن میں ایوان کے اندر کانگریس  کے رہنما ملک ارجن کھرگے نے للت مودی کے مسئلے پر رنگنا ہیراتھ کی مانندہلہ ّ بول دیاجس نے ۷ وکٹ لے کر ٹیم وراٹ کو دھول چٹا دی ۔ وراٹ کوہلی نے جس طرح بگڑتی ہوئی صورتحال پرقابو پانے  کیلئے پانچویں نمبر پر ہر بھجن کو بھیج دیا اسی طرح سمترا مہاجن نے کانگریس کے ۲۵ ارکان پارلیمان کو ۵ دنوں کیلئے معطل کردیا لیکن وہ  پانسہ بھی الٹا پڑا ۔ دیگر جماعتیں جو کانگریس کے ساتھ آنے میں ہچکچا رہی تھیں وہ اس کے  ساتھ مظاہرے میں شامل ہونےپرمجبور ہو گئیں۔ہر بھجن کو اس موقع پر میدان میں اتارنا کپتان کی سب سے بڑی نادانی تھی وہ بیچارہ صرف ایک رن بناکر آوٹ ہوگیا  اور اسی کے ساتھ پوری ٹیم کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔یہی کچھ بی جے پی کے ساتھ ہوا۔
سمراٹ مودی کو چاہئے  کہ وہ وراٹ کوہلی کے اعتراف ِ شکست کوگرہ سے باندھ کر رکھ لیں ۔ وراٹ نے تسلیم کیا کہ ہم اپنی حکمت عملی پر عملدارآمد نہیں کرپائے ۔ ایسے دباؤ والے حالات میں سوچ  واضح ہونی چاہئے۔ یہی آپ کو اوسط درجہ کی ٹیموں اور کھلاڑیوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم نے آج کی شکست سے یہی سبق سیکھا کہ ۱۷۰ جیسے معمولی ہدف سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن مگر کنفیوژنہوتو فرق پڑتا ہے۔ ہمیں میچ میں کامیاب کرنے والی ساجھے داریاں بنانی ہوں گی اور نفسیاتی قوت بہت ضروری ہے جس کی کمی محسوس ہوئی ۔ کوہلی نے تفصیل میں جاتے ہوئے کہا  جب مخالف ٹیم فارم میں نظر آئے تو اسے ایک اوور میں۳ یا ۴ باؤنڈری لگانے سے روکنا چاہئے ایسے میں ہر اوور میں ۲۰ رن دینا حماقت تھی ۔  اس وقت ہمیں سمجھداری سے کام لینا چاہئے تھا۔کوہلی نے جس ناسمجھی کا مظاہرہ کھیل کے میدان میں کیا وہی  غلطیمودی سرکار نے ایوان پارلیمان میں کی ۔ حزب اختلاف نے خوب  چوکے چھکے لگائےاور حکومت کو منھ کی کھانی پڑی۔ کوہلی نے تو درسِ عبرت سیکھ لیا ہے اور اگر وہ اصلاح کرلے تو آئندہ اپنی شکست کو کامیابی  میں بدل سکتاہے لیکن مودی جی کے یہاں ابھی تک اس کے آثار نہیں نظر آتے ۔
للت مودی کے بغیر کرکٹ کا بیان ویسا ہی ہے جیسےسیاست کے ذکر میں نریندرمودی کی غیرموجودگی ۔ للت مودی نے یوم آزادی کے دن انڈیا ٹوڈے کےراجدیپ سر دیسائی سے بات  چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس پر کوئی الزام نہیں ہے ۔ اس کو کوئی سمن نہیں ملا ۔ اس نے انٹر پول سے بھی معلوم کیا اس کے خلاف کوئی ریڈ کارنر وارنٹ نہیں ہے۔ وہ تو محض انڈر ورلڈ کے خوف سے واپس نہیں آرہا ہے۔ یہ سب کہنے کے بعد اس نے کہا کہ ہندوستان میں ایک زبردست کرکٹ مافیا سرگرمِ عمل ہے ۔ سری نواسن اور راجیو شکلا کے علاوہ ارون جیٹلی بھی اس مافیا میں شامل ہیں ۔یہ دعویٰ  اگر درست ہے اور ارون جیٹلی مافیا کا حصہ ہے تو ان کو وزیر خزانہ کا اہم ترین قلمدان سونپنے والا اپنے آپ اس مافیا کا سربراہ ہو جاتا ہے ۔ 
