Sunday 8 November 2015

چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جا نچیں

بہار انقلابوں کی سرزمین ہے ۔  ہندو تہذیب کاسقراط یعنی چانکیہ  کا تعلق اسی ریاست سے تھا ۔  سناتن دھرم کا سب سے بڑا باغی اور مصلح گوتم بدھ نے بھی اسی دھرتی پر جنم لیا ۔ چندرگپت موریہ اورسمراٹ اشوک جیسے بادشاہوں نے وہیں حکومت کی ۔ گاندھی جی حالانکہ بہاری نہیں تھے لیکن ان کی تحریک آزادی  کی چمپارن میں سب سے پہلے پذیرائی ملی ۔ ایمرجنسی کے خلاف جئے پرکاش نارائن اٹھے تو ان کی آواز پر بھی سب سے پہلے بہاریوں  نے لبیک کہا ۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سےجارج فرنانڈیس کو ریکارڈ فرق سے کامیاب کیا۔ اڈوانی جی اپنی رام رتھ یاترا کو لے کر سارے ملک میں نفرت کی آگ پھیلاتے رہے لیکن بہار کے اندر ان کے رتھ کو روک دیا گیا ۔
مودی جی چونکہ ہوائی رہنما ہیں اس لئے زمین پر چلنے کے بجائے اڑن کھٹولہ میں بیٹھ کر بہار کی خاک چھانتے رہے لیکن بہار کی عوام نے ان کو بھی دھول چٹا دی ۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن بہاریوں نے گاندھی جی اور جارج فرنانڈیس کو باہری ہونے باوجود  اپنایا انہوں نے مودی جی اور امیت شاہ کو کیوں دھتکار دیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بہاری اپنی پرامن ریاست کو گجرات نہیں بنانا چاہتے ۔ مودی جی کیلئے اس شکست میں یہ پیغام ہے کہ اگر انہوں نے سارے ملک میں گجرات  کی آگ پھیلانے کی کوشش کی تو اس ملک کے عوام انہیں بہار کی مانند ملک بدر کردیں گے ۔  
اس انتخاب کا موازنہ مہاراشٹر سے کیا جانا چاہئے ۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی نے اپنے حلیف کی مدد سے قدم جمائے اور اس کے مخالفین ہم نظریہ ہونے کے کے باوجود دو دھڑوں میں تقسیم تھے۔ امیت شاہ نے مہاراشٹر میں یہ کیا کہ شرد پوار کو بلیک میل کرکے کانگریس کا مخالف بنا  دیا۔ اس کے بعد خود اپنے حلیف شیوسینا کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ اکثریت  حاصل کرنےمیں محرومی کے بعد سینا کے بجائے این سی پی کی مدد سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا اور سینا کو خوب رسوا کرنے کے بعد گلے لگالیا۔ بہار میں اس کے برعکس یہ ہوا کہ لالو اور نتیش ساتھ ہوگئے ۔ کانگریس بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی اور شاہ صاحب کی کاٹو اور پیٹو والی  حکمت عملی زمین بوس ہو گئی ۔ اس کے باوجود امیت شاہ نے اعلان کیا جس دن یہ عظیم اتحاد قائم ہوا اسی دن ہماری جیت ہوگئی حالانکہ وہ ان کی ہار کا دن تھا ۔    
