Saturday 28 November 2015

مجاہد و چودھری:کہ دستِ قدرت میں زندگی کی لکیر ہوں میں

برصغیر کی تاریخ میں ۲۲ نومبر؁۲۰۱۵  کا شمار سیاہ ترین  دنوں میں  ہوگا۔ اس روز پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ایک ظالم حکمراں نے محض اپنے اقتدار کو محفوظ و مامون رکھنے کی خاطر اور اپنے رائے دہندگان کی خوشنودی کیلئے حزب اختلاف کے دو معصوم رہنماؤں علی محمد احسن مجاہد اور صلاح الدین قدیر چوہدری کو دارالحکومت ڈھاکہ کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی ۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور بی این پی کے ان رہنما وں پر ؁۱۹۷۱ کی جنگ میں پاکستان کی حمایت کرنے کا الزام تھا۔ پاکستان کے معمر سیاسی چودھری نثار نے اس جبر استبدادپر اظہار خیال  کرتے ہوئے فرمایا ’’بنگلہ دیش میں پھانسیاں انسانیت کا قتل ہے۔انتقام کی آگ کو اب ٹھنڈا ہونا چاہئے‘‘۔
چودھری نثار جس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی دہائی دے رہے ہیں دراصل شیخ مجیب الرحمٰن ان شعلوں کو بہت پہلے بجھا کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ شیخ مجیب نے جولائی ؁۱۹۷۲میں ایک قانون وضع کیاجس کی رو سے بنگلہ دیش کی جدوجہد آزادی میں شریک نہ ہونے والےیا اس کی مخالفت کرنےوالےیا پاکستانی فوجیوں کی مدد گاروں کو مجرم قراردیا گیا۔ اس قانون کے تحت ایک لاکھ سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے ۳۷۴۳۱ افراد عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیئے گئے۔ صرف ۲۸۴۸ کیخلاف مقدمہ قائم ہوا اور ۹۵۲ کو سزا ہو ئی۔ ۲ نومبر؁۱۹۷۳ کو شیخ مجیب نےان تمام قصور واروں کو عام معافی دے کر رہا کر دیا۔  اس  طرح گویا انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اس باب کو بند کردیا۔  اس کے بعد ؁۱۹۹۶ عوامی لیگ کو حسینہ واجد  کی قیادت میں حکومت کرنے کا موقع ملا  لیکن اسے جنگ آزادی کے جنگی جرائم یاد نہیں آئے۔ ؁۲۰۰۱میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور ؁۲۰۰۴ تا ؁۲۰۰۹ تک جماعت اسلامی بھی اس حکومت میں شامل رہی۔
 افسوس کا پہلو یہ ہے کہ شیخ حسینہ واجد کو  جب  ؁۲۰۰۹ میں دوبارہ اقتدار ملا تو اس نے انتقام کے جذبے سے جماعت اسلامی اور  بی این پی کوظلم و جور کا نشانہ بنانا شروع کیا ۔ اول توجماعت کے۸۰۰ سے زائد افراد گرفتار کئے گئے۔ قائدین کی نقل و حرکت اوربیرون ملک سفر پر پابندی عائد کی گئی۔ فروری ؁۲۰۱۰ سے جلسہ جلوس پر پابندی لگا دی  گئی، اگر کہیں کوشش ہوتی تواسی مقام پر عوامی لیگ جلسہ کرنے کا اعلان کر دیتی اورپولیس نقص امن کے تحت جماعت کے ذمہ داران کو گرفتار  کرلیتی۔  اس کے بعد جماعت کا میڈیا ٹرائیل شروع  ہوا اور تحریک سے وابستہ افراد کو گھروں اور تعلیمی اداروں سے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا جانے لگا۔ دفاتر کو نذر آتش کئے گئے ۔سیکولرزم کا پر فریب لبادے کے اندر چھپا خوفناک، مکروہ اور جابرانہ چہرہ بنگلہ دیش میں وہ عیاں ہو گیا مگر انسانی حقوق کی اس پامالی کے خلاف کسی نے صدائے احتجاج نہیں بلند کی ؟  آزادیٴ اظہارِ رائے کی اس حق سلبی پر ساری دنیا کے سیکولر دانشور خاموش تماشائی بنے رہے  بلکہ درپردہ اس کی حمایت کرتے رہے۔
چودھری نثار نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے  کہا کہ  ’’پھانسیوں سے شدید صدمہ ہوا، بڑی تشویش ہے، ؁۱۹۷۱کے معاملات کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھیں تو ہم آہنگی اور خیرسگالی کو فروغ ملے گا۔ مفاہمت کی پالیسی اپنائی جائے۔ متعصب عدالتی کارروائی کیلئے عالمی برادری کا ردعمل دیکھ رہے ہیں۔ ہم تو پاکستانی اور بنگالی بھائی چارہ چاہتے ہیں۔ یکطرفہ ٹرائل پر عالمی برادری توجہ دے‘‘۔ چودھری نثار کی درد مندانہ اپیل  کا شیخ حسینہ واجد پر اثر کیسے ہو سکتا ہے جبکہ وہ  ازسرِ نونفرت کے شعلوں کو دے رہی ہیں ۔ حسینہ کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کی عوام  کو اس آگ اور خون  کاکیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور خود اسے  بروزِ قیامت اس کی کیا قیمت چکانی پڑے گی؟  چودھری صاحب نے اعتراف کیا کہ ’’… افسوس کہ ہم ان لوگوں کیلئے کچھ نہ کر سکے جنہوں نے ۴۵ سال پہلے پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھائی‘‘
پاکستان کے ساتھ وفاداری کےنام  پر سیکولر قوم پرست عوامی لیگ جوچا ہے بہتان تراشے  مگر  امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مولانا مطیع الرحمن نظامی (جو پانچ بار مسلسل قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں سابقہ وزیر اور ۲۵  کتب کے مصنف ہیں) کا اس بابت بے لاگ  موقف یہ ہے کہ” کہ ۱۶دسمبر ؁۱۹۷۱کے بعدسے پاکستان علیحدہ ملک ہے اور بنگلہ دیش علیحدہ۔ جب یہ پاکستان تھا تو ہم اس کے وفادار تھے، اب ہماری ساری وفاداریاں بنگلہ دیش کے ساتھ ہیں‘‘۔ کیا کسی فرد یا جماعت کو اپنے ملک سے وفاداری کی سزا دینا درست ہے ؟ پابند سلاسل حوصلہ مند مطیع الرحمن نظامی نے اربابِ اقتدار کو آگاہ کیا تھا کہ ”اگر ملک قوم کی بہی خواہ  جمہوریت نواز اور امن پسندمذہبی جماعتوں کا راستہ روکا گیا تو نتیجتاً ملک میں عسکریت پسندی جنم لے گی۔“
