Thursday 25 August 2016

حادثے سے بڑا سانحہ ۰۰۰۰۰۰

حادثے سے بڑا سانحہ ۰۰۰۰۰۰
ڈاکٹر سلیم خان
قابل اجمیری نےجب عوامی بے حسی کو حادثے سے بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا’’ لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر‘‘ تو شعر ضرب المثل بن گیا۔ لیکن آج کل کے لوگ جب حادثے کو دیکھ کر  ٹھہرتے ہیں تو فوراً ان کا ہاتھ اپنے موبائل پر جاتا ہے ۔ وہ فون  سے کسی ایمبولنس وغیرہ کی مدد نہیں طلب کرتے بلکہ زخموں سے کراہتے فرد کی تصویر یا ویڈیو بنانےلگتے ہیں تاکہ  اسے فیس بک یا واٹس ایپ کے ذریعہ ساری دنیا میں پھیلا سکیں ۔ نشرو اشاعت کے اس کھیل میں حادثہ زدہ  شخص ایڑیاں رگڑ رگڑ  کر دم توڑدیتا ہے۔ ساری دنیا میں اس پر افسوس تو ہوتا ہے لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا۔ ایسا عظیم تر سانحہ کی وجہ یہ ہے  کہ عصر حاضر میں نمود و نمائش نے اعلیٰ انسانی اقدار کو یرغمال بنا لیا ہے۔
ہمدردی، غمخواری اور ایثار و قربانی  جیسے صفات عالیہ سے لیس ہوکرانسان دنیا میں آتا ہے  لیکن اسے اختیار  حاصل ہوتا ہے کہ اگر چاہے تو انہیں پروان چڑھائے یا پامال کر دے۔  اگر کسی معاشرے کے لوگ ان قدر وں سے محروم ہو جائیں توان کی تعلیم و تربیت ، دولت و ثروت ، حکمت و ذکاوت جیسی خوبیاں بھی بے سود ہوجاتی ہے ۔ انسانیت سے بے بہرہ افراد کا سماج درندوں کے جنگل سے ابتر ہوجاتا ہے ۔ اس لئے کہ درندوں میں حرص و ہوس، دھوکہ فریب ،ظلم وستم اور  جبرواستحصال جیسے اوصاف رذیلہ نہیں ہوتے ۔ جنگل میں فطرت کا جبر خون بہاتا ہے انسانی سماج میں اقتدارو دنیا پرستی کی حرص خونریزی کا سبب بنتی ہے ۔ درندہ  صفت انسانوں کی سفاکی کے سبب  بہنے والی خون کی ندیوں کی تباہی جانوروں کی محدود ضرورت کےباعث ہونے والی  خسارےسے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ جنگل میں قتل عام نہیں ہوتا۔
مثالی  معاشرہ حقوق و ذمہ داریوں کے توازن سے وجود میں آتا ہے ۔ اس میں کمزور کی پشت پر انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے علاوہ باشعورسماج کا اخلاقی  دباو ظالموں کواستحصال سے باز رکھتا ہے۔  عدل ومساوات ہی انسانی سماج میں امن وآشتی کی ضمانت ہے لیکن اگر انسانیت سے عاری افرادمذکورہ اداروں  پر قابض ہوجائیں تو معاشرے کا امن و امان غارت ہوجاتا ہے۔ موجودہ دگرگوں  صورتحال کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انفرادی سطح پر انسانیت  دم توڑ چکی ہے اور اجتماعی حیثیت سے امن کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ ان دونوں کے باہمی تعلق کو موبائل فون کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں طرح طرح کے  فون مختلف ناموں سے بنتے ہیں لیکن ان سب میں کچھ خصوصیات (ایپس) مشترک ہوتی ہیں  یعنی فون اور پیغام کا آنا جانا وغیرہ ۔اسی طرح انسانیت ساری دنیا کے انسانوں کی مشترک میراث ہے۔ اب  اگر کوئی ان بنیادی اور لازمی اوصاف  کو اپنے موبائل  نکال دے یا کسی وائرس  کے سبب وہ  تعطل کا شکار ہوجائیں تو ایسافون محض ایک نمائشی  کھلونا بن جاتا ہے۔ اسی طرح انسانیت سے محروم افراد  بھی دو پیروں والے درندے میں  تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ دنیا کا قیمتی سے قیمتی  فون نیٹ ورک کے بغیر  بیکار ہوجاتا ہے  ۔ انسانی سماج میں یہی حیثیت امن کی ہے کہ اس کے بغیر بہترین انسانی گروہ  بھی اپنا  فرض منصبی ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔امن و انسانیت کے حوالے سے یہ امت کی   ذمہ داری ہے کہ بنی نوع انسانی کے اندر انسانیت کا چراغ روشن کیا جائےنیزسب کے ساتھ مل  کر سماج میں امن و امان بحال کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ انسانوں کے درمیان محبت و اخوت  کا رشتہ اسی نیٹ ورک سے بحال ہوسکتا ہے  اور ہم  اس دنیائے فانی  کو جنت نشاں بنا کر اپنے آپ کو بہشتِ حقیقی کا سزاوار بناسکتےہیں ۔