بہار کے نتائج کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔  مودی جی کو پہلا بڑاجھٹکا  دہلی میں لگا  ۔ بہار میں ان کے لئے اپنے دامن سے وہ داغ مٹانےکا موقع تھا  ۔ اسے دھونے کیلئے امیت شاہ صاحب پوتر گئو موتر لے آئے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ داغ  صاف ہونے کے بجائے اور بھی پھیل گیا اور دامن کے ساتھ ازاربھی داغدار ہوگئی ۔ وزیراعظم اسے صاف کرنے کیلئے  نیچےجھکے تو بھاگوت جی نے ریزویشن کی مکھیاں لاکر چھوڑ دیں  اور ان میں سے ایک ناخلف مودی جی کی ناک پر جا بیٹھی۔ مودی جی نے آو دیکھا نہ تاو اپنی ناک کھجانے لگے۔ جس کے نتیجے میں ان کی ناک کالی ہوگئی ۔ جب اخبار نویسوں نے پوچھا کہ آپ کی ناک کو کیا ہوا تو  اپنا داغ کو چھپانے کیلئے انہوں نے  ہاتھ دھوئے بغیر منہ ڈھانپ لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ  منہ کالا ہو گیا  اور ناک غائب ہو گئی ۔  
اس انتخاب میں مودی جی  اور امیت شاہ کی طرح  ماہرین انتخابات جیسے پرنورائے اور  چانکیہ کی بھی ارتھی اٹھ گئی ۔ یہ حسن اتفاق ہے جو چانکیہ قومی انتخابات اور دہلی کے نتائج کے بعد اپنی مونچھوں کو تاو دینے سے نہیں  تھکتا تھا  ان کی  چٹیا اپنی ریاست  بہار میں کٹ کر ایسی اڑی کی نیپال پہنچ گئی ۔ نیپال کے اشتراکی حکمرانوں نے اسے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ اب یہ ہندو راشٹر نہیں ہے۔  پولنگ کے بعد  جو سات جائزے سامنے آئے ان میں  چار عظیم اتحاد کے حق میں تھے لیکن تین کا جھکاو متحدہ قومی محاذ کی جانب تھا ۔ مہاگٹھ بندھن کے حامیوں نے اسے بالکل سرحد پر رکھا  تھا اور معمولی فرق کے ساتھ جیت کا امکان ظاہر کیا تھا۔
 چانکیہ مہاراج  نےاونچی چھلانگ لگاتے ہوئےقومی محاذ کو ۱۵۵ نشستوں سے نوا زدیا  اور اتحاد کو سنچری سے بھی محروم کردیا ۔ اب صورتحال بالکل برعکس ہے اور چانکیہ جی شیرش آسن کرتے نظر آرہے ہیں جس میں سر نیچے اور پیر اوپر ہوتا ہے۔ہندوستان میں انتخابی جائزوں کے بھیشم پتامہ  سمجھے جانے والے پرنو رائے کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے ۷۶ ہزار لوگوں کی مدد سے ایک مہاجائزہ لیا اور مرتے پڑتے قومی جمہوری محاذپر اکثریت  نچھاور کردی  ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پردھان منتری اور ان کے پردھان سیوک نے دو راتیں سکون  کے ساتھ گزاریں لیکن اس کے بعد جب اتوار کی صبح میں جاگے تو انہیں دن میں تارے نظر آرہے تھے ۔
اتوار کے دن مودی جی کو ایک عرصے  بعد اپنے گرو اڈوانی جی کی یاد آئی جب  فیس بک نے بتایا کہ آج ان کی ۸۸ ویں سالگرہ ہے  ۔ پہلےتو انہوں نے مبارکباد کا پیغام بھیجا اور پھر بھی دل نہیں مانا تو اپنا غم غلط کرنے کی خاطر ان کے گھر پہنچ گئے۔ وزیراعظم بننے کے بعد شاید یہ پہلی بار ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے بہار کی ہار نے مودی  جی کے مغروردماغ کو تھوڑا بہت درست ضرور کیا ہے۔ مودی جی نے کہا کہ ایک کارکن کی حیثیت سے میں نے ذاتی طور پر اڈوانی جی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔  ہم جیسے کارکنان کے لئے وہ بہترین (نمونہ ) ہیں ۔ دراصل اڈوانی جی کو بی جے پی کیلئے سب سے زیادہ انتخابی مہمات چلانے کا اور ناکام ہونے کا وسیع تجربہ حاصل ہے اس لئے مودی جی کو ان سے اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کا فن بھی سیکھ لینا چاہئے۔ مودی بھکتوں نے اس ملاقات سے خوش ہو کر کہنا شروع کردیا کہ اس سالگرہ کا بہترین تحفہ بہار میں کامیابی ہے لیکن افسوس کہ اڈوانی جی اس بار بھی بدقسمت رہے۔  