اپنے حالیہ دورِ اقتدار میں ڈیڑھ سال تک ظلم و جور کا سلسلہ دراز رکھنے کے باوجود حسینہ واجد کو لاحق خوف ختم نہیں ہوا بلکہ اقتدار کی ہوس میں اس نے ۲۹جون ؁۲۰۱۰ کو ۷۰ سالہ امیر جماعت مطیع الرحمن نظامی سمیت سیکریٹری جنرل مولانا دلاورحسین اور مولانا علی احسن مجاہد کوگرفتار کر وادیا۔ ۳۰ جون کوان کی ضمانت ہوگئی، مگر حکومت نے مزید ۵مقدمات میں انہیں دوبارہ گرفتار کرکےان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک شروع کردیا۔ ان مقدمات میں ایک نام نہاد بین الاقوامی تعزیزی عدالت کے اندر ؁۱۹۷۱ کے جنگی جرائم کا مقدمہ بھی شامل تھا ۔ یہ عدالت ابھی تک ۱۷ مقدمات کا فیصلہ سنا چکی ہے جس ۱۳ لوگوں کو سزائے موت دی گئی۔ ان معتوبین میں ۱۰ جماعت کے اہم رہنما ہیں جن میں سے ایک   مولاناعبدالقاد ملا کو؁۲۰۱۳ کے اواخر نیز قمرالزماں اور علی احسن مجاہد کو اس سال شہید کردیاگیالیکن اگر شیخ حسینہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے دس کے دس مجاہدین اسلام کو شہید کرکے بھی وہ  اسلام کا چراغ حریت بجھا دیں گی تو یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی  ہے۔آزادی کے یہ متوالے محض زبانی جمع خرچ پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے حریت فکر وعمل  کی شمع کو روشن رکھتے ہیں بقول شاعر ؎
دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے یا   تخت   جگہ آزادی  کی یا  تختہ  مقام  آزادی   کا
عوامی لیگ نے گزشتہ دو سالوں کے اندر اپنا حلقہ جبر وسیع کرتےہوئے اس بار جماعت کے علاوہ بی این پی کے بھی ایک رہنما کو تختۂ دار پر سربلند کردیا۔  صلاح الدین قدیر چودھری کا تعلق چٹا گانگ کے روزآنہ گاوں سے ہے۔ ان کے والد فضل  القادر چودھری بنگلہ دیش کے قیام سے قبل   نہ صرف پاکستانی قومی اسمبلی کے اسپیکر بلکہ کئی مرتبہ قائم مقام صدر بھی رہ چکے ہیں۔ چودھری کے خاندانی مراسم  نہ صرف خالدہ ضیاء بلکہ حسینہ واجد کے خاندان سے بھی ہیں۔ ان کا ایک عم زاد بھائی صابر حسین عوامی لیگ کا رکن پارلیمان ہے  اور دوسراسلمان رحمٰن ایک سرکاری کارپوریشن کا چئیر مین بھی ہے۔ وہ خود  ؁۱۹۹۷ میں وہ پہلی مرتبہ منتخب ہو کر ایوانِ پارلیمان میں پہنچے اور اس کے بعد لگاتار ۶ مرتبہ انہوں نے انتخابی کامیابی درج کرائی  ۔ خالدہ ضیاء کے دور ِ اقتدار میں وہ پارلیمانی امور کے مشیرِ خاص تھے۔ ان پر ٹاٹا گروپ کی ۳ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ڈالنے کا بھی الزام لگا ہے اور ان کی سزاکے پسِ پشت کارفرما عوامل میں اس کو بھی شمار کیا جاتا ہے ۔
بنگلہ دیش کاقیام نظریاتی طور پر لادین، ترقی پسندانہ، قوم پرست اصولوں پر کیا گیا۔ ؁۱۹۷۲ میں کےدستور میں مذہب کی بنیاد پر سیاست پر پابندی لگا دی گئی اور سیکولرازم کو بنیادی ضابطہ قرار دے کر تمام مذہبی جماعتوں کو ممنوع قراردے دیا گیا۔ اس کے باوجود شیخ مجیب الرحمن نے اعلانیہ کہاتھا کہ ”ان کو مسلمان ہونے پر فخر ہے اور ان کی قوم دنیا کی دوسری بڑی مسلم قوم ہے“۔عوامی لیگ نے مدارس کی امداد کے بجٹ کو، جو ؁۱۹۷۲ میں ۵ء۲ملین ٹکا تھا، ؁۱۹۷۳ تک ۲ء۷ ملین ٹکا کردیا۔ سرکاری میڈیا میں اسلام کے علاوہ ہندومت، بدھ مت اور عیسائیت کو بھی اپنا نقطہٴ نظر بتانے کا موقع دیا گیا، جو مذہبیت کے فروغ کا باعث بنا لیکن ان کی بیٹی نے شیخ مجیب الرحمٰن کی اس حکمت عملی کو تبدیل کرکے رکھ دیا ۔
گزشتہ دنوں میری ملاقات ایک بنگلہ دیشی مزدور سے ہوئی جو سڑک کے کنارےکھڑا کسی سواری کا انتظار کررہا تھا ۔ اس کو اپنی گاڑی میں بٹھانے کے بعد میں نے دریافت کیا تمہارے بنگلہ دیش میں فی الحال کیا چل رہا ہے؟ اس کم تعلیم یافتہ شخص نے دو جملوں میں  اس فرق کو واضح کرتے ہوئے حقیقت بیان کردی ۔ اس نے کہا حسینہ واجد چاہتی ہیں کہ لوگ صرف نماز روزہ اور تسبیح و تحلیل میں لگے رہیں ۔ اسلام کو عملی زندگی میں لانے کا خیال اپنے دل سے نکال دیں۔ اس لئے جو لوگ اسلامی نظام حیات  کی بات  کرتے ہیں وہ انہیں پھانسی پر لٹکا دیتی  ہے۔  یہ آسان سی بات جو اس مزدور کی سمجھ میں تو آگئی ان دانشوروں کی سمجھ میں نہیں آتی جو دن رات عدم رواداری کا رونا روتے رہتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے پروفیسر کالبرگی کو یاد کرتے ہیں ۔ ہندوستان کے صحافی دو حصوں میں تقسیم ہیں ۔ ایک تو سیکولر لوگ جواپنی اسلام دشمنی کے سبب اس طرح کے واقعات سے دل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں مگر اپنی منافقت کو چھپانے کی خاطر اس کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہیں  ۔ دوسرے ہندو احیاء پرست وہ اس لئے بھی خاموش ہیں کہ حسینہ واجد کی حکومت ان کی ہمنوا ہے۔ یہی وجہ ہے اس ظلم  عظیم کو ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے پوری طرح نظر انداز کردیا ۔
دو سال قبل جب علی احسن مجاہد نے عدالت میں یہ فیصلہ سنا تو انہوں نے کٹہرے میں کھڑے ہو کر جج سے  کہا جنگ آزادی کے دوران  میں فرید پور میں تھا ہی نہیں (تو اس قتل غارتگری میں کیسے ملوث ہوتا جس کا  جھوٹاالزام مجھ پر لگایا جارہا ہے)۔   میرا جرم تو صرف یہ ہے کہ میں نے اسلامی تحریک سے وابستہ ہوں  ۔  انہوں نے قرآن مجید کے سورۃ البروج کی آیت بھی تلاوت کی جس کا ترجمہ ہے: ’’اور اُن اہل ایمان سے اُن کی دشمنی اِس کے سوا کسی اور وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘‘۔ امیر جماعت اسلامی ہند نے اس پھانسی کوخونِ ناحق قراردیتے ہوئے انصاف کا قتل بتایا۔
