Thursday 15 December 2016

ہاتھی کے دانت

ڈاکٹر سلیم خان
نندو چائے والااپنی ماں نندی بین کے ساتھ ڈاکٹر شرما کے دواخانے میں پہنچا تو انتظار گاہ حسب توقع خالی مگر اندر کا کمرہ بند تھا ۔ نندو نے سوچا اسی کی طرح کوئی اور بھی اپنی بوڑھی ماں یا باپ کو لےکر آیا ہوگا ۔ اس لئے کہ بزرگ والدین کیلئے شرما سے سستا ڈاکٹر گاوں میں نہیں تھا ۔ تقریباً نصف گھنٹے بعد دروازہ کھلا اور تین چار لوگ باہر نکلے ۔ نندو نے ڈاکٹر سےبگڑ کر پوچھا آپ نے اتنا وقت ان پر صرف کیا جبکہ ان میں  کوئی مریض  بھی نہیں لگتا  ۔  شرما نے ہنس کر کہا یہ جن سیواسنستھان (جے ایس ایس ) کے بے لوث خدائی خدمتگار ہیں ۔ نندو نے حیرت سےپوچھا کیا یہ چندہ لینے کیلئے آئے تھے ؟
 جی نہیں یہ لوگ میرے تعاون سے  ایک فری میڈیکل کیمپ لگانا چاہتے ہیں   لیکن میں نے صاف  کہہ دیا کہ  میں یہاں مکھی مارتا رہتا ہوں اس کا مطلب یہ  نہیں کہ مفت میں تمہارے  کیمپ میں پہنچ جاوں گا بغیر چینی کے چائے میٹھی نہیں ہوتی۔ڈاکٹر شرما نے نندو کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا وہ بولا کیا یہ لوگ قرض وغیرہ بھی دیتے ہیں ؟ شرما نے پوچھا تمہاری دوکان تو خوب چلتی ہے تمہیں قرض کی کیا ضرورت ؟
ڈاکٹر صاحب آج کل چینی کا بھاو آسمان پر ہے ۔ دوکان چلانا مشکل ہوگیا ہے ۔ بنیا نے ادھار چکانے کیلئے ایک ہفتہ کا وقت دیا ہے ورنہ  شکر کی فراہمی بند کردے گا اور اسی کے ساتھ میری بھی دوکان   بند ہوجائیگی۔ شرما بولے شکر مہنگی ہوگئی تو چائے کا دام بڑھا دو۔نندو نے کہا میرے گاہک غریب مزدور ہیں ان کی قوت خرید اس کی متحمل نہیں ہے۔ توپھر تم یہ  قرض کیسے  واپس کروگے ؟ نندو پھر فکر مند ہوگیا اور بول اگر دوکان بند ہوگئی تو میں بھوکا مرجاوں گا۔  شرما  مسکرایا اور نندوکے قریب ہوکرکھسر پھسر کرنے لگا۔ جب یہ سلسلہ طویل ہوگیا تو نندو کی ماں نے بیزاری سے پوچھا بیٹے تو مجھے یہاں کیوں لایا تھا؟  شرما نے شرمندگی سے بیماری دریافت کی  اور ایک نسخہ بنا کر نندو کو پکڑا دیا ۔ نندو نے  جیب کی جانب ہاتھ بڑھایا تو شرما بولا چھوڑو یار اب تو ہم لوگ پارٹنر ہیں ۔ دوروز بعد نندو کی دوکان کے بغل میں گیتانجلی میڈیکل اسٹور کھل چکا تھا ۔
اتوار کے دن  فری میڈیکل کیمپ میں لوگوں کا اژدہام تھا ۔ شرما جی نے آدھے سے زیادہ لوگوں  کوبلاوجہ  ذیابطیس کا مریض قرار دے کر   شکر سے سخت پرہیز کرنے کی تلقین کردی۔   اب نندو کی دوکان میں آنے والا ہر دوسرا مریض بغیر شکر کی چائے طلب کرنے لگا ۔ نندو کا خسارہ غائب ہوچکا تھا لیکن شرما جی ابھی اپنے فائدے کے منتظر تھے۔ چائے کے عادی گاہک  پھیکی اوربے مزہ چائے سے مطمئن نہیں ہوپاتے تھے۔ ان کے اندر پہلے جیسی پھرتی نہیں آتی  تھی۔گاہک  جب نندو سے اس کی شکایت کرتے وہ انہیں شرما کے دواخانےکا راستہ دکھا دیتا۔وہ کہتا ڈاکٹر صاحب  بڑے نرم دل انسان ہیں انہوں  نے فری میڈیکل کیمپ میں اعلان کیا تھاکہ ایک ماہ تک  ذیابطیس کےمریضوں کا مفت علاج کریں گے۔   شرما جی کے دواخانے میں ایسے لوگوں  کی بھیڑ لگ گئی جو سرے سے بیمار ہی نہیں تھے۔
ڈاکٹر شرما نے ان  مصنوعی مریضوں  کو گیتانجلی میڈیکل اسٹور کے لیٹر پیڈ پر وٹامن کی گولیاں لکھنی شروع کردیں ۔ اس نئے میڈیکل اسٹور میں پہلے  ایک ماہ تک ۲۰ فیصد کی چھوٹ تھی       اس لئے سارے لوگ وہیں کا رخ کرتے تھے ۔جن سیوا کے صدر کو نندو اور شرما کی سانٹھ گانٹھ پر شک ہوگیا اور اس سے قبل کے وہ کوئی گڑبڑ کرتا شرما نے پولس کی مدد سے جے ایس ایس کو دہشت گرد تنظیم قراردے دیا ۔ اس کے بعدنندو نے چائے کی دوکان  اپنے  سالے چندو کے حوالے  کردی اور خود این ایس ایس نامی سماجی فلاح و بہبود کی تنظیم کھول کر بیٹھ گیا جس کا جنرل سکریٹری ڈاکٹر شرما اور خزانچی گیتانجلی شرما تھی۔   این ایس ایس نے جے ایس ایس پر پابندی کے خلاف ایک زبردست دھرنے کا اعلان کردیا۔ سارا محلہ این ایس ایس زندہ باد کا نعرہ لگا رہا تھا ۔ مظاہرے میں   نندونے  شرما  سے کہا گاوں کے اگلے پردھان آپ ہی ہوں گے ۔ شرما نے پوچھا اور تم ؟ نندو بولا میں تو پردھان  سیوک بنوں گا۔