وزیراعظم نریندر مودی نے بڑی کشادہ  قلبی   کا مظاہرہ  کرتے ہوئے فون پر نتیش کمار کو مبارکباد دی اورکہا کہ انہوں نے بہار کی ترقی کیلئے جو اقدامات کئے ہیں عوام کی جانب سےیہ اس کا اعتراف ہے۔  کاش کے مودی جی بھی پچھلے ۱۶ ماہ میں فرقہ پرستی پھیلانے کے بجائے وہی کرتے جو نتیش کمار نے کیا ۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو وہ مبارکباد دینے کے بجائے اسے وصول کررہے ہوتے ۔ آگے اگر مودی جی اس لین دین کی سمت بدلنا چاہتے ہیں تو انہیں صدر مملکت کے مخلصانہ مشورے پر عمل کرنا ہوگا ۔ پرنب  مکرجی نے اپنے ٹویٹ میں کہا وزیراعظم یا تو فل ٹائم (ہمہ وقتی ) وزیراعظم بن جائیں یا پرچار منتری کا عہدہ سنبھال لیں ۔  ہندوستان کی تاریخ میں کسی صدر کی جانب سے منتخبہ وزیراعظم کی یہ سب سے بڑی توہین ہے جس کا خمیازہ پرنب دا کو اپنی میقات کے خاتمہ پر ادا کرنا ہوگا ۔ اب یہ یقینی ہے کہ بہار میں نہ سہی صدارتی محل میں ضرور تبدیلی واقع ہوجائیگی۔  
مشیت کے فیصلوں کو سمجھنے میں اکثر انسانی عقل ناکام رہتی ہے ۔ اگر مودی جی گجرات ہی تک محدود رہتے تو انہیں دنیا میں اپنے کئے قرار واقعی سزا  کبھی نہیں ملتی ۔  ملک بھر میں بلکہ دنیا بھر میں  بار بار  رسوا ہونے  کیلئے ان کا وزیراعظم بننا لازمی تھا  ۔ اس لئے دہلی سے جس مبارک  سلسلے کا آغاز ہوا  ہے وہ بہار میں ایک قدم آگے بڑھا ہے ۔ بی جے پی چاہتی تھی کہ بہار سے زیادہ زیادہ امیدواروں کو کامیاب کرکے ایوان بالا میں اپنے ارکان کی تعداد میں اضافہ کرسکے تاکہ ایوانِ زیریں کی طرح وہاں بھی اکثریت حاصل ہوجائے اور حزب اختلاف کی رکاوٹوں سے نجات ملے لیکن اب الٹا راجیہ سبھا میں  بی جے پی ارکان کی تعداد کم ہو جائیگی۔ اس لئے کہ عظیم اتحاد کو دوتہائی اکثریت حاصل ہورہی ہے۔ ایک زمانے میں امیت شاہ صاحب کانگریس فری انڈیا کا نعرہ کا لگاتے پھرتے تھے لیکن اب ایسا وقت آیا ہے کہ بی جے پی کوئی فری میں بھی نہیں پوچھتا۔
مثل مشہور ہے ’’گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں‘‘ لیکن اب اس میں معمولی ترمیم کی ضرورت ہے  ’’گرتے ہیں  ، بار بار ، باربار ،شہ سوار میدان جنگ میں‘‘۔  بہار کی مہابھارت میں فسطائیوں نے اپنا سب سے بڑا برہماستر(ہتھیار)  بھی استعمال کرلیا۔ موہن بھاگوت نے یہاں تک کہہ دیاکہ کینیا کے قبائل گائے کا خون پیتے ہیں مگر اسے جان سے نہیں مارتے لیکن ان بھکتوں نے اپنے اقتدار کی خاطر گئو ماتا کا ودھ کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ گائے  سیاسی جانورنہیں ہے۔ وہ اپنے بھکتوں کو دودھ تو پلا سکتی ہے مگر  ووٹ نہیں دلا سکتی۔  پارلیمانی انتخاب کے بعداتر پردیش کے نتائج  کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک نامور صحافی نے  کہا تھا کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلم رائے دہندگان کی اہمیت صفر ہوگئی ہے ۔ اگر وہ تجزیہ درست تھا تو اب یہ کہنا چاہئے کہ بہار کے انتخابات کے بعد ہندو احیاء پرستوں کی قدروقیمت ختم ہوگئی ہے۔اس وقت مسلمانوں کی حالت زار پر ساغر صدیقی کے یہ اشعار صادق آتے تھے لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے ؎