تختہ دار کی جانب  خوشی خوشی رواں دواں  علی احسن  مجاہد نےکہا میں  اللہ کے دین کے لیے کئی بار جان قربان کرنے کو تیار ہوں۔ رب کائنات ایسے شہیدوں کا استقبال اس طرح  فرماتا ہے کہ ’’اے نفسِ مطمئن چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو مجھ سے راضی اور میں  تجھ سے راضی  ۔ شامل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہوجا جنت میں‘‘۔ امیر جماعت اسلامی  (پاکستان) سراج الحق نےاس واقعہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ ’’ان لوگوں نے امام حسینؓ کی یاد تازہ کر دی ہے۔‘‘ اسلام کے لیے موت کو گلے لگانے والے شیوۂ حسینیؓ پر عمل کرتے ہیں۔ یہ جذبۂ شہادت ہے۔ یہ لوگ شہید ہیں اور ان کے بابت حکم ربانی ہے کہ : جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں تم انہیں مردہ نہ کہو۔ وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ ظلم و جبر کے خلاف عدل وقسط کا چراغ جلانے والے علی محمد احسن مجاہد اور صلاح الدین  قدیر چوہدری جیسے آزادی کے متوالوں کوآنس معین تمام عالم پر محیط زندگی کی لکیر قرار دیتا ہے           ؎
زمیں توبس ایک نقشِ پا ہے
اور عالموں پہ محیط ہوں میں
کہ دستِ قدرت میں زندگی کی لکیر ہوں میں

(علی محمد احسن اور قدیر چوہدری  کے خلاف بے بنیاد الزامات کی تفصیل ان شا ء اللہ پھر کبھی)

Tuesday 17 November 2015

پیرس حملہ: منظر پس منزر

پیرس کی سڑکوں پر بہنے والا غیر متعلق اوربے قصوروں کا ناحق خون یقیناً عالم انسانیت کا قتل ہے ۔ یہ قرآن  کریم کی تعلیم ہے جسے اسلام کے خلاف استعمال کیا جاتاہے۔  پیرس اورممبئی حملوں میں زبردست مشابہت پائی جاتی ہے بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی فوٹو کاپی معلوم ہوتے ہیں۔ جس وقت ممبئی میں حملے ہوئے تھے داعش کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھی تو پھر یہ کیسے ہوگیا؟  کیا یہ ممکن ہے کہ داعش جیسے ترقی یافتہ دہشت گرد گروہ نے لشکر جیسے پسماندہ تنظیم کی نقل کی ہو ؟   اگر نہیں  تو ان دونوں کے درمیان مشترک کیا ہے؟ کہیں  مغرب کی وہ  طاقتیں  تونہیں جو اپنے مفادات کی خاطر کبھی جیش کے نام پر تو کبھی لشکر کے نام پر ، کبھی بوکوحرام کے نام پر تو کبھی داعش کے نام پر قتل و غارتگری کا بازار گرم رکھتی ہیں ۔ جنگ عظیم تک تو مغرب آمنے سامنے کی لڑائی لڑتا تھا لیکن اس کے بعد جو پس پردہ جنگ کی حکمت اختیار کی اس کا نام سرد جنگ رکھا گیا ۔ یہ براہِ راست ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بجائے کسی اور کی آڑ میں اپنا حساب کتاب چکانے کی حکمتِ عملی ہے۔
 ممبئی اور پیرس کے حملوں میں ایک دلچسپ مشابہت یہ بھی ہے کہ دونوں حملے امریکی انتخابی مہم کے اہم ترین مرحلے میں ہوئے تھے ۔ اوبامہ کی آمد سے قبل ممبئی حملہ ، اوبامہ کے دوبارہ منتخب  ہونے سے پہلے اسامہ کی موت کا ڈرامہ اور اوبامہ کے جانے سے قبل پیرس کا حملہ۔  یہ سب محض  اتفاق بھی ہوسکتا ہے مگر نہیں بھی۔  اس لئے کہ امریکی انتخاب میں دہشت گردی کے خوف سے زیادہ کچھ اور نہیں بکتا۔ بدقسمتی  سےوہ تفتیشی ادارے جن کا کام حقائق کو بے نقاب کرنا ہے وہ ایسے حکمرانوں کے آلۂ کاربنے ہو ئے ہیں جو انہیں حقائق  کی پردہ پوشی پر مجبور کرتے  ہیں۔ اس لئے وہ سچائی کبھی بھی بے نقاب نہیں ہوتی جو ان  حکمرانوں کے اپنے یا ان کے آقاوں کے خلاف ہو ۔ ذرائع ابلاغ کا کام بھی مسخ شدہ سرکاری موقف کو نشر  کرنا ہوکر رہ گیا ہے اس لئے اکثر و بیشتر حقیقتِ حال پر پردہ پڑا رہتا ہے۔
کوئی بعید نہیں کہ ممبئی  کی طرح  آگے چل کر پیرس حملے کے پسِ پردہ بھی کوئی رچرڈ کولمن ہیڈلی جیسا پراسرار ماسٹر مائنڈ نکل آئے جو امریکہ سے نمودار ہوکر وہیں جاچھپاہو۔ کیا یہ  بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ ہندوستان کا بہترین  حلیف ہوتے ہوئے بھی اور دہشت گردی کی جنگ دونوں ممالک کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے باوجود امریکہ نےاس اہم ترین مہرے کو تفتیش کی خاطر ہندوستان کے حوالے کرنا تو درکنار ہندوستان کی پولس سے ملنے  بھی نہیں دیا۔ حقیقت تو یہ ہے اجمل قصاب کے مقابلے رچرڈ ہیڈلی نے ممبئی کے حملوں میں بہت بڑا کردارا دا کیا ہے۔ وہ  ہندوستان کے اندر آکر عملاً سر گرم عمل رہا ہے پھر بھی حافظ سعید کی واپسی کا مطالبہ تو ہوتا ہے مگر رچرڈ ہیڈلی کا نام کوئی نہیں لیتا ۔ ہوسکتا ہے پیرس حملے کا تعلق بھی کسی ہیمنت کرکرے جیسےایماندار افسر  اور اس کے ساتھیوں کو راستے سے ہٹا کر فرانس میں جاری فسطائی دہشت گردی کی پردہ پوشی ہو۔
ہندوتوا وادی قوتوں کی مانند یوروپ بھر میں جرمنی کی پیگیڈیا اور برطانیہ کی انڈپینڈنٹ پارٹی جیسی میں انتہا پسند قوم پرست تنظیمیں سر گرم عمل ہیں۔ ان کے اپنے سیاسی عزائم ہیں۔ وہ بنیادی طور پر سارے غیر ملکیوں کے خلاف ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ ایسا ہے کہ وہ اپنے ہم وطن  مسلمان باشندے کو بھی اپنی قوم کا حصہ نہیں سمجھتے ۔ ایک جائزے کے مطابق قومی محاذ نامی فرانسیسی انتہا پسند جماعت کی رہنما لی  میرین  لی پین کی مقبولیت فی الحال دیگر تمام سیاسی رہنماوں سے زیادہ ہوگئی اور وہ آئندہ صدارتی انتخاب بھی جیت سکتی  ہیں ۔ ؁۱۹۱۱ میں یہ محاذ تیسرے نمبر پرتھا مگر ؁۲۰۱۴ میں پہلے نمبر پر آگیا ہے۔  ایسے میں ان کا دہشت گردی میں ملوث ہونا  بعید از قیاس نہیں ہے۔ ان سے زیادہ اپنے آپ کو دیش بھکت ثابت کرنے کیلئے سرکوزی جیسے درمیانہ درجے کے انتہا پسند بھی  اس سے حملےفائدہ اٹھانے کی کوشش کر  سکتے ہیں ۔ اتفاق سے فرانس کی اور ہندوستان کی  فسطائی محاذ کا نام یکساں ہے اور چارلی ہیبڈو حملے کے بعد  پیرس کے دھماکوں نے اس کے وارے نیارے کردئیے ہیں ۔
