Saturday 22 July 2017

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : امید کی ایک کرن

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : امید کی ایک کرن
ڈاکٹر سلیم خان
  ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب نریندر مودی سے اونچی آواز اروند کیجریوال کی ہوا کرتی تھی لیکن  دہلی کے بلدیاتی انتخاب کے بعد انہیں سانپ سونگھ گیا ہے یا اگر وہ کچھ بولتے بھی ہیں تو ذرائع ابلاغ کو اسے شائع نہیں کرتا۔ بغض مودی میں مسلمانوں نے  اروندکیجریوال کی پرزور حمایت کی لیکن کمار وشواس کا وشواس پراپت کرنے کی خاطر انہوں نے امانت اللہ کو برخواست کرکے امانت میں خیانت کی۔  ایسا لگتا ہے کہ کیجریوال کو بالآخر اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں نے ایکایک ایسا کارنامہ انجام دے دیا جس کے لیے مسلمانانِ دہلی ان کے ممنون ہوں گے۔ دہلی کی صوبائی حکومت نے معروف قائدو دانشورڈاکٹر ظفر الاسلام خان کادہلی اقلیتی کمیشن کے  چیئر مین کی حیثیت  سے تقرر کردیا ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ وطن عزیز کے اندر اقلیتیں شدید ترین آزمائش سے دوچارہیں ڈاکٹر ظفرالاسلام جیسے نڈرو بیباک شخص کا اس اہم عہدے پر فائز ہوجانا ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔  ان شاء اللہ یہ ید بیضاء  ملت کے اندر پھیلنے والی مایوسی کی تاریکی کو دور کرے گا اور عصائے موسیٰ کی مانند عصر حاضر کے بہت سارے سانپ نما رسیوں کو نگل جائیگا ۔ مجلس مشاورت کی  مختلف ذمہ داریوں پر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان بڑی جرأتمندی کے ساتھ ملت کے مسائل کو حل کرنے کی قابل قدر سعی  کرچکے ہیں  نیز  کشمیر جیسے نازک مسئلے پر بھی  بغیر کسی دباو کے  ملی گزٹ  میں مسلسل ۱۷ سالوں تک کمال حق گوئی کا مظاہرہ  کیا  ۔  امید ہے کہ اب وہ کام زیادہ مؤثر انداز میں ہوگا۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام  خان  کی ملی سرگرمیوں سے تو لوگ واقف ہیں لیکن ان کے علم و تجربہ سے عوام کی واقفیت کم ہے  اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کا تفصیلی تعارف سامنے آئے۔ ان کے تعلیمی سفر کی ابتداء جنوب کے شہر عمرآباد میں واقع جامعہ دارالسلام سے ہوئی وہاں ایک سال فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اعظم گڈھ کے مدرسۃ الاصلاح میں داخل ہوئے اورتین سال کے بعد ندوۃ العلماء میں پہنچ گئے ۔  اس طرح ملک کے تین مختلف النوع مدارس سے ہوتے ہوئے آپ نے لکھنو یونیورسٹی  سے عالمیت کے امتحان میں پہلا مقام حاصل کیا۔  اس کے بعد مصر کے جامعۃ الازہر اورامریکن یونیورسٹی قاہرہ کی اسکالر شپ کے امتحان میں کامیابی حاصل کی  اور الازہر میں  کلیۃ اصول الدین میں سات سال تعلیم حاصل کی ۔ جامعہ ازہر سے فراغت  کے بعد آپ نے قاہرہ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ایم اے کیا اورقاہرہ ریڈیو میں بحیثیت اردو اناؤنسر کام کیا ۔ اس دوران انہوں نے مصر کےمشاہیر علماء اور دانشوروں سے استفادہ کیانیز لیبیا میں ۶ سال  تک مترجم و ایڈیٹرکی ذمہ داریاں بھی اداکیں ۔
  علم و فضل کی تڑپ  ڈاکٹرصاحب کو لیبیا سےبرطانیہ لے گئی جہاں مانچسٹر یونیورسٹی میں انہوں نے پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا۔ انگلستان میں اچھی ملازمت اور تعلیمی سلسلے کے باوجود  اپنے وطن میں مسلمانوں کے مسائل ان  کو ہندوستان کھینچ  لائے۔  ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے اس  مختصر تعارف کی ضرورت  اس لیے پیش آئی کہ وہ ایک نہایت منکسرالمزاج انسان ہیں ۔  ان کو کسی نے اپنی تعریف و توصیف کرتے کراتے نہیں دیکھا۔ نوجوان نسل کیلئے ڈاکٹر اسلام کی زندگی کے نشیب و فراز کا علم اس لیے ضروری ہےتا کہ انہیں پتہ چلے ایک مفکر و مدبر کا شخصی ارتقاء کس طرح ہوتا ہے ؟   اس نئے عہدے پر فائز ہونے  کے بعد بردباری کے ساتھ آپ نے فرمایا ’’یہ بڑی ذمہ داری ہے  وہاں پڑی فائلوں کوبغیر دیکھے ابھی کوئی دعوٰی کرنا قبل ازوقت ہوگا ۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھاوں‘‘۔  ڈاکٹر ظفرالاسلام  خان کا تقرر ویسے تو دہلی اقلیتی کمیشن کے صدر کی حیثیت سے ہوا ہےلیکن  قوی امید ہے کہ  دیگر صوبوں اور قومی کمیشن   کے سربراہان سے ان کا ربط ضبط  اس  دور پرفتن میں تمام اقلیتوں کے لیے خیروبرکت کا باعث ہو گا ۔ ہماری  دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو  ۔