یہ کیا قیامت ہے باغبانو کہ جن کی خاطر بہار آئی             وہی شگوفےکھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دلفگار بن کر مگر  یقیں  ہے  کہ لوٹ آئیں  گے نغمۂ نو    بہار بن   کر
 نتیش کمار کو اس کی کامیابی پرویسے تواروند کیجریوال سے لے کر عمر عبداللہ تک بہت سارے لوگوں نے مبارکباد کا پیغام دیا لیکن سب سے دلچسپ بیان ہندوتوا وادی شیوسینا کے سنجے راوت نے دیا ۔ انہوں نے کہا اس انتخاب میں نتیش ایک ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں ۔ یہ لازمی تھا کہ نتیش بہار میں پھر سے اقتدار میں آتے اس لئے وہ بہار کی عوام کو مبارکباد دیتے ہیں ۔  سنجے نے اس انتخاب میں زیرو ہوجانے والے وزیراعظم کے چٹکی لیتے ہوئے کہا جب انتخاب بڑے رہنماوں کے بل بوتے پر لڑا جاتا ہے تو انہیں اس کی ذمہ داری اپنے سر لینی چاہئے۔ یوپی اے کی ہار جس طرح سونیا گاندھی کی ہار تھی اسی طرح بی جے پی کی شکست کیلئے مودی جی کو ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔    
انتخابی نتائج پر بی جے پی رہنماوں کے بھی دلچسپ  تبصرے سامنے آئے ۔ مثلاً شاہ رخ خان پر تنقید کرکے مشہور ہونے والے کیلاش وجئے ورگیہ نے جوش میں آکرٹویٹ کردیا کہ بہار کا کریڈٹ مودی جی اور امیت شاہ کو جاتا ہے ۔ ان کو نہیں معلوم کہ انگریزی زبان میں قرض کیلئے بھی کریڈٹ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ بی جے پی کے جوکر گری راج سنگھ نے کہا میں ۲۰۰ فیصد کنپھرم ہوں کہ بہار میں این ڈی اے کی سرکار بنے گی ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ انہوں نے تاریخ نہیں بتائی اس لئے ممکن ہے دوچار سو سال کے بعد ان کا یہ سپنا ساکار ہوجائے۔  امیت شاہ کے درد کو ان کے ساتھیوں نے محسوس کیا اور دھرمیندر پردھان، جے پی نڈڈا، بھوپندر یادو اور جتیندر سنگھ نے ان سے بنفسِ نفیس ان کی عیادت کی۔ بی جے پی صدر کا انتخاب چونکہ صرف دوسال کیلئے ہوتا ہے اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ آئندہ سال امیت شاہ کو دوبارہ صدر بنانے کیلئے وزیراعظم کو آسمان سے تارے توڑ کر لانے ہوں گے۔
انتخابی نتائج کے دن صبح صبح اخبار نویس لالو یادو کے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے کہا’’ نریندر مودی کا سپڑا صاف ہوگیا، بی جے پی کوما میں ہے اور اس کے رہنما آئی سی یو میں ہیں ‘‘ ۔ جس وقت لالو جی یہ بیان دے رہے تھے انتخابی نتائج کی ابتدائی بڑھت آنے لگی تھی اور جلدبازمودی بھکت پٹاخے  چھوڑنے میں لگ گئے  تھےلیکن گھاگ سیاستدانوں نے انہوں روکنے سے گریز کیا اس لئے کہ وہ جانتے تھے ۔ اگر ان پٹاخوں کو ابھی نہیں پھوڑا گیا تو انہیں پاکستان بھیجنا پڑے گا اور اس کے حمل و نقل  کا خرچ  پٹاخوں سے زیادہ ہو جائے گا۔  اس سے تو بہتر ہے کہ پاکستانی دہشت گردوں کو ایکسپریس منی سے روپئے بھیج دئیے جائیں تاکہ وہ ان  سےپٹاخے بھی خرید سکیں اور اپنی پسندیدہ گرم گرم جلیبی بھی نوش فرما لیں ۔