عالمی حالات پر اگر نظر ڈالیں تو یقیناًداعش تنازع  کے مرکز میں ہے۔شام کے اندر فی الحال  فرانس کے علاوہ امریکہ اور روس بھی بری طرح ملوث ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ داعش  کی مغرب کے  پروردہ دہشت گردتنظیم ہے ۔ ناٹو نے افغانستان  اور عراق میں اپنی شکست کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اب اپنی باقائدہ فوج ان علاقوں میں نہیں بھیجے گا، اس لئے کہ ایسا کرنے سے مقامی عوام  ان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں ۔ اس لئے کرائے کے فوجیوں کو اسلامی نام دے کر اور مقامی لوگوں کا نجات دہندہ بنا کر میدان میں اتار ا گیا۔ عوام چونکہ حکومت کے مظالم سے پریشان تھے اس لئے انہوں اس مصیبت کو اپنے  لئےرحمت سمجھا اور اس کا استقبال کیا۔  اس تجربے کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ ان  دہشت گردوں کے مظالم کی ذمہ داری مغرب  پر نہیں آتی تھی  بلکہ اس کا الزام  اسلام پسندوں کے سرمنڈھ دیا جاتا۔ یہ تجربہ بہت  جلد ناکام اس لئے ہوگیا کہ ان جرائم پیشہ لوگوں نے اسلام کے نام پر ایسی ایسی سفاکی کا مظاہرہ شروع کردیا جسکا تصور بھی  اسلام جیسے دین رحمت میں محال تھا ۔ ان احمقوں نے اپنی  حرکات سے خود اپنے آپ کو بے نقاب کردیا۔
داعش کو روانہ کرنے کا اصل مقصد  بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانا تھا لیکن مغرب میں ناکام رہا اس لئے کہ داعش کے خلاف روس اور ایران کو بشار کی حمایت کا موقع مل گیا ۔ داعش کو بھگانے کی آڑ میں روس نے بشار کے خلاف لڑنے والے مجاہدین آزادی کا قلع قمع شروع کردیا ۔ اس طرح گویا داعش کے مجرمین نے  اپنے علاوہ  دیگرمتحارب گروہوں کا  بھی بھلا کیا اور اس کے سبب بشار کے ظالمانہ اقتدارکو نئی زندگی مل گئی ۔ داعش کے ذریعہ جو واحد کامیابی مغرب کو حاصل ہوئی ہے وہ کردستان کے لوگوں کو اسلحہ فراہم کرنا اورا نہیں فوجی تربیت دینے کا موقع ہے۔ کرد قوم سے وابستہ لوگ عراق ، شام اور ترکی میں آباد ہیں ۔ اب انہیں ایک علٰحیدہ ملک بنانا اور وہاں بیٹھ کر اس پورے خطے میں بدامنی پھیلانے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں ۔ کرد سنجر نامی اہم شہر داعش  کے قبضےسے آزاد کراچکے ہیں  اور بہت ممکن ہے کہ یہ آندھی جس تیزی سے آئی تھی اسی سرعت سے غائب ہوجائے۔
شام کی خانہ جنگی کو چار سال سے زیادہ ہوچکے ہیں ۔ اس دوران کئی لاکھ شامی مہاجرین ترکی ،اردن اور دیگر پڑوسی ممالک کے پناہ گزین کیمپوں میں ہجرت کیلئے مجبور ہوئے ۔ ان لوگوں نے کبھی یوروپ کا رخ نہیں کیا ۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب داعش کی ضرورت و افادیت ختم ہوگئی اور روس کے علاوہ امریکہ اور فرانس نے بھی اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو اچانک پناہ گزینوں نے یوروپ کا رخ کرنا شروع کردیا ؟ ممکن ہے کہ جو لوگ یوروپ سے مغرب کی نجی فوج میں داعش کا بھیس بدل کر آئے تھے وہ واپس جارہے ہوں  اور ان لوگوں نے مظلوم شامیوں کو بھی ورغلا کر اپنے ساتھ کرلیا ہو۔ بلاشک شبہ داعش کے دن بھر چکے ہیں اور ان بدمعاشوں کیلئے مسلم دنیا میں کوئی جگہ نہیں اس لئے ان  جرائم پیشہ افراد وکا لوٹ کر جانا  فطری  عمل ہے۔  مغرب کو ہے کہ واپس آنے کے بعد اگر کوئی طاقت ان پیشہ ور فوجیوں کی خدمات حاصل کرکے ایک نیا دستہ تشکیل دے اور اسے ان کے خلاف کھڑاکردے تو کیا ہوگا؟ پناہ گزینوں کے حوالے سے فرانس کا موقف جرمنی سے متضاد ہے ۔ وہ  شام میں بمباری تو کرنا چاہتا ہے مگر اس کے نتیجے میں بھاگنے والےپناہ گزینوں  کی ذمہ داری قبول کرنا نہیں چاہتا۔  اس  حملےسے قبل شامی پناہ گزینوں  کی آمدپر پابندی لگانا  مشکل تھا مگر اب سہل ہوگیا ہے۔
پیرس حملے کو اپنے گوں ناگوں مفاد کےپیش ِ نظر ساری دنیا صرف داعش کےزاویہ  سے دیکھ  رہی ہے لیکن روسی طیارے کی تباہی سے بھی اسے جوڑا کر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ داعش مغرب کی پروردہ ہے اور اگر اس نے روس کا طیارہ تباہ کیا تو روس والے مغرب کے  اس حملےکو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتے۔ روس نے یہ بات تو تسلیم نہیں کی اس کا جہاز دہشت گردی کا شکار ہوا ہے ۔ اس لئے کہ ایسا کرنے سےاس  کی داعش کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ جو لوگ والدیمیر پوتن اور روسی حکمرانوں کے مزاج سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ انتقام کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے فرانس کا شمار بشار الاسد کے سب سے بڑے دشمنوں میں ہوتا ہے  اور اگر اس  حملےمیں شامی باشندے ملوث ہیں تو ان کا تعلق داعش کے علاوہ بشارالاسد سے بھی ہوسکتا ہے۔
