Thursday 16 March 2017

عادت سے مجبور

عادت سے مجبور
ڈاکٹر سلیم خان
کسی شہر میں ایک امیت  نام کاگرہ کٹ رہتا تھا ۔ اس کے ماموں کی بڑی  دوکان  اور چھوٹی بیٹی تھی ۔  اچانک ماموں کا انتقال ہوگیا ۔ رشتے داروں نے بیٹی کی شادی  امیت سے کردی تاکہ کاروبار اور بیٹی دونوں کو سنبھالا مل   جائے ۔ اس طرح  بن بلائےایک پاکٹ مارکے اچھے دن آگئے    وہ گرہ کٹ سے  دوکاندار بن گیا۔ ایک دن  امیت کےصحافی  دوست ارنب نے دیکھا کہ لوگ ریلوے پلیٹ فارم پر اسے گالیاں بک رہے ہیں۔اس پر تھوک رہے ہیں  اور وہ بڑی بے حیائی سے مسکرا رہا ہے۔ ارنب نے پوچھا اس بیچارے کوکیوں برا بھلا کہہ رہےہو؟ لوگوں نے جواب دیا ۔ یہ پاکٹ مار ہے اس نے ٹرین میں ابھی ابھی ان  دوبھائیوں کی جیب پر ہاتھ صاف کی ہے۔ ارنب نے دیکھا جن کی جیب کٹی ہے وہ کافی مسکین لوگ ہیں ۔
ارنب بولا ارے بھائی یہ تو اب بازار کی سب سے بڑی دوکان کا مالک ہے۔ اس کے پاس بہت مال و دولت ہے یہ بھلا ایسی اوچھی حرکت کیوں کرسکتا ہے؟ مجمع بھڑک گیا اس نے کہا تم اس کی وکالت نہ کرو۔ یہ رنگے ہاتھ پکڑا گیا ہے۔ ارنب نے کسی طرح  سمجھا بجھا کر معاملہ رفع دفع کیا  اور اپنے دوست سے پوچھا یار اب تومیری طرح تو  بھی خوشحال ہوچکا ہے۔ یہ  پرانا دھندہ چھوڑ کیوں نہیں دیتا؟ گرہ کٹ بولا کیا کروں یار عادت سے مجبور ہوں ۔ جب بھی کسی کی جیب میں نوٹ محسوس کرتا ہوں میرے ہاتھ میں کھجلی ہونے لگتی ہے۔ ارنب بولا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب تیری حیثیت بدل گئی  میں نے کس قدر محنت و مشقت کرکے تیری شبیہ سدھاری ہے۔ لوگ  تیرا شمار شرفاء میں کرنے لگے ہیں ۔اپنی عزت کا نہ سہی ، میری  محنت کا  تو کچھ خیال کیا کر؟
امیت نے جواب دیا یار تو بھی عجیب آدمی ہے ۔ ایک بار محنت کرتا ہے اور اس کا معاوضہ وصول کرلینے کے بعد پھر اضافی مطالبہ کرتا ہے     ۔ ہمارا حساب بے باک ہوچکا ہے ۔ارنب نے تائید کی جی ہاں میں جانتا ہوں لیکن یہ بتا کہ تیرے پاس اس قدر دھن دولت پہلے ہی سے موجود ہے پھر تو نے یہ ذلیل حرکت کیوں کی؟ پاکٹ مار بولا تو کون سا فقیر ہے ؟ تیرے پاس بھی تو کوئی کمی نہیں ہے اس کے باوجود تو نے میری پردہ پوشی  کیوں کی ؟ ارنب خود اپنے دام میں پھنس چکا تھا ۔ وہ بات بنانے کیلئے ہنس کر بولا یار میں کیا کروں یہ میرا پیشہ ہے میں صحافی  جو ہوں ۔ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہوں ؟ تو نےشہنواز زیدی کا  وہ شعر  نہیں سنا  کہ ؎
ہر ایک چیز اگر تیرے اختیار میں ہے تو میں نے ہونے دیا ، جو ہوا میں کیا کرتا
امیت یہ سن کر خوش ہوگیا اور بولا یا ر ایک بات بولوں میں شاعروں کو بے وقوف سمجھتا تھا لیکن یہ شہنواز زیدی تو بڑا سمجھدار لگتا ہے ۔ کیا تو مجھ کو اس سے ملاسکتا ہے؟ ارنب نے سوال کیا ،   کیوں تو اس سے مل کر کیا کرے گا؟ ارے بھائی کبھی کبھار شعر شاعری سے دل بہلا لیا کروں گا۔ میں گرہ کٹ ہوں تو کیا ہوا؟ آخر میں بھی تو ایک انسان ہوں ۔ ارنب کیلئے یہ عجیب انکشاف تھا کیونکہ وہ گرہ کٹ کو شاعر تو کجاانسان بھی نہیں سمجھتا تھا۔ اچھا  مجھے تیری شاعری کی دلچسپی  کا پتہ نہیں تھا؟۰۰ ابھی تجھے پتہ ہی کیا ہے ۔ یہ شعر سننے کے بعد مجھے وہ  شعر یاد آگیا ؎
کروں گا کیا جو سیاست میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
ارنب نے چونک کر پوچھا  یار تیری تجارت میں یہ سیاست کہاں سے آگئی ؟ گرہ کٹ ہنس کر بولا تو نے پکڑا تو سہی مگر غلط پکڑا ۔احمق شعراء  آج بھی تجارت یا سیاست چھوڑ کر محبت کے پھیرے میں پڑے رہتے ہیں حالانکہ  اس کلیگ میں صحافت کی طرح سیاست بھی ایک تجارت ہے ۔گرہ کٹ کی منطق پر ارنب کے چودہ طبق رو شن ہوگئے ۔ وہ بولاکیا مطلب ؟کیاآج کل  گرہ کٹ اور سیاستداں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔امیت بولا فرق  توہے مگراتنا   کہ ایک  تو کبھی کبھارپکڑا  بھی جاتا ہے مگر دوسرے پر الزام تک نہیں آتا ۔ کیوں جانتے ہو ؟   ۰۰۰۰ نہیں جانتا۰۰۰۰۰۰ تو سنو  بقول قاصر ؎
چرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے اور اس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا

Thursday 2 March 2017

دوہزار کا نوٹ

دوہزار کا نوٹ
ڈاکٹر سلیم خان
ظہر کی نماز کے بعدامام صاحب نے اعلان کیا سیڑھی  پر ایک دوہزار کا نوٹ ملا ہے جن صاحب کا ہو نشانی بتا کر لے جائے۔ مؤذن  صاحب چونک پڑے انہوں نے امام صاحب کے کان میں کہا مولانا سارے نوٹ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔اس پر نشانی کہاں سے لائی جائے؟ امام صاحب سمجھ گئے بانگی صاحب کی نیت خراب ہورہی ہے۔ انہوں پھر اعلان کیا جس کسی کا ہوبغیر نشانی بتائے لے جائے۔ سنت و نوافل کے بعد امام صاحب تسبیح و تحلیل میں مصروف تھے کہ دو لوگ ان کے پاس پہنچ گئے۔ امام صاحب نے پوچھا کیا بات ہے ۔ دونوں ایک ساتھ  بولے وہ دو۰۰۰۰۰۰۰۰۔
لیکن وہ ایک ایک ہزار کی دو نہیں بلکہ دوہزار کی ایک نوٹ ہے اور آپ دو لوگ ؟؟؟؟
ان میں سے ایک حاجی بغلول نے کہا آپ اسے شیخ   اسماعیل کو دے دیجئے۔ ۰۰۰۰۰۰۰کیوں؟ اسے کیوں دے دوں ؟
اب آپ قسم کھانے کیلئے کہیں گے ۔ یہ بے دھڑک جھوٹی قسم کھا جائےگا۔ میں نہیں چاہتا کہ دوہزار کیلئے ایک مسلمان بھائی جہنم میں جائے  ۔
امام صاحب  نےحاجی بغلول  کو نوٹ تھما  دیا ۔ بغلول چلے گئے لیکن اسماعیل وہیں کھڑا رہا۔امام صاحب نے پوچھا تو کیوں کھڑا ہے؟
صاحب وہ نوٹ میرا تھا ۔ داود خان سے میں  ادھار لے کر مسجد میں آیا تو مجھ سے گر گیا آپ داود خان سے تصدیق کرکے میری تلاشی  لے لیں۔
تو نے کہا کیوں نہیں؟  گونگا بہرہ بن کر کھڑا رہا ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰کہتا کیسے آپ نے موقع ہی نہیں دیا۔ اسماعیل کی بات درست تھی۔
اچھا تو  داود کو بلالا۰۰۰۰۰۰۰صاحب آپ اس سے فون پر پوچھ لیں ۔ یہ کہہ کر اسماعیل نے فون لگا دیا۔جیسے ہی امام صاحب نے  فون پر اسماعیل  کا نام لیا داود بولا  وہ آپ کے پاس بھی قرض لینے تو نہیں پہنچ گیا ؟ میں نے  ابھی کچھ دیر قبل اس کو دوہزارکا نوٹ دیا ہے۔
اسماعیل اپنی ساری جیبیں الٹ چکا تھا ۔ ان میں ایک پھوٹی کوڑی  بھی نہیں تھی۔  امام صاحب بولے اب میں کیا کرسکتا ہوں ۔ دھوکہ ہوگیا معافی چاہتا ہوں۔
عصر کی نماز میں حاجی بغلول  خوددوہزار کا نوٹ لے کر آئے اور امام صاحب کو پکڑا دیا۔
 امام صاحب نے وہ نوٹ شیخ اسماعیل کو دے دیا اور حاجی صاحب سے کہا صرف دوہزار کیلئے آپ نے۰۰۰۰۰۰۰۰
حاجی بغلول بولے وہ نوٹ میرا ہی تھا مگر اسماعیل نے مجھے دھمکی دی کہ اس کے پاس  دو گواہ ہیں ایک داود  خاں اور دوسرے امام صاحب۰۰۰۰۰ تو۰۰۰۰؟