Thursday 18 August 2016

تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم


پانی کی ضرورت تشنگی میں نہاں ہے۔ روشنی کے فیوض و برکات کاراز ظلمت و تاریکی کےپردے میں چھپا  ہے ۔  امن و انسانیت کی اہمیت سے ظلم و فسطائیت کا شکار سماج خوب واقف ہے۔لیکن فسطائیت کے مظاہر سے اس کے حقیقت کی معرفت مشکل ہے ۔ عام طور پر اس موضوع پر گفتگو  مودی سے شروع ہو کر ہٹلر پر ختم ہوجاتی ہے۔ درمیان میں کبھی کبھاراسرائیل کا ذکر بھی آجاتا ہے لیکن سطحی  مرثیہ خوانی  کے عمل میں طاغوت کی نفسیات ، اس کا مقصدو طریقہ کار زیر بحث نہیں آتا اور اس لئے روک تھام کی تدبیر  بھی نہیں ہوپاتی۔  فرعون کے حوالے   سے اللہ کی کتاب ، فسطائی  کاتعارف ؟ اس کے عزائم و ارادے  ؟ اس کی حکمت عملی ؟اور اس کو لاحق خوف واندیشہ ؟  نہایت فصیح و بلیغ انداز میں پیش کردیتی  ہے۔
سورۂ القصص کی ابتداء میں فرعون کا مختصر مگر نہایت جامع تعارف بیان ہوا ہے تا کہ معرکۂ فرعون و کلیم کا سمجھنا آسان ہوجائے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی ‘‘ ۔ دنیا بھر کے فسطائی حکمراں بظاہر مختلف مذاہب ونظریات کے حامل نظر آتے ہیں ۔ کوئی عیسائی ہے تو کوئی یہودی ، کوئی مسلمان ہے توکوئی ہندو لیکن ان سب کے درمیان یہ قدر مشترک ہے کہ وہ سب سرکش و باغی ہیں ۔ وہ خود کو اپنے خالق و مالک کا امانت دارنائب  سمجھنے کے بجائے ’’انا ربکم الاعلیٰ (میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں)‘‘ کے دعویدار ہوتےہیں۔ یہی زہریلا بیج فسطائیت کے شجر خبیثہ کا جنم داتا ہے اور اس کی بیخ کنی کے بغیر فسطائیت کا خاتمہ ناممکن ہے۔
فسطائیت کا طریقۂ  کار یوں بیان کیا  گیاکہ ’’(فرعون نے) اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ‘‘  آیت کے اس حصےمیں تمام فسطائی قوتوں کی مشترکہ حکمت عملی بیان کردی گئی ۔  یہ حکمراں اپنے  باشندوں کے درمیان تفریق وامتیاز روارکھتے ہیں ۔ ایک طبقہ کو demonize کرتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کی مددسے اس مخصوص گروہ کو ہرطرح کے فتنہ و فساد کیلئے ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں۔  اس سے نہ صرف حکمرانوں کی ناکامیوں اور جبروظلم پر پردہ پڑ جاتا ہے بلکہ معتوب قوم پر ہر طرح کے جوروستم کا جواز فراہم ہوجاتا ہے ۔  آگے فسطائیت کی فرعونیت اس طرح بیان ہوئی کہ ’’وہ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا ‘‘۔یہاں پر دوطرح کی تعذیب کا ذکر ہے اول تو نفسیاتی کہ  ذلیل و رسوا کرکےمزاحمت کاجذبہ ماند کردیا جائے اور دوسرے قتل و غارتگری  کہ جس سے  معتوب گروہ  کوخوف و دہشت  کاشکارکرکےمایوس کیا جاسکے۔  فرعون اور  اس کی قبیل کے لوگوں   کی انفرادی سرکشی ایک اجتماعی فساد پر منتج ہوتی ہے اس لئے فرمایا ’’فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘۔
فرعون کے عزائم کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنا ارادہ بیان فرماتے ہیں ’’ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں‘‘ اس آیت میں دنیا بھر کے مستضعفین کو بشارت  دینے کے بعد فرعونیوں کی پریشانی کا ذکراس طرح کیا گیا کہ   ’’ اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا‘‘ آیت کا آخری حصہ واضح کرتاہے کہ ساری دنیا کو خوف ودہشت کا شکار کرنے والے یہ موت کے سوداگر اندر ہی اندر خود خوفزدہ  رہتےہیں ۔  ظالموں  کو اس بات کا اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں اقتدار ان کے ہاتھوں چھن کرایسے لوگوں کے پاس نہ چلا جائےکہ جن کو  انہوں نےظلم وستم میں مبتلاء کررکھا تھا۔  ویسے یہ حقیقت ہے کہ  دنیا و آخرت میں  ہر فرعون کیلئے نہایت عبرتناک  انجام  مقدر کردیا گیا ہے۔ مشیت ایزدی  یہی ہے۔