اسرائیل کے مظالم میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اور یوروپی رائے عامہ اس کے خلاف ہونے لگتی ہے تب بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ چارلی ہیبڈو کے سانحہ کو بھنانے کی جو کوشش  نیتن یاہو نے کی تھی وہ سب کے سامنے ہے۔ فی الحال اسرائیلی عدالتیں فلسطینیوں کےگھروں کو منہدم کرکے یہودیوں کیلئے مکانات بنانے کی اجازت دے رہی ہے۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف  غزہ کے بعد مغربی کنارے میں بھی انتفاضہ کا آغاز ہوچکا ہے۔ اسرائیل کا جبر اپنے حدود سے گزر رہا ہے اور اس کے خلاف یوروپ کے انسانیت نواز حلقوں  میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ نتن یاہو کی برطانیہ میں آمد کے موقع پر  گرفتاری کی عرضداشت پر دس لاکھ لوگوں نے دستخط کئے جن میں بڑی تعداد غیرمسلمین کی ہے۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کے تعلق سے جس طرح رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے اس سے امریکہ اور اسرائیل پریشان ہیں ۔ اس لئے موساد بھی اس طرح کے حملوں سے مسلمانوں اور فلسطینیوں کے خلاف نفرت کا زہر پھیلا سکتی ہے۔
ان امکانات کا اظہار نفس مسئلہ کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئےنہیں کیا جارہا ہے بلکہ حکومتوں کی جانب سے جعلی دھماکے کرواکر اپنے مفادات حاصل کرنے کے واقعات سے تاریخ  بھری پڑی ہے۔ اس معاملےمیں بلاتفریق مشرق و مغرب سب ملوث ہیں  اتفاق سے مسلمانوں کا حصہ بہت کم ہے اور جو ہے وہ سب بھی پرویز مشرف یا السیسی جیسے سیکولر اورنام نہاد  روشن خیال مسلمان ہیں  :
· ؁۱۹۳۱ میں جاپانیوں ریلوے پٹری پر دھماکہ کیا اور اس کا الزام چینیوں کے سرمنڈھ کرمنچوریہ میں دھاوا بول دیا ۔
· نازی میجر نے یہ تسلیم کیا گسٹاپو کے حکم کی تعمیل میں اپنے ہی لوگوں پر حملہ کرکے اس کا الزام پولینڈ پر لگایاگیا تاکہ  چڑھائی کی جاسکے۔
· نازی جنرل فرانز نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ؁۱۹۳۳ جرمن ایوان پارلیمان کو فوج نے آگ لگا کر اس کیلئے اشتراکیوں کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔
· خروشچیف نے یہ تسلیم کیا ؁۱۹۳۹ میں سرخ فوج نے روس کے مینیلہ گاوں پر بمباری کرکے اس کا الزام فن لینڈ پر لگا دیا۔
· گورباچیف اور پوتن  نے اسٹالن پر الزام لگایا کہ ؁۱۹۴۰ میں ۲۲۰۰۰ پولینڈ کے لوگوں کو ہلاک کرکے اس کا الزام نازیوں پر لگا یا گیا ۔
· برطانوی حکومت نے ؁۱۹۴۶ سے ؁۱۹۴۸ کے درمیان ہٹلر کے خوف  سے بھاگنے والے ۵ یہودی جہازوں کو تباہ کرکے عرب فلسطینیوں کی محافظ نامی   خودساختہ تنظیم  کو  اس کیلئے موردِ  الزام ٹھہرایا  ۔
· اسرائیل نے ؁۱۹۵۴ میں مصر کی مختلف عمارتوں بشمول امریکی قونصل خانہ میں بم نصب کرکے عربوں کو ملزم قراردیا گیا۔
· سی آئی اے  نے ؁۱۹۵۰ میں ایران کے منتخبہ صدر کے خلاف ایرانیوں سے بم دھماکے کراکے الزام اشتراکیوں پر لگایا ۔
· اٹلی کے سابق وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ؁۱۹۵۰  پنٹا گون اور ناٹو نے اٹلی اور یوروپ کے دیگر شہروں میں بمباری کرکے اس کا الزام اشتراکیوں پر رکھا ۔
· برطانوی وزیراعظم کے مطابق ؁۱۹۵۷ میں امریکی صدر نےتختہ پلٹنے کی خاطر شام پر حملہ کروا کر اس کا الزام شامی حکومت پر رکھ دیا۔
· ؁۱۹۶۴ کے اندر شمالی ویتنام کے ٹونکن کھاڑی سے متعلق ایک جھوٹ گھڑ کے ویتنام پر حملے کا جواز پیداکیا گیا۔
· ؁۱۹۷۰ میں ترکیوں نے سائپرس کی ایک مسجد کو آگ لگا کر اس کا الزام مقامی باشندوں پر لگادیا۔
· ؁۱۹۷۸ میں جرمنی نے خود ایک جیل کی دیوار کو بم سے اڑا دیا اور اندر قیدسرخ  فوج پر بم دھماکے  کا الزام لگا دیا
· ؁۱۹۸۴ نے موسادنے معمر قذافی کے گھر میں ریڈیو ٹرانسمیٹر نصب کرکے جعلی پیغامات نشر کئے جس کی بنیاد پررونالڈ ریگن نے بمباری کی۔
· ؁۱۹۹۰ میں الجیریائی فوج نے عوام کا قتل عام کرکے اس کا الزام اسلام پسندوں پر لگا دیا
· ؁۱۹۸۸ میں انڈونیشیا کے اندر ہونے والے فسادات میں فوج کے ملوث ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
· ؁۱۹۹۹ میں کے جی بی ایک رہائشی عمارت کو بم سے اڑا کراس کااالزام شیشان کے مجاہدین پر لگایا اور جنگ چھیڑ دی۔
· ۱۱ ستمبر کا بہانہ بنا کر افغانستان اور عراق میں جو گھناؤنا کھیل کھیلا گیا وہ  کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔
· ؁۲۰۱۱ میں مصر کے سرکاری ملازمین نے میوزیم کو لوٹ کر اس کا الزام مظاہرین پر لگادیا۔
· ؁۲۰۱۳صدر محمد مورسی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے  بربریت کا مظاہرہ اور الٹااخوانیوں پر الزام تراشی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے
اس طرح کی مذموم حرکات کا احاطہ کرنے کیلئے یہ مضمون ناکافی ہے۔ پیرس کے حملے کا ایک غیر متوقع  فائدہ تو یہ ہوا کہ مسلمانوں کو اپنے اوپر ہونے والے مغرب کے مظالم یاد آگئے ۔ مسلمانوں نے اور ان کے ہمدرد غیر مسلمین نے مغربی ذرائع ابلاغ کے امتیازی سلوک  کو اچھالنا شروع کردیا ۔ اس شور شرابے کے پس پشت وہ خوش فہمی کارفرما ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ   آزاد اورانصاف پسند ہےحالانکہ وہ نہ صرف حکمرانوں بلکہ سرمایہ داروں کے تلوے چاٹنے والے لوگ ہیں اس لئے ان سے یہ توقع رکھنا ہی فضول ہے کہ وہ مسلمانوں کے اوپر ہونے والے مظالم کو بھی یکساں اہمیت دیں گے ۔ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے نہ سہی لیکن اپنی عوام پر ہونے ظلم کے حق میں تو کم از کم ہمدردی پیدا کی ۔ جو کچھ انہوں نے اپنے لوگوں کیلئے کیا ویسا  کرنے سے ہمیں  کس نے روکا تھا  اگر فرانس کے حملوں پر مغرب بھی ویسی ہی سرد مہری کا مظاہرہ کرتا جیسا کہ ہم اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر کرتے ہیں تو کیا ہمیں عراق ، لبنان، فلسطین اور شام یاد آتے؟
