Thursday 20 October 2016

ہم بدلتے ہیں رخ ہواوں کا ، آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

ہم بدلتے ہیں رخ ہواوں کا ، آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
ڈاکٹرسلیم خان
نریندر مودی کی سرکار نے مسلمانوں پر یہ احسان ضرور کیا کہ  شریعت کے چھتے میں تین طلاق کے پتھر ماردئیے۔ اردو اخبارات گواہ ہیں کہ امت پھر ایک بار بیدار ہوچکی ہے  ایسے میں ملت کے  ایک ہمدردنےواٹس ایپ پر یہ پیغام بھیجا کہ جس قدر محنت ہم شریعت کے تحفظ کی خاطر کرتے ہیں  اگر اس کا عشر عشیر بھی عملدرآمد کیلئے کریں تو شاید کوئی  مداخلت کی جرأت ہی نہیں کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ جتنی  فکر ہمیں شریعت بچانے کی ہوتی ویسی گرمجوشی  شریعت کی پیروی   میں نہیں نظر آتی ۔ اس کی وجوہات کی جانب اگر توجہ نہ دی جائے تو یہ شکایت باقی رہے گی۔ پہلی وجہ تو شاید یہ ہے کہ قانون تبدیل کردینا یا اسے تبدیل ہونے سےروک دینا جس قدر سہل ہے خود اپنے آپ کو اس میں ڈھال لینا  اتنا آسان نہیں ہے بقول اقبال؎
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
دوسری وجہ یہ ہے کہ احتجاج کی شکلیں بہت واضح ہوتی ہیں مثلاً کوئی مضمون لکھنایا سوشیل میڈیا کیلئے کوئی  مختصرفکاہیہ لکھ کر پھیلا دینا  جس کو بیشتر وہی لوگ پڑھ کر خوش ہوتے ہیں جو اتفاق کرتے ہیں ۔ اختلاف کرنے والوں تک رسائی کم ہی ہوتی  اس لئے کہ زیادہ  ترتحریریں اردو میں ہوتی ہیں جس کو صرف مسلمان پڑھتے ہیں۔ ہندی اور انگریزی میں بھی لکھا جاتا ہےمگر  اس کا لب ولہجہ مخالفین کی دلآزاری  کرنے والا زیادہ اور  دل جیتنے والا   کم ہوتا  ہے (الاّماشااللہ)۔ ہم بھول جاتے ہیں کے سارے غیر مسلم ہمارے دشمن نہیں ہیں ۔ جتنے ہمارے خلاف ہیں اتنے ہی سنگھ کے بھی خلاف ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان ایک معتدل  طبقہ نہ  کسی کامواقف ہے نہ مخالف ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پیغامات سے یہ معتدل ہمارا حامی بن جاتا ہے یا مخالفت پر آمادہ ہوجاتا ہے ساتھ ہی دیگر لوگوں پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے ؟  شریعت پر لگائےجانے والے اوٹ پٹانگ الزامات کے جواب میں ویسے الزامات لگا دینے  سے یہی تاثر جاتا ہے کہ خواتین کے حقوق کی پامالی میں  دوسرے ہم سے آگے  ہیں لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا  کہ شریعت اسلامی  مبنی برانصاف ہے ۔  اس طرح اسلام کی دعوت پیش کرنے کا ایک  نادر موقع ہاتھ سے نکل جاتاہے ۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ تحفظ شریعت تحریک میں  عملی شرکت بہت واضح ہوتی ہے مثلاً کسی احتجاجی جلسے میں شریک ہوکر تقریر سننا یا کرنا ۔ کسی مظاہرے میں شامل ہوکر نعرے لگانا  یا دستخطی مہم چلانا وغیرہ ۔ اس میں شک نہیں کی یہ نہایت اہم اور ضروری سرگرمیاں   ہیں جن کا دنیا اور آخرت میں  فائدہ مسلم ّ ہے ۔ ان کیلئے درکاروقت اور محنت  کی قربانی کا اندازہ لگا کر بخوشی پیش کردینا مشکل نہیں  ہے لیکن  عملدرآمد میں آمادگی کی کمی کے سبب شرعی احکامات  کی ضروری  معلومات حاصل کرکے اسےاپنی زندگی پر  نافذ کرنا مشکل لگتا  ہے ۔ جلسے جلوس میں دوسروں  دیکھا دیکھی  وہی سب خود بھی  کرنا نہایت سہل ہوتا ہے لیکن اپنے  منفرد مسائل کوحل کرنے کے لئے شریعت  سے رجوع کرکے ان احکامات کی بجاآوری دقت طلب  لگتی  ہے ۔
آخری وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی  سے ہمارے معاشرے کا دھارا شریعت کے خلاف بہہ رہا ہے اس  لئےشریعت  سے محبت  کرنے والا بھی  ہوا کے رخ پر اس کے مخالف سمت میں چل پڑتاہے ۔ عام آدمی  دریا کے بہاو کے خلاف تیرنے  کا حوصلہ نہیں رکھتاوہ  بہاو کے ساتھ بہنے میں عافیت سمجھتا ہے ۔  اس وقت ضرورت ہوا کے رخ کو  موڑ کر ایسا ماحول بنانے کی ہےکہ جس میں شریعت کی روگردانی مشکل ہوجائے اور یہ ہدف ناممکن نہیں ہے ۔ ہماری نسل گواہ ہے کہ جب نماز کی جانب توجہ کی گئی تو بلا تفریق ِ مسلک  مساجد آباد ہوگئیں ۔ یہی کامیابی حجاب کے محاذ پر بھی ملی پہلے اعلیٰ تعلیم گاہوں میں شاذونادر ہی کوئی طالبہ برقع میں نظر آتی تھی  لیکن مسلم طالبات نےاب  بڑے اعتماد کےساتھ اپنے شعائر و لباس کا لوہا منوالیا ہے۔یہ برضا و رغبت آنے والی محدود کامیابی   اگر مکمل  شریعت کے نفاذ تک وسیع ہوجائے تو   وقت کا دھارا بدل سکتا ہے۰۰۰۰۰ اور بدلے گا ۰۰۰۰۰ان شاء اللہ   ۔