Thursday 11 August 2016

گل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھل جانے کے بعد


ڈاکٹر سلیم خان
اذکارِمسنونہ میں اگر قلب و ذہن بھی رطب اللسان ہو تو معرفت کےنئے باب کھلتے ہیں۔ مثلاً  زینے سے نیچے اترنے  کی دعا ہے سبحان اللہ  اور اوپر چڑھتےوقت اللہ اکبر کی تلقین ہے۔ آج کل لفٹ کے اندر یا باہر بھی یہ دعائیں لکھی ہوتی ہیں جنہیں ہم لوگ  بے ساختہ پڑھ لیتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا یہ عمل باعثِ اجر و ثواب ہے لیکن اگر غور و خوض بھی اس میں شامل ہوجائےتو  خیر وبرکت میں بیش بہا اضافہ ہوسکتا ہے۔  بظاہر نیچے اترتے وقت سبحان اللہ کہنے یا اوپر جاتے وقت اللہ اکبرکا ورد بے ربط سا لگتا ہے لیکن اگر اس اتار چڑھاو کو زندگی کے نشیب و فراز پر پھیلا دیا جائے اور اس دوران کی نفسیاتی کیفیت سے اسے جوڑ دیا جائے تو معنیٰ و مفہوم کی کئی جہتیں منکشف ہوتی ہے۔
اس جہانِ متحرک میں سکون کے علاوہ سب کچھ ہے۔ ہر شئے تغیر پذیر ہے اورتبدیلیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ  بے تکان جاری و ساری ہے۔ حالات زندگی بدلتےرہتے ہیں اور تبدیلی کی رفتاربھی  یکساں نہیں رہتی ۔ لیکن  جب وہ تندو تیز ہوتی ہے تو اپنی موجودگی کا شدت سے احساس دلاتی ہےاور جب ماند پڑجاتی ہے تو گمان ہوتا ہے کہ گویا سب کچھ ٹھہر گیا ہے حالانکہ یہ محض خوش گمانی ہے۔ وقت  کی گھڑی میں چلنے والے کانٹے کبھی نہیں رکتے۔ حضرت ِ انسان  کو مشیت کبھی  سیکنڈ کے کانٹے پر سوار کردیتی ہے تو وہ ایک منٹ میں اپنا چکر پورا کرلیتا لیکن جب اسے منٹ کے کانٹے پر سوار کردیا جاتا ہے تو اسے ایک گھنٹے میں اپنا طواف مکمل کرنا پڑتا ہے اور گھنٹے والے کانٹے سے لٹکے ہوئے فردِ بشر کو اسی دائرے کی تکمیل میں بارہ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ سارےجھولے اور ان پر سوار شائقین اپنی اپنی رفتار سے اس وقت تک محوِ گردش رہتے جب تک کہ ان کی کوک یا بیٹری ختم نہیں  ہوجاتی ۔
نشیب و فراز سفر حیات کا جزوِ لاینفک ہے۔جب انسان نیچے کو جارہا ہوتا ہے تو اس کے اندر حزن و ملال  کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ یہ کیفیت جب مایوسی میں بدلتی ہے تو انسان کے اندر احساس جرم جنم لیتا ہے ۔ وہ اپنی ناکامی کیلئےاپنے آپ ذمہ دارٹھہرا کر خود کو کوسنے  لگتا ہے ۔ یہ حالت اس کے قوتِ عمل کو سلب  کرتی ہے وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے اور خود اپنی نظر میں گر جاتا ہے۔ ایسے میں اگر اس کی زبان پر سبحان اللہ کا ذکر جاری ہوتووہ اسے یاد دلاتا ہے کہ تمام عیوب سے پاک اور قابلِ ستائش ذات تو صرف صرف اور رب کائنات کی ہے۔ یہ احساس مایوسی کو خود اعتمادی بدل دیتا ہے ۔ اللہ پر توکل کرکے  نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا اس کیلئے سہل تر ہوجاتاہے۔
حالات کےتبدیلی انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتی ہے۔ جب وہ اونچائی کی جانب رواں دواں  ہوتاہے ۔یکے بعد دیگرے کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں تو اس کے اندر کبر و غرور کا امکان پیدا ہوجاتا ہے ۔ نادان سمجھنا ہے کہ جو کچھ بھی وقوع پذیر ہورہا ہے وہ اس صرف  اورصرف  اس کی صلاحیتوں اور قوت بازو کا نتیجہ ہے ۔ اس میں کسی نادیدہ  ہستی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ ایسے میں وہ نہ صرف اپنے آپ سے بلکہ خدا کی ذات سے بھی غافل ہوجاتا ہے ۔کامیابی کی بلند منزلوں پر وہ احساسِ برتری کا شکار ہوکر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا  ہےایسے میں کلمۂ اللہ اکبر کاورداسے یاددلاتا ہے کہ بڑا تو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے ۔اس کے آگے تیری کوئی حیثیت نہیں۔’’برتری زیبا تو بس اس ذات بے ہمتا  کوہے‘‘  اس لئے کسی کواپنے سے کم تر نہ سمجھ۔
 حیاتِ زندگانی میں  جب  خوشی و مسرت ہاتھ آجائے تو دعا سکھائی گئی ’’سبحان اللہ ، اللہ اکبر ‘‘ یعنی نشیب و فراز کی متضاد کیفیتوں کو ایک دوسرے میں ضم کردیا گیا۔عروج وکامیابی کے لمحات میں اللہ کی پاکی اور تکبیر و توصیف کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ زوال و پستی  میں اپنے خالق و مالک کوکوئی نہیں بھولتا بلکہ زیادہ ہی یاد کرتا ہے۔ غفلت کی آندھی تو  بلندی  کی سہیلی ہےاسی لئے  افتخار راغب خبردار کرتے ہیں  ؎
خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے گل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھل جانے کے بعد