اس طرح کی صورتحال میں امت کوچاہئے کہ وہ حکومت اور عوام کے اندر فرق کرے۔ ہم دیگر اقوام سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حکمرانوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں کیلئے تمام امت کو موردِالزام نہ ٹھہرائیں  یہی توقع دوسری اقوام کے لوگ بھی ہم سے کرسکتے ہیں۔ حکومتوں کے ناعاقبت اندیش فیصلوں کی قیمت بے قصور عوام چکاتے ہیں ۔ ان لوگوں کو مارنے والے ہمارے نمائندے نہیں ہیں اس لئے ہمیں مدافعت میں آکر اپنی صفائی ہر گز نہیں پیش کرنی چاہئے لیکن ان سے ہمدردی کے اظہار میں بخالت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔  عام لوگوں کو نہ تو ان کی حکومت کی سفاکی کی سزادینا مناسب ہے اور ان کے ذرائع ابلاغ کے امتیازی سلوک کیلئے ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے کہ اس لئے کہ ان دونوں  پر عام لوگوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ خاموشی اختیار کرسنےمیں کوئی بھی حرج نہیں  ۔ پیرس دھماکوں میں مغرب کی جنگ کے مغرب کی جانب لوٹنے کے آثارنمایاں ہیں۔        

Sunday 8 November 2015

چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جا نچیں

بہار انقلابوں کی سرزمین ہے ۔  ہندو تہذیب کاسقراط یعنی چانکیہ  کا تعلق اسی ریاست سے تھا ۔  سناتن دھرم کا سب سے بڑا باغی اور مصلح گوتم بدھ نے بھی اسی دھرتی پر جنم لیا ۔ چندرگپت موریہ اورسمراٹ اشوک جیسے بادشاہوں نے وہیں حکومت کی ۔ گاندھی جی حالانکہ بہاری نہیں تھے لیکن ان کی تحریک آزادی  کی چمپارن میں سب سے پہلے پذیرائی ملی ۔ ایمرجنسی کے خلاف جئے پرکاش نارائن اٹھے تو ان کی آواز پر بھی سب سے پہلے بہاریوں  نے لبیک کہا ۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سےجارج فرنانڈیس کو ریکارڈ فرق سے کامیاب کیا۔ اڈوانی جی اپنی رام رتھ یاترا کو لے کر سارے ملک میں نفرت کی آگ پھیلاتے رہے لیکن بہار کے اندر ان کے رتھ کو روک دیا گیا ۔
مودی جی چونکہ ہوائی رہنما ہیں اس لئے زمین پر چلنے کے بجائے اڑن کھٹولہ میں بیٹھ کر بہار کی خاک چھانتے رہے لیکن بہار کی عوام نے ان کو بھی دھول چٹا دی ۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن بہاریوں نے گاندھی جی اور جارج فرنانڈیس کو باہری ہونے باوجود  اپنایا انہوں نے مودی جی اور امیت شاہ کو کیوں دھتکار دیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بہاری اپنی پرامن ریاست کو گجرات نہیں بنانا چاہتے ۔ مودی جی کیلئے اس شکست میں یہ پیغام ہے کہ اگر انہوں نے سارے ملک میں گجرات  کی آگ پھیلانے کی کوشش کی تو اس ملک کے عوام انہیں بہار کی مانند ملک بدر کردیں گے ۔  
اس انتخاب کا موازنہ مہاراشٹر سے کیا جانا چاہئے ۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی نے اپنے حلیف کی مدد سے قدم جمائے اور اس کے مخالفین ہم نظریہ ہونے کے کے باوجود دو دھڑوں میں تقسیم تھے۔ امیت شاہ نے مہاراشٹر میں یہ کیا کہ شرد پوار کو بلیک میل کرکے کانگریس کا مخالف بنا  دیا۔ اس کے بعد خود اپنے حلیف شیوسینا کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ اکثریت  حاصل کرنےمیں محرومی کے بعد سینا کے بجائے این سی پی کی مدد سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا اور سینا کو خوب رسوا کرنے کے بعد گلے لگالیا۔ بہار میں اس کے برعکس یہ ہوا کہ لالو اور نتیش ساتھ ہوگئے ۔ کانگریس بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی اور شاہ صاحب کی کاٹو اور پیٹو والی  حکمت عملی زمین بوس ہو گئی ۔ اس کے باوجود امیت شاہ نے اعلان کیا جس دن یہ عظیم اتحاد قائم ہوا اسی دن ہماری جیت ہوگئی حالانکہ وہ ان کی ہار کا دن تھا ۔    
بہار کے نتائج کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔  مودی جی کو پہلا بڑاجھٹکا  دہلی میں لگا  ۔ بہار میں ان کے لئے اپنے دامن سے وہ داغ مٹانےکا موقع تھا  ۔ اسے دھونے کیلئے امیت شاہ صاحب پوتر گئو موتر لے آئے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ داغ  صاف ہونے کے بجائے اور بھی پھیل گیا اور دامن کے ساتھ ازاربھی داغدار ہوگئی ۔ وزیراعظم اسے صاف کرنے کیلئے  نیچےجھکے تو بھاگوت جی نے ریزویشن کی مکھیاں لاکر چھوڑ دیں  اور ان میں سے ایک ناخلف مودی جی کی ناک پر جا بیٹھی۔ مودی جی نے آو دیکھا نہ تاو اپنی ناک کھجانے لگے۔ جس کے نتیجے میں ان کی ناک کالی ہوگئی ۔ جب اخبار نویسوں نے پوچھا کہ آپ کی ناک کو کیا ہوا تو  اپنا داغ کو چھپانے کیلئے انہوں نے  ہاتھ دھوئے بغیر منہ ڈھانپ لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ  منہ کالا ہو گیا  اور ناک غائب ہو گئی ۔  
اس انتخاب میں مودی جی  اور امیت شاہ کی طرح  ماہرین انتخابات جیسے پرنورائے اور  چانکیہ کی بھی ارتھی اٹھ گئی ۔ یہ حسن اتفاق ہے جو چانکیہ قومی انتخابات اور دہلی کے نتائج کے بعد اپنی مونچھوں کو تاو دینے سے نہیں  تھکتا تھا  ان کی  چٹیا اپنی ریاست  بہار میں کٹ کر ایسی اڑی کی نیپال پہنچ گئی ۔ نیپال کے اشتراکی حکمرانوں نے اسے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ اب یہ ہندو راشٹر نہیں ہے۔  پولنگ کے بعد  جو سات جائزے سامنے آئے ان میں  چار عظیم اتحاد کے حق میں تھے لیکن تین کا جھکاو متحدہ قومی محاذ کی جانب تھا ۔ مہاگٹھ بندھن کے حامیوں نے اسے بالکل سرحد پر رکھا  تھا اور معمولی فرق کے ساتھ جیت کا امکان ظاہر کیا تھا۔