اس موقع پر ایک  اور سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا۔ بی جے پی والوں  نے پٹاخوں کے ساتھ ۱۰۰ کلو مٹھائی کا آرڈر بھی دے دیا ۔  پٹاخے تو پہلے سے تیار تھے اس لئے فوراً پہنچ گئے اوران کے ساتھ گانے بجانے والے بھی آ گئے۔ بی جے پی کے اندر ناچنے والوں کی پہلے بھی کمی نہیں تھی مگر نئی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد اس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اس لئے شور شرابہ شروع ہوگیا ۔ ٹی وی چینل والے اپنے کیمروں کے ساتھ پہلے سے موجود تھے اس لئے  ناچ گانا نشر ہونے لگا اور انتخابی نتائج کے بجائےناظرین ٹھمکوں سے لطف اندوز ہونے لگے ۔
 مٹھائی  کامعاملہ مختلف تھا وہ چونکہ تیار نہیں تھی اس لئے حلوائی  رنکو سنہا اور اس کا نائب للو ّ یادواسے بنانے میں جٹ گئے ۔ اس دوران بازی پلٹ گئی۔ اس سے قبل کے رنکو کا اس میں شکر ڈالتاللوّبولا استاد  اس کی ضرورت نہیں ۔ اب آپ چاہے جتنا شکر ڈالیں مٹھائی ان کو میٹھی نہیں لگے گی ۔اس بیچ بی جے پی کے دفتر سے فون آگیا کہ آرڈر کینسل ۔ رنکو بولا صاحب مٹھائی تو بن گئی ۔ اب میں اس کا کیا کروں پیسے تو آپ کو دینے ہی ہوں گے، ہماری سرکار پھر آگئی ہے۔ سامنے سے آواز آئی ایسا کرو اسے ایم آئی ایم کے دفتر میں پہنچا دو ۔ وہ اپنے لوگ ہیں  مگر فی الحال  ہماری ہار پر خوشی منا رہے ہیں ۔ اس طرح  وہ پھیکی مٹھائی کسی  اور پتہ پہنچا دی گئی۔ اس خوشی کے موقع پر بھی ساغر صدیقی  کے یہ اشعار یاد آتے ہیں ؎
چلو کہ جشن  بہار   دیکھیں چلو   کہ   ظرف    بہار  جا نچیں             چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے
یہ تیر   بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ  سے گل  کھلے  ہیں       مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے
ان ( ترمیم شدہ)اشعار کے خالق نے تو’جشن بہار ‘ اور ظرف بہار‘ کے’ ب‘ پر زبر رکھا ہے لیکن آج جو بھی ان کو پڑھتا ہے تو وہ ’ب‘ کے نیچے زیر لگا دیتا ہے ۔بہار کے اس جشن سے امیت شاہ کی پیشن گوئی کے مطابق  پاکستان میں پھلجڑیاں نہیں پھوٹ رہی ہیں بلکہ  سرزمینِ ہند کی کلی کلی میں نکھا ر آگیا ہے ۔ چہار جانب چراغاں ہے چمن کا ایک ایک گوشہ روشنی سے نہا یا ہوا ہے ۔ اس لئے کہ کانگریس کے ہاتھ میں لالو کی قندیل ہے اور نتیش کمار کا  تیرکمل کا سینہ چاک کرکے آر  پار نکل گیاہے ۔ جس کے سبب خزاں رسیدہ فضائے ہستی میں پھر ایک بار بہار کا موسم لوٹ آیا ہےگویا ملک کی عوام نےپھر سے راج رتن دھن پالیا ہے۔
  

No comments:

Post a Comment