Thursday 4 August 2016

دیش بدل رہا ہے (طنز و مزاح)

شادی سے  پہلے اور شادی کے  بعدکے حالات کی طرح انتخابی نعرے بھی  بدلتے رہتے ہیں۔جب ’’اچھے دن آنے والے ہیں‘‘ کی گھوشنا کرنے والوں کے اچھے دن آگئے تو نعرہ بدل کر’’دیش بدل رہا ہے‘‘ ہو گیا۔ ویسے بھی شادی سےقبل تو انسان خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے اور بعدمیں ہی حقیقت سے  آشنا ہوپاتا ہے۔ ان دونوں نعروں کا فرق یہی ہے کہ ایک خواب تھا دوسرا تعبیر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دیش بدل رہا ہے۔ نئی سرکار سے قبل ہندوستان کا قومی جانور چیتا  ہوا کرتاتھا۔ دستور ی اعتبار سے اب بھی وہی ہے مگرآئین کا تقدس پامال کرکے چیتے کی جگہ زبردستی  گائے  نے لے لی ہے۔  اس کے باوجود عالمی چیتا دن کے موقع پر امرید کرہانڈلا کے جنگل سے فرار جئے نامی چیتے کے فراق میں مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ فردنویس نے آنسو بہاتے ہوئےامید ظاہر کی کہ وہ ضرور لوٹ آئے گا ۔ سنا ہے محکمۂ جنگلات نے اس کا سوگ مناتے ہوئے جگہ جگہ  ہورڈنگ  پر یہ شعر لکھ رکھا تھا ؎
یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کبھی اپنے گھر میں رہا کرو
اس ہورڈنگ میں حسب مراتب و روایت  ایک جانب شیر دل وزیراعظم کی مسکراتی ہوئی تصویراور دوسری جانب مرجھائی ہوئی گائے کی مانند جئے کی وزیراعظم کے ساتھ سیلفی تھی ممکن ہے وہ فوٹو شاپ پر بھکتوں کے ہاتھ کی صفائی ہو۔ جب ہورڈنگ کے تعلق سے عوام میں یہ کنفیوژن  پھیل  گیا کہ  شعر سیلفی کے بارے میں ہےتصویر کے بارے میں تو اسے ہٹا دیا گیا۔  ایک جلسہ عام میں جب وزیراعلیٰ نے  اعتمادکا اظہار کیا ’’ مجھے پورا یقین ہے کہ جئے لوٹ آئیگا کیونکہ آوارہ گردی  اس کی سرشت میں ہے‘‘  تو پھر لوگوں کا ذہن وزیراعظم کی جانب چلا گیا۔ اس موقع پر جوش میں آکر جنگلات کے وزیر منگٹموار نے  سیاحت کے فروغ کی  خاطرممبئی میں چیتامیلہ کے اہتمام  کا اعلان کردیا ۔ ہوسکتا ہے یہ ممبئی میونسپلٹی پر اپنا جنگل راج قائم کرنے کی خاطرشہر کے نام نہاد شیر اور چیتے یعنی ادھو اور راج ٹھاکرے کو گھیرنے کی کوئی سازش ہولیکن وزیر موصوف کو یاد رکھنا چاہئے کہ شیر کی سواری خطرناک ہوتی ہے۔ وزیر جنگلات نے یہ چونکا دینے والا  انکشاف  بھی کیا کہ اگر چیتے نہ ہوں تو بارش ہی نہ ہو۔ خیر سےان پر یہ نادر ساکشاتکار (کشف)  برسات کے بعد ہوا ورنہ وہ قحط زدہ علاقوں میں بارش  کیلئے چیتوں کو لاکر چھوڑ دیتے اس اقدام سےخونخوار چیتوں کی پیاس تو بجھ ہی جاتی۔
اس رات وزیراعلیٰ گھر پہنچے تواپنی سرکاری  کوٹھی کے درازے پرخاکی نیکر اور کالی ٹوپی پہنےجئے کو  ہاتھ جوڑکر کھڑا پایا۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر پوچھا بول کیا چاہتا ہے؟ جئے نے گذارش کی سرکار میرا آدھار کارڈ بنوادیجئے اس لئے کہ کل سے کارڈ کے بغیر خوراک  نہیں ملے گی ۔  وزیراعلیٰ نے کہا تتھا ستو اور اپنی دائیں جیب میں ہاتھ ڈال کر  نکالا تو ان کے ہاتھوں میں جئے کا آدھار کارڈ تھا ۔ جئے اس چمتکار کو دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ اس نے ہمت کرکے کہا سرکار اس پر تو چیتا لکھا ہے آج کل چیتے کا نہیں گائے کا بول بالا ہے اس لئے مجھے گائے والاکارڈ عنایت فرما دیجئے۔  وزیراعلیٰ مسکرائے اور اپنے بائیں جیب میں ہاتھ ڈالااس بار ان کے ہاتھ  میں جو آدھار کارڈ تھا اس کے اندر جئے کو گائے بنا دیا گیا تھا ۔
دوسرے دن جنگل کا عملہ جئے کیلئے گھاس لے آیا تو وہ بولا دیکھتا نہیں ہے کہ میں کون ہوں؟ جنگل کے مزدور نے جواب دیا میرا کام آدھار کارڈ دیکھنا ہے اور اس پر جو لکھا ہے وہی درست ہے۔ جئے نے اسے چنگھاڑ کر بھگا دیا تو وہ گھبرا کر وزیر جنگلات کے پاس پہنچ گیا اور بولا جئے نے بھوک ہڑتال کررکھی ہے اب آپ اس کا برت ختم کروائیں۔ ہمارے محکمہ میں سب آپ سے خوفزدہ ہیں اس لئے چیتا بھی ڈرتا ہوگا۔ اپنی تعریف سن کر منگٹموارخوش ہوگئے اوربذاتِ  خود گھاس لے کر جئے کی خدمت میں پہنچ گئے۔ بھوک کی شدت سے نڈھال جئے نے جب  دوسرے آدمی کے ہاتھ میں بھی گھاس کا گٹھر دیکھا تو ان داتا کوہی چٹ کر گیا ۔ اپنے پسندیدہ چیتے کے ہاتھوں  چہیتے وزیر کےقتل کی خبر سن کروزیراعلیٰ  کی آنکھ کھل  گئی۔