 چانکیہ مہاراج  نےاونچی چھلانگ لگاتے ہوئےقومی محاذ کو ۱۵۵ نشستوں سے نوا زدیا  اور اتحاد کو سنچری سے بھی محروم کردیا ۔ اب صورتحال بالکل برعکس ہے اور چانکیہ جی شیرش آسن کرتے نظر آرہے ہیں جس میں سر نیچے اور پیر اوپر ہوتا ہے۔ہندوستان میں انتخابی جائزوں کے بھیشم پتامہ  سمجھے جانے والے پرنو رائے کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے ۷۶ ہزار لوگوں کی مدد سے ایک مہاجائزہ لیا اور مرتے پڑتے قومی جمہوری محاذپر اکثریت  نچھاور کردی  ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پردھان منتری اور ان کے پردھان سیوک نے دو راتیں سکون  کے ساتھ گزاریں لیکن اس کے بعد جب اتوار کی صبح میں جاگے تو انہیں دن میں تارے نظر آرہے تھے ۔
اتوار کے دن مودی جی کو ایک عرصے  بعد اپنے گرو اڈوانی جی کی یاد آئی جب  فیس بک نے بتایا کہ آج ان کی ۸۸ ویں سالگرہ ہے  ۔ پہلےتو انہوں نے مبارکباد کا پیغام بھیجا اور پھر بھی دل نہیں مانا تو اپنا غم غلط کرنے کی خاطر ان کے گھر پہنچ گئے۔ وزیراعظم بننے کے بعد شاید یہ پہلی بار ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے بہار کی ہار نے مودی  جی کے مغروردماغ کو تھوڑا بہت درست ضرور کیا ہے۔ مودی جی نے کہا کہ ایک کارکن کی حیثیت سے میں نے ذاتی طور پر اڈوانی جی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔  ہم جیسے کارکنان کے لئے وہ بہترین (نمونہ ) ہیں ۔ دراصل اڈوانی جی کو بی جے پی کیلئے سب سے زیادہ انتخابی مہمات چلانے کا اور ناکام ہونے کا وسیع تجربہ حاصل ہے اس لئے مودی جی کو ان سے اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کا فن بھی سیکھ لینا چاہئے۔ مودی بھکتوں نے اس ملاقات سے خوش ہو کر کہنا شروع کردیا کہ اس سالگرہ کا بہترین تحفہ بہار میں کامیابی ہے لیکن افسوس کہ اڈوانی جی اس بار بھی بدقسمت رہے۔  
وزیراعظم نریندر مودی نے بڑی کشادہ  قلبی   کا مظاہرہ  کرتے ہوئے فون پر نتیش کمار کو مبارکباد دی اورکہا کہ انہوں نے بہار کی ترقی کیلئے جو اقدامات کئے ہیں عوام کی جانب سےیہ اس کا اعتراف ہے۔  کاش کے مودی جی بھی پچھلے ۱۶ ماہ میں فرقہ پرستی پھیلانے کے بجائے وہی کرتے جو نتیش کمار نے کیا ۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو وہ مبارکباد دینے کے بجائے اسے وصول کررہے ہوتے ۔ آگے اگر مودی جی اس لین دین کی سمت بدلنا چاہتے ہیں تو انہیں صدر مملکت کے مخلصانہ مشورے پر عمل کرنا ہوگا ۔ پرنب  مکرجی نے اپنے ٹویٹ میں کہا وزیراعظم یا تو فل ٹائم (ہمہ وقتی ) وزیراعظم بن جائیں یا پرچار منتری کا عہدہ سنبھال لیں ۔  ہندوستان کی تاریخ میں کسی صدر کی جانب سے منتخبہ وزیراعظم کی یہ سب سے بڑی توہین ہے جس کا خمیازہ پرنب دا کو اپنی میقات کے خاتمہ پر ادا کرنا ہوگا ۔ اب یہ یقینی ہے کہ بہار میں نہ سہی صدارتی محل میں ضرور تبدیلی واقع ہوجائیگی۔  
مشیت کے فیصلوں کو سمجھنے میں اکثر انسانی عقل ناکام رہتی ہے ۔ اگر مودی جی گجرات ہی تک محدود رہتے تو انہیں دنیا میں اپنے کئے قرار واقعی سزا  کبھی نہیں ملتی ۔  ملک بھر میں بلکہ دنیا بھر میں  بار بار  رسوا ہونے  کیلئے ان کا وزیراعظم بننا لازمی تھا  ۔ اس لئے دہلی سے جس مبارک  سلسلے کا آغاز ہوا  ہے وہ بہار میں ایک قدم آگے بڑھا ہے ۔ بی جے پی چاہتی تھی کہ بہار سے زیادہ زیادہ امیدواروں کو کامیاب کرکے ایوان بالا میں اپنے ارکان کی تعداد میں اضافہ کرسکے تاکہ ایوانِ زیریں کی طرح وہاں بھی اکثریت حاصل ہوجائے اور حزب اختلاف کی رکاوٹوں سے نجات ملے لیکن اب الٹا راجیہ سبھا میں  بی جے پی ارکان کی تعداد کم ہو جائیگی۔ اس لئے کہ عظیم اتحاد کو دوتہائی اکثریت حاصل ہورہی ہے۔ ایک زمانے میں امیت شاہ صاحب کانگریس فری انڈیا کا نعرہ کا لگاتے پھرتے تھے لیکن اب ایسا وقت آیا ہے کہ بی جے پی کوئی فری میں بھی نہیں پوچھتا۔
مثل مشہور ہے ’’گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں‘‘ لیکن اب اس میں معمولی ترمیم کی ضرورت ہے  ’’گرتے ہیں  ، بار بار ، باربار ،شہ سوار میدان جنگ میں‘‘۔  بہار کی مہابھارت میں فسطائیوں نے اپنا سب سے بڑا برہماستر(ہتھیار)  بھی استعمال کرلیا۔ موہن بھاگوت نے یہاں تک کہہ دیاکہ کینیا کے قبائل گائے کا خون پیتے ہیں مگر اسے جان سے نہیں مارتے لیکن ان بھکتوں نے اپنے اقتدار کی خاطر گئو ماتا کا ودھ کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ گائے  سیاسی جانورنہیں ہے۔ وہ اپنے بھکتوں کو دودھ تو پلا سکتی ہے مگر  ووٹ نہیں دلا سکتی۔  پارلیمانی انتخاب کے بعداتر پردیش کے نتائج  کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک نامور صحافی نے  کہا تھا کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلم رائے دہندگان کی اہمیت صفر ہوگئی ہے ۔ اگر وہ تجزیہ درست تھا تو اب یہ کہنا چاہئے کہ بہار کے انتخابات کے بعد ہندو احیاء پرستوں کی قدروقیمت ختم ہوگئی ہے۔اس وقت مسلمانوں کی حالت زار پر ساغر صدیقی کے یہ اشعار صادق آتے تھے لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے ؎
یہ کیا قیامت ہے باغبانو کہ جن کی خاطر بہار آئی             وہی شگوفےکھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دلفگار بن کر مگر  یقیں  ہے  کہ لوٹ آئیں  گے نغمۂ نو    بہار بن   کر