کرکٹ سے قطع نظراس بار ۱۵ اگست ؁۲۰۱۵ کو وزیراعظم نریندر مودی’’ ایک عہدہ ایک پنشن‘‘ کی تجویز کو منظورکرکے یومِ آزادی کی تقریب کو یادگار بنا سکتے تھے لیکن افسوس کہ انہوں نے یہ سنہری موقع  گنوا دیا۔ جنتر منتر پرگزشتہ دوماہ سے مظاہرہ کرنے والے سابق فوجیوں نے اس بار وزیر اعظم سے بڑی توقعات وابستہ کررکھی تھیں۔ ان لوگوں نے اپنے احتجاج کے مقام پر دیوہیکل ٹی وی نصب کروارکھا تھا تاکہ وزیراعظم کے اعلان کو براہِ راست سن کر بلاتاخیر جشن منائیں۔ اگر منظوری  نہ سہیتاریخ کا اعلان بھی ہوجاتاتو جنتر منتر کادھرناجشن مودی میں بدل جاتا لیکن  جب مظاہرین کو اندازہ ہوگیا کہ وزیراعظم ان کے ساتھ پھرسےدغابازی کررہےہیں تو انہوں نے مودی جی کی زبان سے جئے ہند کا انتظار کئے بغیر ہی ٹی وی کو بند کردیا۔ سچ تو یہ ہے کہاس باروزیراعظم نے اپنی  طویل  اوربے مزہ تقریر سے نہ صرف سابق فوجیوں کو بلکہ پوری قوم کوبیزار کیا۔
اس مرتبہ جنتر منتر پر مظاہرہ کرنے والےسابق فوجیوں کو حیرت کا  پہلاجھٹکا اس  وقت لگا جب دہلی پولس نے ۱۴ اگست کو ان کا خیمہ بزور قوت ہٹانے کی کوشش کی ۔ اس دوران ایک ۸۴ سالہ سابق فوجی کی قمیض بھی پھٹ گئی۔ اس کے بعد کرن رجیجو نے مداخلت کرکےپو لس کو منع کیا۔ اس توہین آمیز سلوک کے باوجود وہ بیچارے پر امید تھے مگر  وزیراعظم نےپھرسےوہی ۱۷ ماہ پرانا راگ الاپا کہ اصولی طور پر وہ  اسے تسلیم کرتے ہیں۔ بات چیت چل رہی ہے ۔ بہت جلد کوئی فیصلہ ہو جائیگا۔کسی بات کو اصولی طور پر تسلیم کرنےکے بعد  اس پر عملدرآمد   نہ کرنابلکہ مدت کا تعین تک نہ کرنا  اس امر کا اشارہ  ہے کہ  یاتودعویٰ کرنے والا اپنی کمزوری کےسبب اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنی مرضی کا مختار نہیں  ہےیاپاکھنڈی ہے ۔ مودی جی کے بارے میں دونوں ہی باتیں جزوی طور پر درست ہوسکتی ہیں ۔ وزارتِ خزانہ ان کی سن کر نہیں دیتااور وہ عوام کو بہلاتے ٹہلاتے رہتے ہیں ۔ مظاہرین نے یہاں تک  کہا ہمیں یہ کہنے میں شرم آتی ہے کہ  وہ جھوٹے ہیں اور ان کی نیت میں فتور ہے۔
مودی جی کی کمزوری ایوانِ پارلیمان کے مانسون اجلاس میں کھل کر سامنے آگئی ۔ بیس دنوں کے ہنگاموں میں وہ ایک منٹ کیلئے بھی وہاں نہیں پھٹکےاور راہل گاندھی کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ جس نے ہمیں شکست دی ہے اس میں دم ہے لیکن اب پتہ چل گیا ہے کہ دم نہیں ہے ۔ ہم سوچ رہے تھے کہ ۴۴ ارکانِ پارلیمان کے ساتھ ہم کریں گے لیکن ہم نےانہیں ڈرادیا ہے ، وزیراعظم ڈرپوک ہے۔ خود بی جے پی نے بھی اقتدار میں ہونے کے باوجود احتجاج کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ کمزور ہے ورنہ جس کے پاس اقتدار کی باگ ڈور ہووہ بھلا احتجاجی جلوس کیوں اور کس کے خلاف نکالے؟ احتجاج عام طور پراپنے سلب شدہ حقوق کی بحالی کیلئے  کیا جاتا ہے ۔ جو حکومت خود اپنے حقوق کے تحفظ سے قاصر ہے وہ بھلا دوسروں کو کیا تحفظ فراہم کرے گی اورسابق فوجیوںیا عام لوگوں کی دادرسی کیسے کرے گی؟ 