Thursday 13 October 2016

دھرم کرم


ڈاکٹرسلیم خان
سیٹھ دھرم داس حسب معمول اپنے پوتے چرنو کے ساتھ چہل قدمی کیلئے نکل رہے تھے کے دروازے کے پاس بیٹے سیٹھ کرم داس  عرف کرموکو کھڑا  پایا۔ سیٹھ کرم داس پر دھن دولت کا ایساجنون سوار تھا کہ  کبھی اپنے اہل خانہ کے لئے فرصت ہی نہیں نکلتی تھی ۔ اسے منتظر دیکھ کر سیٹھ دھرم داس کو حیرت ہوئی ۔ وہ سمجھ گئے کہ آج ضرور کوئی کام خاص ہے۔ اپنے بیٹے کی رگ رگ سے واقف  جوتھےمگر سوال نہیں کیا ۔ جانتے تھے کہ کرمو بہت جلد ازخود مطلب پر آجائیگا۔
کرم داس نے پوچھا بابا اتنی صبح صبح یہ دادا اور پوتا کہاں جارہے ہیں؟
دھرم داس سے قبل چرنو بول پڑا بابا ہم لوگ تو ہر روز اس وقت نیچے ترائی میں باغ کی سیر کیلئے جاتے ہیں آپ ہی نہیں آتے ۔
دھرم داس نے کہا بیٹے تیرا بابا بہت مصروف آدمی ہے ۔ اس کے پاس ان فضول کے کاموں کیلئے وقت نہیں ہے ۔
کرم داس نے تائید کی اور بولا جی ہاں بابا نہ جانے وقت کی برکت کہاں چلی گئی کام ہے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔
دھرم داس بولے جی ہاں بیٹے اور عمر ہے کہ ختم ہوتی چلی جارہی ہے  ۔
 یہ تین نفری قافلہ جب آگے ایک موڑ پر پہنچا تو کرم داس بولا بابا آپ لوگ نیچے باغ میں کیوں جاتے ہیں اوپر پہاڑی کی جانب کیوں نہیں جاتے؟
دھرم داس مسکرا کر بولے بیٹے بلندیاں تم جیسے جوانوں کیلئے ہیں ۔ ہم جیسے کمزوروں کی عافیت نشیب کا باغ ہے اوپر کی جانب میں خود تو کسی طرح جا بھی سکتا ہوں لیکن یہ چرنو نہیں چڑھ سکتا اور اب میرے بازووں میں اتنی سکت نہیں کہ اسے اٹھا کر چل سکوں ۔
کرم داس بولا لیکن میرے بازو ابھی مضبوط ہیں ۔ جس طرح آپ مجھے اٹھا کر لیجایا کرتے تھے میں اسے لے گود میں لے لیتا ہوں ۔ چرنو کیلئے یہ  انکشاف تھا۔ اسے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ بچوں کو گود میں لے کر بھی سیر کرائی جاتی ہے ۔   اب وہ تینوں  بلندیوں کیا جانب رواں دواں تھا ۔  کافی دیر بعد ایک پہاڑی کے سرے پر پہنچ کر کرم داس نے چرنو کو نیچے اتاردیا اورکہا بیٹے اب تم کھیلو لیکن ذرا سنبھال کر بہت دور نہ نکل  جانا آگے خطرہ  میرا مطلب کھائی ہے ۔
چرنو نے کوبہت اچھا لگ رہا تھا اس نے اس مقام بلندسے دنیا کو کبھی نہیں دیکھا تھا  ۔ کرم  داس آگے کی جانب اشارہ کرے  بولا بابایہ ساری زمین جو آپ نے فروخت کردی تھی میں نے  واپس خرید لی ہے ۔ اب تو آپ خوش ہیں ۔
دھرم داس نے کہا بیٹے اگر مجھ کو اس زمین جائیداد سے محبت ہوتی تو میں اسے بیچتا ہی کیوں ؟ مجھےتو اپنے کرم یوگی بیٹے کرم داس  پرناز ہے۔
کرم داس کی سمجھ میں بات نہیں ہے  وہ بولا بابا تو بتائیے کہ میں ایسا کیا کروں جو آپ خوش ہوجائیں ۔
چرنو بول پڑا ۔ داداجی نے تو بات کہہ دی لیکن آپ نہیں سمجھے بابا۔ جب آپ مجھےبھی اپنی طرح سیٹھ چرن داس بنادیں گے تب وہ خوش ہوجائیں گے۔
دھرم داس بولے اس ننھے چرنو  کی زبان سے  تو ایسی حکمت کی بات  ادا ہوگئی کہ  جی چاہتا ہے اس کے چرن چھو لوں ۔
کرم داس آگے بڑھا اور سیٹھ دھرم داس کے چرن چھو کر بولا بابا آشیرواد دیجئے ۔
دھرم داس بولے بیٹے سدا سکھی رہو اور وہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا جو ابھی ابھی تم نے چرنو کو کی تھی ۔
کرم داس نے حیرت سے پوچھا آپ کس نصیحت کی بات کررہے ہیں بابا؟
دھرم داس مسکرا کر بولےبھول گئے ۔ ابھی تو تم نے کہا تھابیٹے کھیلو مگر سنبھال کے، دیکھو بہت  دورنہ  نکل جانا ،آگے خطرہ ہے۔