 نتیش کمار کو اس کی کامیابی پرویسے تواروند کیجریوال سے لے کر عمر عبداللہ تک بہت سارے لوگوں نے مبارکباد کا پیغام دیا لیکن سب سے دلچسپ بیان ہندوتوا وادی شیوسینا کے سنجے راوت نے دیا ۔ انہوں نے کہا اس انتخاب میں نتیش ایک ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں ۔ یہ لازمی تھا کہ نتیش بہار میں پھر سے اقتدار میں آتے اس لئے وہ بہار کی عوام کو مبارکباد دیتے ہیں ۔  سنجے نے اس انتخاب میں زیرو ہوجانے والے وزیراعظم کے چٹکی لیتے ہوئے کہا جب انتخاب بڑے رہنماوں کے بل بوتے پر لڑا جاتا ہے تو انہیں اس کی ذمہ داری اپنے سر لینی چاہئے۔ یوپی اے کی ہار جس طرح سونیا گاندھی کی ہار تھی اسی طرح بی جے پی کی شکست کیلئے مودی جی کو ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔    
انتخابی نتائج پر بی جے پی رہنماوں کے بھی دلچسپ  تبصرے سامنے آئے ۔ مثلاً شاہ رخ خان پر تنقید کرکے مشہور ہونے والے کیلاش وجئے ورگیہ نے جوش میں آکرٹویٹ کردیا کہ بہار کا کریڈٹ مودی جی اور امیت شاہ کو جاتا ہے ۔ ان کو نہیں معلوم کہ انگریزی زبان میں قرض کیلئے بھی کریڈٹ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ بی جے پی کے جوکر گری راج سنگھ نے کہا میں ۲۰۰ فیصد کنپھرم ہوں کہ بہار میں این ڈی اے کی سرکار بنے گی ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ انہوں نے تاریخ نہیں بتائی اس لئے ممکن ہے دوچار سو سال کے بعد ان کا یہ سپنا ساکار ہوجائے۔  امیت شاہ کے درد کو ان کے ساتھیوں نے محسوس کیا اور دھرمیندر پردھان، جے پی نڈڈا، بھوپندر یادو اور جتیندر سنگھ نے ان سے بنفسِ نفیس ان کی عیادت کی۔ بی جے پی صدر کا انتخاب چونکہ صرف دوسال کیلئے ہوتا ہے اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ آئندہ سال امیت شاہ کو دوبارہ صدر بنانے کیلئے وزیراعظم کو آسمان سے تارے توڑ کر لانے ہوں گے۔
انتخابی نتائج کے دن صبح صبح اخبار نویس لالو یادو کے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے کہا’’ نریندر مودی کا سپڑا صاف ہوگیا، بی جے پی کوما میں ہے اور اس کے رہنما آئی سی یو میں ہیں ‘‘ ۔ جس وقت لالو جی یہ بیان دے رہے تھے انتخابی نتائج کی ابتدائی بڑھت آنے لگی تھی اور جلدبازمودی بھکت پٹاخے  چھوڑنے میں لگ گئے  تھےلیکن گھاگ سیاستدانوں نے انہوں روکنے سے گریز کیا اس لئے کہ وہ جانتے تھے ۔ اگر ان پٹاخوں کو ابھی نہیں پھوڑا گیا تو انہیں پاکستان بھیجنا پڑے گا اور اس کے حمل و نقل  کا خرچ  پٹاخوں سے زیادہ ہو جائے گا۔  اس سے تو بہتر ہے کہ پاکستانی دہشت گردوں کو ایکسپریس منی سے روپئے بھیج دئیے جائیں تاکہ وہ ان  سےپٹاخے بھی خرید سکیں اور اپنی پسندیدہ گرم گرم جلیبی بھی نوش فرما لیں ۔
اس موقع پر ایک  اور سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا۔ بی جے پی والوں  نے پٹاخوں کے ساتھ ۱۰۰ کلو مٹھائی کا آرڈر بھی دے دیا ۔  پٹاخے تو پہلے سے تیار تھے اس لئے فوراً پہنچ گئے اوران کے ساتھ گانے بجانے والے بھی آ گئے۔ بی جے پی کے اندر ناچنے والوں کی پہلے بھی کمی نہیں تھی مگر نئی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد اس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اس لئے شور شرابہ شروع ہوگیا ۔ ٹی وی چینل والے اپنے کیمروں کے ساتھ پہلے سے موجود تھے اس لئے  ناچ گانا نشر ہونے لگا اور انتخابی نتائج کے بجائےناظرین ٹھمکوں سے لطف اندوز ہونے لگے ۔
 مٹھائی  کامعاملہ مختلف تھا وہ چونکہ تیار نہیں تھی اس لئے حلوائی  رنکو سنہا اور اس کا نائب للو ّ یادواسے بنانے میں جٹ گئے ۔ اس دوران بازی پلٹ گئی۔ اس سے قبل کے رنکو کا اس میں شکر ڈالتاللوّبولا استاد  اس کی ضرورت نہیں ۔ اب آپ چاہے جتنا شکر ڈالیں مٹھائی ان کو میٹھی نہیں لگے گی ۔اس بیچ بی جے پی کے دفتر سے فون آگیا کہ آرڈر کینسل ۔ رنکو بولا صاحب مٹھائی تو بن گئی ۔ اب میں اس کا کیا کروں پیسے تو آپ کو دینے ہی ہوں گے، ہماری سرکار پھر آگئی ہے۔ سامنے سے آواز آئی ایسا کرو اسے ایم آئی ایم کے دفتر میں پہنچا دو ۔ وہ اپنے لوگ ہیں  مگر فی الحال  ہماری ہار پر خوشی منا رہے ہیں ۔ اس طرح  وہ پھیکی مٹھائی کسی  اور پتہ پہنچا دی گئی۔ اس خوشی کے موقع پر بھی ساغر صدیقی  کے یہ اشعار یاد آتے ہیں ؎
چلو کہ جشن  بہار   دیکھیں چلو   کہ   ظرف    بہار  جا نچیں             چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے
یہ تیر   بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ  سے گل  کھلے  ہیں       مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے
ان ( ترمیم شدہ)اشعار کے خالق نے تو’جشن بہار ‘ اور ظرف بہار‘ کے’ ب‘ پر زبر رکھا ہے لیکن آج جو بھی ان کو پڑھتا ہے تو وہ ’ب‘ کے نیچے زیر لگا دیتا ہے ۔بہار کے اس جشن سے امیت شاہ کی پیشن گوئی کے مطابق  پاکستان میں پھلجڑیاں نہیں پھوٹ رہی ہیں بلکہ  سرزمینِ ہند کی کلی کلی میں نکھا ر آگیا ہے ۔ چہار جانب چراغاں ہے چمن کا ایک ایک گوشہ روشنی سے نہا یا ہوا ہے ۔ اس لئے کہ کانگریس کے ہاتھ میں لالو کی قندیل ہے اور نتیش کمار کا  تیرکمل کا سینہ چاک کرکے آر  پار نکل گیاہے ۔ جس کے سبب خزاں رسیدہ فضائے ہستی میں پھر ایک بار بہار کا موسم لوٹ آیا ہےگویا ملک کی عوام نےپھر سے راج رتن دھن پالیا ہے۔