 میں ڈر گیا   برسوں کی کمائی عزت کیلئے دو ہزار قربان کردئیے۔ امام صاحب بولے یہ تو خطرناک لوگ ہیں انہوں نے آپ کے ساتھ مجھے بھی دھوکہ دیا۔
مغرب میں امام صاحب نے حدیث سنائی :   میں بھی ایک انسان ہوں۔ اس لیے جب میرے یہاں کوئی جھگڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ  ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ وہ سچا ہے۔ اور اس طرح میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں، لیکن اگر میں اس کو کسی مسلمان کا حق دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا اس کو دلا رہا ہوں، وہ لے لے یا چھوڑ دے۔ حدیث کو سن کر شیخ اسماعیل آگے آیا اور بولا میری آنکھ کھل گئی  اور دوہزار کا نوٹ لوٹا دیا۔
امام صاحب نے حاجی بغلول کو نوٹ دیا تو وہ بولے یہ بڑے مکار لوگ ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ پھر  کسی  سازش میں پھنسا  نہ دیں۰۰۰۰۰ اس لئے میں نہیں لیتا۔
امام صاحب نے پوچھا مگر میں اس کا کیا کروں؟۰۰۰۰۰۰۰۰جو مرضی کریں   خود رکھ لیں۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰میں کیسے رکھ سکتا ہوں؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اگر کوئی نہ آتا تو کیا کرتے؟  ۰۰۰۰۰۰۰اس رات امام صاحب سو نہیں سکے ۔ کبھی شیخ اسماعیل کبھی  نوٹ تو کبھی حاجی بغلول رات بھر انہیں ستاتے رہے۔
 صبح تک امام صاحب نے اپنے آپ کو سمجھا لیا ۔ وہ بازار گئے تو کسی کے پاس دوہزار کا خودرہ نہیں تھا ۔ ایک دوکان والے نے مشورہ دیا بنک چلے جائیں وہاں کھل جائیگا اس کے بعد جو چاہیں خریدیں۔  امام صاحب بنک میں پہنچے۔ کاونٹر کلرک نے نوٹ کی  جانچ  پڑتال کے بعد  منیجر صاحب کے پاس بھیج دیا۔
منیجر نے پوچھا یہ نوٹ کہاں سے ملی ؟ امام صاحب سمجھ گئے کوئی گڑ بڑ ہے۔ وہ  بولے کیوں؟۰۰۰۰۰۰۰اس لئے کہ نقلی ہے اور ہمیں ہدایت ہے کہ ہر نقلی  نوٹ لانے والے کو پکڑا دیا جائے۰۰۰۰کیوں؟ ۰۰۰۰اس لئے کہ وہ آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہے  ۔ پاکستان  جعلی نوٹ چھاپ   رہا۔امام صاحب کا منہ لٹک گیا۔
 اسی وقت فون کی گھنٹی بجی ۔ حاجی بغلول نے سوال کیوں !   امام صاحب جیل پہنچے یا نہیں ؟ ۰۰۰۰۰منیجر نےامام صاحب سے پوچھااس کو کیسے پتہ چلا؟۰۰۰۰۰۰
امام صاحب  نےپوری کہانی سنا دی۔ منیجر بولا آپ گھر جائیے میں تینوں کو جیل بھجواتا ہوں ۔ ان پر پوٹا لگے گا اور حاجی بغلول کودو گواہوں کے ساتھ بلوابھیجا۔