وزیراعظم نے ہندوستان کی عوام کو جس جدید لقب ’’ٹیم انڈیا ‘‘ سے نوازہ ہے وہ فی الحال ٹیم وراٹ کوہلی سے زیادہ سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ اس کااندازہ  یوم آزادی سے دو دن قبل میرٹھ کے اندر پیش آنے والے ایک واقعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ ۳۵ سالہ فوجی جوان وید مترا  چودھری جب دودھ لینے کیلئے کر روہتا روڈکی ایک دوکان میں گیا تو دیکھاکچھ شرپسنددوکان کے مالک  کی بیٹی کو چھیڑرہے ہیں۔ چودھری  نے مداخلت کی تو آکاش نامی لڑکے نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور وہ سب لاٹھی ڈنڈوں کے ساتھ وید مترا پر ٹوٹ پڑے ۔ دون بعدیعنی یوم آزادی کے دن  فوجی ہسپتال میں لانس نایک وید مترا  چودھری  نےدم توڑ دیا ۔اس معاملےمیں ۸ لوگوں کے خلاف نامزد شکایت درج ہوئی اس کے باوجودپولس  آکاش،  سنجو اور رتیش کو گرفتار کرنے پر اکتفاء کئے ہوئے ہے۔
اس واقعہ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں  مجرمین کے بجائے شاہدین خوفزدہ ہیں ۔ دوکان کے مالک کا کہنا ہے اسے جوابی حملے کا خوفہے۔ابھی تک پولس تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ پولس اپنا پلہّ جھاڑتے ہوئے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا  کہ وہ  فی الحال یوم آزادی کے بندو بست میں مصروف ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی آزادی ہے کہ جس کی حفاظت کی جارہی ہے؟ وہ آزادی جس میں اپنے والد کو چائے دینے کیلئے آنے والی بیٹی کے ساتھ کھلے عام چھیڑ خوانی کی جاتی ہے؟ اس کو روکنے والے فوجی کو ہلاک کردیا جاتا ہے؟مرنے والے فوجی کے بیوی بچوں کی دادرسی نہیں کی جاتی ؟ کیا ان سنگین مسائل کو ٹیم مودی صرف’’اسٹینڈ اپ اور اسٹارٹ اپ‘‘کےکھوکھلے نعروں  اور نمائشی دوروں سے حل کرے گی یا ٹھوس اقدامات بھی کرے گی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کہیںاسغیر سنجیدہ، بدعنوان اور کمزورٹیم مودی سے ایسی توقع رکھنا خام خیالی  تونہیں ہے؟

An year of a fall from grace

 
This extraordinary year can be classified into two periods from the perspective of the National Politics. The first part begins from the previous Independence Day and goes through to the current Republic Day while the second period commences from the Republic Day and stretches through this Independence Day. In this period, the people of India have witnessed both the rise and the fall of the Prime-Minister and they have also realised that what ascends quicky has to descend as quickly.
The celebration time commenced with the declaration of the Election results. Even the BJP was not expecting to attain a full majority on its own. This was probably beyond their wildest dreams. The era of their downfall began with the results of the Delhi elections. Never in the Indian history had a novice start-up party achieved this. Sushma Swaraj went on admit that they were going through an inauspicious year and it is quite possible that the Prime-Minister might declare in his Independence Day speech that stars are not in their favour.
It would be quite fair to judge the performance of Modiji based on the characteristics laid down by his enthusiast supporters. Here are a some of his qualities propounded by them:
·         Development Icon
·         Industry Friendly
·         Non corrupt
·         Hindu Nationalist and
·         Efficient
Efficiency:           One may not remember what Modiji spoke last year and more so because he himself might not remember it. However, who would forget that thunderous slogan of “Swachh Bharat”. Modiji was so explicit about the problems of defecating in open that and it only resulted in putting the entire nation to shame.It became a public knowledge that the half of the global population who defecate in the open reside in India. After a passage of two and half months, “Swachh Bharat” campaign was launced on Gandhi Jayanti with much fanfare. The colourful trash was arranged for the ministers to clean so as to make a good photo-opportunity without bothering their nostrils. Even a whopping Rs.94 Crores were spent to create awareness of the campaign. However, what followed in the survey of 476 towns by the very own Urban Affairs Ministry of the Central Government was good enough for the Modi government to tender their resignation. Of the top 100 best performing towns, 39 belong to the southern India, where BJP does not  rule in any single state. Second position belongs to the Eastern states which also do not have the BJP government. The Western and Northern States where the BJP is in rule are on third and fourth positions respectively. If one were to take in account the top ten towns, only Navi Mumbai features on the ninth position which has got a BJP rule. And if the worst ten performers are to be viewed, then eight of them belong to the states ruled by the BJP. Varanasi, the very own constituency of Modiji is on 418th position. Is this a measure of efficiency or a case of darkness beneath the candle.
Hindu Nationalism:        Our country has got a fairly large number of intellectuals who do not see any wrong in being a Hindu nationalist leader. With the advent of Modiji in power, the spirits of Hindu Nationalists surged skywards. There was no refrain on the words and speeches. Somebody uttered of all Indians being Hindus, some started classifications of “Ramzades” and”Harmazades”, some got into the Love Jihad discourses while some launched “Gharvapasi” movements.  The attacks on mosques and churches surged alongwith Communal Violence. When things started moving out of control owing to bashing from the global community, Modiji scolded Sakshi Maharaj in such a fashion that he resorted to crying. This was a signal enough for all the big boys. What followed was that RSS organised an Iftar Party for the first time in its history and further, the Ulema meets came in vogue. These attempts may not have yielded any fruits but were enough to control the damage inflicted by the Love Jihad and Gharvapasi campaigns. The things have come to such an extent that the Dalits have now started embracing Islam at Jantar Mantar but Sangh Parivar is unable to do much beyond putting up symbolic opposition. They are infact unable to open their lips even against the Cross Border Terrorist attacks. Is it what one equates with Hindu Nationalism
Abolishment of Corruption:       On the first anniversary of his rule, Modiji had a question to the people of Chhattisgarh. He asked that did they see or listen of any incident of corruption during this regime? The prime minister was unaware that a Rice Scam amounting to one and lakh crore rupees was boiling on the very land of the Chhattisgarh. It was to be followed by an avalanche of scams. The Chikki Scam in Maharashtra, the Land Scam of Haryana and the Vyapam in Madhya Pradesh started popping up. The methodology adopted by Shivrajsingh Chauhan in mitigating the Vyapam horror made him the butt of the jokes. Shivraj was even being equated with Yamraj on the social media. The things have come to such a passé that 70 people have appealed the President to let them die. This all was enough to blow away the tall claims of “Will eat not and not allow to eat”. 
Probably, the biggest change of the year is transformation of discourse from “NAMO” to “LAMO”. The year before “NAMO” name was doing rounds in every nook and corner of the country. Everybody was keen to know Modi’s opinion on one and the sundry subject. His weirdest comments used to make huge headlines.But Modiji has now switched into a silent mode. He is not speaking beyond some crammed up election talks and pre-written speeches in the foreign lands His speaking has come to such a state of affairs that his recent speech in Gaya was post-mortemed in a matter of minutes by Nitish Kumar and it was he who hogged up the limelight instead of Modi. On the contrary, an ordinary tweet of Lalit Modi is now busting charts and is drawing more attraction than the “Man Ki Baat” of the Prime-Minister. With the mercy of Sushma Swaraj, he has even got the audacity of declaring a new Cricketing format in Australia against the ICC inspite of having a warrant against him. Lalit Modi controversy has created an unprecedented embarrassment to the Modi government. Foreign Minister, Sushma Swaraj keeps on getting into his tangle from time to time. Every time she speaks up, she ends up stoking a new controversy. She recently spoke in the Parliament that if it was a sin to help a cancer affected lady then she was the culprit of such a sin. And she goes on to say that her support was merely a verbal one and if someone had proofs against her, they were welcome to present them. Rahul latched onto her statement saying that if she was really supporting someone in the need of help then why was she doing it secretly. Why did she not write an official letter for the same? This secret dealing was very much a proof against her. She need to speak up that how much cash did she receive from Lalit Modi? Sonia termed it as dramatics and left the matter there but Kapil Sibal named Narendra Modi being a guardian of the corrupts. Modiji even praised Scindia and Chauhan in Bihar against whom there is a long list of proofs. There are many facts on the mutual relations between NAMO and LAMO are behind the scenes. Congress is now accusing Gautam Adani the close confidante of Narendra Modi for his proximity with Lalit Modi. Their camarederie developed when he used to chair the Gujarat Cricket Association by virtue of his position of being a Chief Minister. He later passed on the baton to his close confidante Amit Shah and their relations flourished further. The reason behind Narendra Modi’s silence on Lalit Modi is probably the fact that any statement of his might invite accusations from all possible corners and end up blemishing his clean image.
It was Ram Jethmalani who punctured the tall claims of Narendra Modi’s holy war against corruption. In order to put brakes on Corruption, the proposal to appoint Shri V.K.Chaudhary as Cheif Vigilance Commissioner was opposed by Shri Jethmalani. He wrote a letter to the President Pranab Mukherjee and claimed that such a move would be a disaster for the country. Ram Jethamalani has accused Shri V.K.Chaudhary of not only being corrupt but also a man indulged in criminal activities. He said that he often escapes by way of his relations with anti national elements. Modiji’s intentions are becoming quite evident of his willingness to eliminate corruption by such appointments. He further said that his waning respect for the prime minister has now come to full null and he would put up his case in front of the people and the Judiciary. This is the same Ram Jethmalani who had pledged his support for Narendra Modi as a Prime Minister.
Industry Friendly:            Within his first six months of his rule, Modiji had blessed Gautam Adani and Mukesh Ambani with bounties. He raised the slogan of “Make in India” and invited the global industrial community to invest in India. However, people did not fall for these fancies existent only on paper. Amidst this he tried to formulate a new Land Acquisition Bill but Rahul’s blistering attack and jibes of “Suit Boot ki Sarkar” had the government reeling for cover. When the Delhi and Bengal election results sent apprehensive signals of being viewed as Anti poor, he started taking steps which did not find popularity with the Capitalists. Thus he was found wanting by both the sections.   
What Rahul Bajaj recently spoke of Narendra Modi is pretty evident of his performance. Rahul Bajaj’s father was a great Gandhian but his thoughts have nothing to do with Gandhiji nor even with Nehru. He is famous for not mincing his words and for his clean and non corrupt reputation. He did criticize Modi initially for his role in 2002 riots but later he turned one of his admirers.
Recently, while speaking with the NDTV Rahul Bajaj said that it was after 30 years that a party had attained a full majority and the country had found a new emperor.I am not against the government but the fact remains that much shine has faded away. He said that it was not the Narendra Modi Government which they expected. This pretty much summed up the mood among the Industrial and capitalist fraternity. The icon of development was now getting eclipsed by the shades of backwardness. Well, this was bound to happen but it would happen so early was not even predicted by his worst detractors.
There are many reasons for such state of affairs. However, it would be interesting to notice one example. With all his virtues, Narendra Modi also has a handful of his share of notoriety. If one were to search the most criminal individuals, then Google throws up Modis’s image. Similarly, his image pops up while searching for the most stupid prime minister and so on. 
Many may not be aware about Modiji’s penchant for writing books and his fondness for reading books. It may not have attracted much media attention but Amit Shah is believed to be participating a function to be presided by Rajnath Singh. It is reported that three books written by Modi would be launched at the function.
The title of the book is also no less interesting. It is “Samajik Sadbhav – Sadbhavna”. It seems that Modiji did not give a proper brief to the one assigned the job of writing books for him.After all, what Sadbhavna has to do with Narendra Modi? The second book is title “Jyotipunj” which features individuals who inspired Narendra Modi. It is probably his way of paying tributes to people by writing books written and offering condolences to seniors and then pushing veterans like Advani and Joshi to corners terming them Margdarshaks. His meaning of Margdarshak may be someone who is in waiting or someone who had to cut the way.
His third book is a collection of poems. What would be the irony of this era that a man who even fumbles while reading the written statements is now writing books. However, if he declares during his Independence Day Speech that he is retiring from the politics to pursue his writing interests then it would indeed turn out to be beneficial to one and all The way his book launches are being ignored pretty much shows the national mood about his waning influence. It seems very unlikely that people would be keen to listen to his Independence Day Speech when Rahul Gandhi has taken away the punch of him by terming him a timid Prime Minister.